فی الحال مفاہمت کی سیاست کارگر اور نتیجہ خیز نظر نہیں آ رہی

فی الحال مفاہمت کی سیاست کارگر اور نتیجہ خیز نظر نہیں آ رہی

(تجزیہ: سلمان غنی ) ملک میں جاری قومی مفاہمتی عمل اور خصوصاً پی ٹی آئی کی جانب سے مقتدرہ کے ساتھ مفاہمتی پیشکش کا سلسلہ اس وقت دم توڑ گیا جب بانی پی ٹی آئی کی جانب سے بیرون ملک شائع ہونے والے ایک آرٹیکل میں سکیورٹی ادارے اور خصوصاً اس کے سربراہ کے حوالہ سے تحفظات ظاہر کیے۔

جس پر مفاہمت کیلئے سرگرم خود ان کی جماعت کے بعض ذمہ داران نے یہ تحفظات ظاہر کرتے ہوئے واضح کردیا کہ جب تک لیڈر شپ کی سطح پر یکسوئی نہیں ہوتی ایسی کوششوں کا کیا جواز ہے اور صورتحال میں ان کوششوں کے اثرات خود جماعت پر اچھے نہیں پڑ رہے لہٰذا اس امر کا جائزہ لینا ضروری ہے کہ ملک کے اندر مفاہمتی سیاست میں بڑی رکاوٹ کون ہے اور سیاسی محاذ پر اس حوالہ سے پیش رفت کیونکر نہیں ہو پا رہی۔جب بانی پی ٹی آئی کا ایک آرٹیکل بیرون ملک شائع ہوا جس میں ریاستی ادارے اور اس کی قیادت کو ٹارگٹ کیا گیا تھا اور ادارے کے حوالہ سے عام تاثر یہ ہے کہ وہ سب کچھ برداشت کرسکتے ہیں لیکن اس کی کوشش کو نظرانداز نہیں کرتے جس کے اثرات ادارے کی تنظیمی مضبوطی پر ہوں یہی وجہ ہے کہ آرٹیکل کی اشاعت کے بعد پارٹی کے ایک ذمہ دار اور قومی اسمبلی کے سابق سپیکر اسد قیصر نے لاہور میں سینئر صحافیوں اور اینکرز سے ملاقات میں اپنی دو روز قبل ہونے والی بانی پی ٹی آئی سے ملاقات میں واضح کردیا کہ اسٹیبلشمنٹ سے کسی مفاہمتی مذاکرات کا کوئی جواز نہیں اور نہ ہی اس حوالہ سے کسی بھی سطح پر کوئی کوشش ہو رہی ہے ۔

جہاں تک مفاہمتی عمل کا سوال ہے تو اس کی کنجی سازگار ماحول ہے اور جب تک مفاہمتی ماحول نہیں بنے گا مفاہمتی عمل آگے نہیں بڑھے گا۔افسوسناک امر یہ ہے کہ بانی پی ٹی آئی کو تمام سیاستدانوں سے ماورا سمجھتے ہیں اور مخالف سیاستدانوں پر الزام تراشی اور گالی گلوچ کے عمل نے ہی ان کے درمیان ڈیڈ لاک پیدا کیا ہے اور یہی وجہ ہے کہ حکمران جماعتیں بھی مفاہمتی عمل پر اس لئے پیش رفت نہیں کررہیں کہ وہ سمجھتی ہیں کہ اس عمل سے بانی پی ٹی آئی کو راستہ ملے گا اور ان کی پوزیشن متاثر ہوگی لیکن وہ یہ بھول رہے ہیں کہ بدلے کی سیاست میں ہمیشہ نقصان سیاستدان کا ہوتا ہے اور مفاہمت ہمیشہ اس وقت کامیاب ہوتی ہے جب ایک دوسرے کے خلاف الزام تراشی سے احتراز برتا جائے اور سیاسی طرز عمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے یہ باور کرایا جائے کہ وہ دوسروں کی باتوں کو ہضم کرنے کیلئے تیار ہیں اور مفاہمت کی سیاست کچھ لو کچھ دو کی بنیاد پر ہوتی ہے لہٰذا فی الحال مفاہمت کی سیاست کارگر اور نتیجہ خیز بنتی نظر نہیں آ رہی کیونکہ اس میں سوچ و فکر کا فقدان اور ایک دوسرے کی عدم قبولیت کا جذبہ حاوی ہے اور یہ صورتحال معاملات میں بگاڑ تو پیدا کرتی ہے اس سے ٹھہراؤ نہیں آتا۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں