نومنتخب برطانوی وزیراعظم کے سامنے بھی معیشت ہی چیلنج

نومنتخب برطانوی وزیراعظم کے سامنے بھی معیشت ہی چیلنج

(تجزیہ: سلمان غنی) دنیا کی سب سے پرانی برطانوی جمہوریت نے ایک مرتبہ پھر بڑی جمہوریت ہونے کا ثبوت فراہم کر دیا اور انتخابات میں شکست کھانے والے وزیراعظم رشی سوناک نے اپنی شکست تسلیم کرتے ہوئے نئے وزیراعظم کیئر سٹارمر کو مبارکباد دی اور اس طرح سے برطانیہ میں کنزر ویٹو کا 14سالہ ا قتدار اپنے انجام کو پہنچ گیا۔

برطانوی انتخابات پر عالمی میڈیا کی رپورٹس میں انتخابی نتائج کے حوالہ سے دعوے درست ثابت ہوئے ان رپورٹس میں برطانیہ میں بڑھتے ہوئے مسائل خصوصاً مہنگائی کے رجحان اور یوٹیلیٹی بلز میں اضافہ کے عمل کو بنیاد بناتے ہوئے کہا گیا کہ اس پر قابو پانا حکومت کے بس میں نہیں رہا لہٰذا برطانوی عوام اپنی حکومت پر دوبارہ اعتماد نہیں کر پائیں گے ۔مذکورہ انتخابی عمل میں آزاد امیدوار بھی میدان میں تھے لیکن انہیں کوئی قابل ذکر کامیابی نہ مل سکی برطانیہ میں ووٹرز کی تعداد تقریباً چار کروڑ ساٹھ لاکھ اور پولنگ سٹیشن تقریباً چالیس ہزار کے قریب بنائے جاتے ہیں اور ان پولنگ سٹیشن پر بہت ہی کم ایسا ہوا ہوگا کہ کسی قسم کی ہنگامی کیفیت دکھائی دیتی ہو ،لیبر پارٹی نے تبدیلی کا نعرہ لگایا تھا اور اس کے لیڈر سٹارمر کے حوالہ سے یہ تاثر نمایاں تھا کہ وہ اعتدال پسند اور عمل پر یقین رکھنے والے لیڈر ہیں اور بہت کچھ کر دکھانے اور کر گزرنے کی اہلیت و صلاحیت رکھتے ہیں لیبر پارٹی نے سرمایہ کاری کی حوصلہ افزائی ،ریلوے کی صورتحال کو بہتر بنانے اور توانائی کے تحفظ کو فروغ دینے کیلئے ریاستی توانائی کی کمیٹی بنانے کا اعلان کیا تھا جبکہ سرکاری سکولوں میں ہزاروں نئے اساتذہ کو تنخواہوں کیلئے نجی سکولوں پر ٹیکس لگانے اور صحت عامہ کیلئے اقدامات کا اعلان کیا تھا ۔

برطانوی انتخابات کا مرکزی نکتہ بھی اس دفعہ معیشت کے اردگرد گھومتا نظر آیا ،اب واقعتاً وزیراعظم سٹارمر کیلئے چیلنج معیشت ہی ہوگا کیا وہ اس چیلنج سے نمٹ پائیں گے یہ دیکھنا ہوگا البتہ ماہرین ابھی سے مذکورہ انتخابات کے حوالہ سے یہ کہتے نظر آ رہے ہیں کہ اب اہم جمہوری ممالک میں سیاسی قوتوں کی جیت یا ہار کا انحصار ان کے پاس مقبول قیادتوں کی بجائے ان کی معاشی پالیسیوں پر ہوگا اور معیشت کے میدان میں سرخرو ہونے والوں کو ہی پذیرائی مل پائے گی۔ جمہوری عمل وہیں مضبوط موثر اور نتیجہ خیز ہوتا ہے جہاں انتخابی عملی شفاف اور نتائج تسلیم کئے جاتے ہیں اور یہی ان کی جمہوری کامیابی کا ثبوت ہے ،تاہم پاکستان کا ریکارڈ اچھا نہیں انتخابی عمل کی شفافیت اور انتخابی نتائج ہمیشہ سے پاکستان میں ایک مسئلہ بنا رہا ہے اور ہارنے والا نتائج تسلیم کرنے کو تیار نظر نہیں ہوتا اور جیتنے والا کسی کے تحفظات دور کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتا یہی وجہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی استحکام قائم نہیں ہو سکا اور اس سیاسی استحکام نہ آنے کے مضر اثرات نہ صرف ملکی سیاسی صورتحال پر نظر آتے ہیں، انتشار خلفشار تناؤ ٹکراؤ کا رحجان عام رہتا ہے بلکہ اس کے اثرات ملکی معیشت پر بھی آتے ہیں جس کی وجہ سے ملک آگے چلتا نظر نہیں آتا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں