سینیٹ میں65اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ4ارکان کیساتھ225ممبرز نے 26ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا:آئینی ترمیم بالآخر منظور:سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کا قیام،3سینئر ججوں میں سے چیف جسٹس کا تقرر،جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو نئی تقرری تک چیف الیکشن کمشنر عہدہ پر برقرار
اسلام آباداپنے رپورٹر سے ، نامہ نگار ، دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک ، نیوز ایجنسیاں) 26آئینی ترمیم قومی اسمبلی اور سینیٹ سے دوتہائی اکثریت سے منظور کر لی گئی ،سینیٹ میں 65اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 4ارکان کیساتھ 225 ممبرز نے 26ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا ۔ترمیم کے مطابق سپریم کورٹ میں آئینی بینچ قائم ہو گا ، 3سینئر ججوں میں سے چیف جسٹس کا تقرر ہو گا ، جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کی جائے گی۔
سینیٹ میں65اور قومی اسمبلی میں پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ4ارکان کیساتھ225ممبرز نے 26ویں ترمیم کے حق میں ووٹ دیا:آئینی ترمیم بالآخر منظور:سپریم کورٹ میں آئینی بینچ کا قیام،3سینئر ججوں میں سے چیف جسٹس کا تقرر،جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نونئی تقرری تک چیف الیکشن کمشنر عہدے پر برقرار رہے گا ۔سینیٹ میں ترمیم کے حق میں 65 ووٹ ڈالے گئے جبکہ مخالفت میں 4ووٹ پڑے ،پی ٹی آئی نے ترمیم پر رائے شماری کا بائیکاٹ کیا اوراسکے ارکان اجلاس سے اٹھ کر چلے گئے ۔26 ترامیم کی شق وار منظوری دی گئی ۔ایوان بالا میں میں آئینی ترامیم کیلئے پیپلز پارٹی 23مسلم لیگ ن 19جے یو آئی 5بلوچستان عوامی پارٹی 4ایم کیو ایم 3اے این پی 3بلوچستان نیشنل پارٹی 2مسلم لیگ ق ایک نیشنل پارٹی ایک ،آزاد 3 ارکان محسن نقوی، فیصل واوڈا، عبدالقادر نے ووٹ دیا۔قومی اسمبلی میں بھی حکومت دو تہائی اکثریت ثابت کرنے میں کامیاب ہوگئی ۔ ترمیم پیش کرنے کی تحریک پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 5 ارکان سمیت 225 ارکان کے ووٹ سے منظور کرلی گئی جبکہ 12 ارکان نے مخالفت میں ووٹ دیا ۔ بعد ازاں سپیکر نے بل کی شق وار منظوری لی اور 26 ویں ترمیم کا بل 225 ارکان کے ووٹ کے ساتھ منظور کرلیا گیا۔اس موقع پر اپوزیشن ارکان بائیکاٹ کرکے ایوان سے چلے گئے ۔بل کے حق میں حکومتی اتحاد کے ساتھ ن لیگ کے 111 پیپلز پارٹی کے 68 ایم کیو ایم کے 22 جے یو آئی کے 8مسلم لیگ ق کے 5 مسلم لیگ ضیا،نیشنل پارٹی اور بی اے پی کے ایک ایک رکن نے ووٹ دیا جبکہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ 4ارکان نے بل کے حق میں ووٹ دیا۔عادل بازئی کے علاوہ حکمران اتحاد کے تمام ایم این ایز نے ووٹ ڈالا۔اجلاس کی صدارت کے باعث سپیکر قومی اسمبلی ایاز صادق نے بھی اپنا ووٹ نہیں ڈالا۔
حکمران اتحاد کے 215 میں سے 213 ارکان نے ووٹ دیا ۔تحریک انصاف کے حمایت یافتہ چار آزاد ارکان اورنگزیب کھچی، مبارک زیب، عثمان علی اور ظہور قریشی نے بھی ترمیم کے حق میں ووٹ ڈالا۔ قبل ازیں چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیر صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا ، کابینہ میں منظوری کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے 26ویں آئینی ترامیم کا بل سینیٹ میں پیش کیا جس پر چیئرمین سینیٹ نے ایوان کے تمام دروازے بنداورمہمانوں کی گیلری خالی کرنے کا حکم دیا، اس دوران اپوزیشن نے رانا ثنا اللہ اور اٹارنی جنرل کو ایوان سے باہر بھیجنے کا مطالبہ کیا، سینیٹر اسحاق ڈار نے جواب دیا کہ یہاں بیٹھنا ان کا آئینی حق ہے ۔ ترمیم کی منظوری کے دوران اپوزیشن نے شور شرابہ شروع کردی۔ تحریک انصاف اور مجلس وحدت المسلمین کے (ایم ڈبلیو ایم) کے ارکان نے ووٹنگ میں حصہ نہ لیا اور ہال سے نکل کر لابیز میں چلے گئے ۔چیئرمین سینیٹ نے ایوان کے تمام دروازے بند کروا کر ترمیم کی شق وار منظوری کا عمل شروع کردیا، پہلی ترمیم کے حق میں دو تہائی اکثریت 65 ارکان نے ووٹ دیا، 4 نے مخالف کی۔آرٹیکل 48 میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کی گئی کہ وزیراعظم اورکابینہ کی جانب سے صدر کو بھیجی جانے والی کسی بھی ایڈوائس پر کوئی ادارہ ،ٹربیونل اور یااتھارٹی کارروائی نہیں کرسکے گی، سینیٹ نے آرٹیکل 48 میں مجوزہ ترمیم کثرت رائے سے منظور کرلی۔
سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 81 میں ترمیم کی منظوری دے دی، آرٹیکل 81 میں ترامیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن اور سپریم جوڈیشل کونسل کو شامل کردیا گیا ۔سینیٹ میں عدلیہ سے متعلق آرٹیکل 175 اے میں ترمیم سینٹ میں دوتہائی اکثریت سے مظور کرلی گئی ، جسکے تحت سپریم کورٹ اور ہائیکورٹ ججوں تقرری کے لیے کمیشن کا قیام عمل میں لایا جائے گا، ججز تقرری سے متعلق کمیشن 12 ارکان پر مشتمل ہوگا اور چیف جسٹس اسکے سربراہ ہوں گے ۔کمیشن میں سپریم کورٹ کے چارسنیئر ترین جج، وفاقی وزیرقانون، اٹارنی جنرل اور سنیئر وکیل پاکستان بارکونسل، دوارکان اسمبلی اور دو ارکان سینٹ شامل ہوں گے جو بالترتیب حکومت اوراپوزیشن سے لیے جائیں گے اور انکی نامزدگی قومی اسمبلی اور سینیٹ کے قائد ایوان اور اپوزیشن لیڈرکریں گے ۔ترمیم کے مطابق آرٹیکل 175 اے کی شق 3اے کے تحت 12 ارکان پر مشتمل خصوصی پارلیمانی کمیٹی تشکیل دی جائے گی جس میں قومی اسمبلی سے 8، سینیٹ سے چار ارکان کو لیا جائے گا، قومی اسمبلی تحلیل ہونے پرخصوصی پارلیمانی کمیٹی میں تمام ارکان سینیٹ سے ہوں گے ۔خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں تمام سیاسی جماعتوں کی متناسب نمائندگی ہوگی، پارلیمانی لیڈر خصوصی پارلیمانی کمیٹی کے لیے ارکان سپیکر اور چیئرمین سینیٹ کو دینے کے مجاز ہوں گے ، سپیکر قومی اسمبلی خصوصی پارلیمانی کمیٹی کا نوٹیفکیشن جا ری کریں گے ۔
چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے 14 روز قبل سنیارٹی لسٹ فراہم کرنے کے پابند ہوں گے ، چیف جسٹس خصوصی پارلیمانی کمیٹی کو سینئر ترین ججوں کے نام بھجوائیں گے ، پارلیمانی کمیٹی تین ناموں میں سے ایک کا انتخاب کرکے وزیراعظم کو ارسال کرے گی، وزیراعظم چیف جسٹس کی تقرری کے لیے نام صدرکو ارسال کریں گے ۔ منظورہونے والی ترمیم کے مطابق سنیارٹی لسٹ میں موجود نامزد ججوں کے انکار پر پارلیمانی کمیٹی اگلے سنیئر ترین جج کے نام پر غور کرے گی، پارلیمانی کمیٹی نامزدگیوں پر اس وقت تک جائزہ لے گی جب تک چیف جسٹس کا تقرر نہ ہوجائے ۔ آئینی ترمیم کے منظوری کے بعد چیف جسٹس ریٹائرمنٹ سے تین روز قبل نام پارلیمانی کمیٹی کو بھجوانے کے پابند ہوں گے اور چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے خصوصی پارلیمانی کا اجلاس ان کیمرہ ہوگا، قومی اسمبلی تحلیل ہوجانے پردو ارکان سینیٹ سے لیے جائیں گے ، آرٹیکل 68 کا اطلاق چیف جسٹس تقرری سے متعلق قائم خصوصی پارلیمانی کمیٹی کی پروسیڈنگ پر نہیں ہوگا۔ترمیم میں کہا گیا کہ سپریم جودیشل کمیشن کو ہائیکورٹ کے ججوں کی سالانہ بنیادوں پر کارگردگی کا جائزہ لینے کا اختیار ہوگا، ہائیکورٹ میں جج کی تقرری غیر تسلی بخش ہونے پر کمیشن جج کو کارگردگی بہتر بنانے کے لیے ٹائم فریم دے گا اور دی گئی ٹائم فریم میں جج کی کارگردگی دوبارہ غیر تسلی بخش ہونے پر رپورٹ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھجوائی جائے گی۔
ترمیم کے مطابق چیف جسٹس سپریم کورٹ، چیف جسٹس ہائیکورٹس یا کمیشن میں موجود ججوں کی غیر تسلی بخش کارگردگی کا معاملہ سپریم جوڈیشل کونسل دیکھے گی، سپریم کورٹ اورہائیکورٹ کے جج کو مذکورہ ترمیم کے تحت ہٹایا جا سکے گا، کونسل جسمانی یا ذہنی معذوری، غلط برتاؤ اور دفتری امور بہتر انجام نہ دینے پر کمیشن کی رپورٹ یا صدر کی درخواست پر انکوائری کرے گا۔آئینی ترمیم کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل بنا تاخیر کے 6 ماہ کے اندرمتعلقہ ججوں سے متعلق انکوائری مکمل کرنے کا پابندی ہوگی، جوڈیشل کمیشن رپورٹ میں فرائض کی انجام دہی میں قاصر، بد تمیزی یا غیر تسلی بخش کارگردگی کے مرتکب ہونے پر صدر مملکت کو کارروائی کا اختیار ہوگا۔صدر کے پاس جوڈیشل کونسل کی رپورٹ پر سپریم کورٹ یا ہائیکورٹ کے کسی بھی جج کو عہدے سے ہٹانے کا اختیار ہوگا، ججوں کی تقرری سے متعلق کمیشن کا اجلاس ایک تہائی ارکان کی درخواست پر بلایا جا سکے گا، چیئرمین کمیشن کسی بھی درخواست پر 15 دن کے اندرکمیشن کا اجلاس بلانے کا پابند ہوگا۔
سینیٹ سے آرٹیکل177 میں ترمیم کے تحت دوہری شہریت کا حامل کوئی شخص سپریم کورٹ کا جج نہیں بن سکے گا، آرٹیکل177 میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کا جج بننے کے لیے ہائی کورٹ میں بطور جج 5 سال کام کرنے کی حد مقرر ہوگی، کسی بھی وکیل کا سپریم کورٹ جج بننے کے لیے بطور وکیل 15 سال کی پریکٹس لازم ہوگی۔آئین کے آرٹیکل179 میں ترمیم بھی دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی ، جسکے تحت چیف جسٹس آف پاکستان کا تقرر تین سال کے لیے ہوگا اور چیف جسٹس 65سال کی عمرمیں ریٹائرہوں گے ۔سینیٹ نے آرٹیکل184 میں ترمیم کی بھی منوری دے دی، جسکے تحت سپریم کورٹ کا ازخودنوٹس کا اختیار ختم کردیا گیا اور آرٹیکل 184کے تحت سپریم کورٹ دائر درخواست کے مندرجات یا اختیارات سے ماورا از خود کوئی فیصلہ یا ہدایت نہیں دے گا۔آرٹیکل 186 اے میں ترمیم بھی سینیٹ میں منظور کرلی گئی، ہائیکورٹ کے فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں اپیل دائر کرنے کی فیس 50 ہزار سے بڑھا کر10 لاکھ روپے کر دی گئی۔ آئین کے آرٹیکل187 میں ترمیم کے تحت سپریم کورٹ کے زیر اختیار اور استعمال کردہ دائرہ اختیار کی پیروری کے علاوہ کوئی حکم منظور نہیں کیا جائے گا۔
آئین میں آ رٹیکل 191 اے شامل کرنے کی ترمیم سینیٹ سے دوتہائی اکثریت سے منظور کرلی گئی، آرٹیکل191کے تحت آئینی بنچز کی تشکیل کی جائے گی، سپریم کورٹ میں ایک سے زیا دہ آئینی بینچز کی تشکیل کی جا سکے گی اور سپریم جوڈیشل کونسل آئینی بینچز کے ججوں اور انکی مدت کا تعین کرے گی۔آئینی بینچز میں تمام صوبوں کے ججوں کی مساوی نمائندگی ہوگی، اس شق کے تحت کوئی حکم سپریم کورٹ کے زیراختیار اوراستعمال کردہ کسی دائرہ اختیار کی پیروی کے علاوہ منظور نہیں کیا جائے گا، آئینی بینچ کے علاوہ سپریم کورٹ کا کوئی بینچ مذکورہ دائرہ اختیار کو استعمال نہیں کرے گا۔آئینی بینچ کم از کم پانچ ججوں سے کم ججوں پر مشتمل ہوگا، سپریم جوڈیشل کونسل کے تین سنیئر جج آئینی بینچوں کی تشکیل دیں گے ، زیرالتوا اور زیر سماعت تمام آئینی مقدمات، نظرثانی اور اپیلیں آئینی بنچوں کو منتقل کیے جائیں گے ۔سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 81 میں ترمیم کی منظوری دے دی، آرٹیکل 81 میں ترامیم کے ذریعے جوڈیشل کمیشن آف پاکستان اور سپریم جوڈیشل کونسل کو شامل کردیا گیا ہے ۔آئین کے آرٹیکل 193 میں ترمیم منظوری کے لیے سینیٹ میں پیش کی گئی جسکے تحت دوہری شہریت کا حامل کوئی بھی شخص ہائیکورٹ کا جج نہیں بن سکتا، آئینی ترمیم میں ہائیکورٹ جج کے لیے 40 سال عمر اور10 سال تجربے کی حد مقرر ہوگی۔آئین کے آرٹیکل 199 اے میں ترمیم سینیٹ سے منظور کرلی گئی، جسکے تحت ہائی کورٹ دائر درخواست کے مندرجات سے باہرازخود کوئی حکم یا ہدایت کا اختیار نہیں ہوگا۔
آرٹیکل209 میں ترمیم سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کی گئی، آرٹیکل 209 کے تحت سپریم جوڈیشل کونسل کا قیام عمل میں لایا جائے گا، سپریم جوڈیشل کونسل 5 ارکان ٍپر مشتمل ہوگی، چیف جسٹس سپریم جوڈیشل کونسل کے سربراہ ہوں گے ، سپریم کورٹ کے دو سینئر جج اور ہائیکورٹس کے دو سنیئر ججز کونسل کا حصہ ہوں گے ۔آرٹیکل 215 کے تحت چیف الیکشن کمشنر اور ارکان اپنی مدت پوری ہونے پر نئے کمشنر اور اراکین کی تعیناتی تک کام جاری رکھنے کے اہل ہوں گے اور اس ترمیم کی بھی کثرت رائے سے منظوری دی گئی۔سینیٹ نے آئین کے آرٹیکل 255 میں ترمیم کی بھی منظوری دی جسکے تحت کسی شخص کے سامنے حلف اٹھانا نا قابل عمل ہونے پر سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور صوبائی سطح پر ہائیکورٹ کے چیف جسٹس حلف لینے کے مجاز ہوں گے ۔ آرٹیکل 255 میں ترمیم بھء منظور ہوگئی، ترمیم کے حق میں 65 ارکان نے ووٹ دیا۔چیئرمین سینیٹ نے آئینی ترمیم کی منظوری کے بعد لابیز کی تقسیم کا اعلان کیا اور آئینی ترمیم کے حق میں ارکان کے لیے دائیں ہاتھ کی لابی اور مخالفت کے لیے بائیں جانب کی لابی مقرر کی ، لابی سے باہر دستخط کے لیے رجسٹر اور سینیٹ کا عملہ موجود تھے اور ارکان سینیٹ رجسٹر پر دستخط کر کے لابی میں داخل ہوئے ۔
چیئرمین سینیٹ نے ووٹنگ کے نتائج کا اعلان کردیا اور کہا کہ بل کے حق میں 65 ارکان نے ووٹ دیا اور مخالفت میں 4 ووٹ آئے ، یوں حق میں پڑنے والے ووٹوں کی تعداد سینیٹ کی مجموعی تعداد کی دوتہائی سے کم نہیں ، جسکے نتیجے میں یہ ترامیم منظور ہوگئی ہیں۔26ویں آئینی ترمیم کی وفاقی کابینہ سے منظوری کے بعد وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا تھا کہ جے یو آئی ف نے اس مسودے میں پانچ ترامیم تجویز کی ہیں جن کا تعلق آئین میں موجود اسلامی شقوں میں وضاحت کے لیے ہے ۔ چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے 12 رکنی کمیٹی بنائی جائے گی، جس میں آٹھ ایم این ایز اور چار سینیٹر شامل ہوں گے ۔ کمیٹی میں حکومت اور حزبِ اختلاف کی متناسب نمائندگی ہوگی۔ یہ کمیٹی دو تہائی اکثریت کے ساتھ جو چیف جسٹس کے لیے نام تجویز کرکے وزیرِ اعظم کو بھیجے گی۔ چیف جسٹس کی مدت ملازمت تین سال یا ریٹائرمنٹ کی عمر یعنی 65 سال تک مقرر کیا گیا ہے ۔ ان تجاویز میں وفاقی شرعی عدالت کے ججوں کی تقرری بارے ایک شق شامل کی گئی ہے ۔اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد کا دورانیہ دو سال سے کم کرکے ایک سال تجویز کی گئی ہے ۔ شریعت کورٹ کی سود کے متعلق فیصلے کو پالیسی میں شامل کرنے کے لیے اسے آئین میں شامل کیا گیا۔
شرعی کورٹ کی اپیل کی سپریم کورٹ میں سماعت سے متعلق موجود ابہام کو دور کرنے کی کوشش کی گئی ہے ۔ صوبوں میں آئینی بینچوں پر عملدرآمد کے لیے متعلقہ صوبائی اسمبلی میں سادہ اکثریت سے اسکی منظوری دی جائے گی۔ یہ تجویز پی پی پی کی جانب سے پیش کی گئی تھی۔وزیرِ قانون کے مطاق پی پی پی کا کہنا تھا کہ اس صوبے کی اسمبلی کو حق ہونا چاہیے کہ اگر اس صوبے کی ہائیکورٹ کی آئینی بینچ تشکیل دینا چاہے تو وہ کر سکے ۔ آئینی بینچوں کی تشکیل کا اختیار چیف جسٹس کی سربراہی میں جو جوڈیشنل کمیشن بنایا گیا ہے ۔ اسکے علاوہ اقلیتوں اور خواتین کے مسائل کی نمائندگی کے لیے ایک اقلیتی یا خاتون ممبر بھی شامل کی جائیں گی جن کا تعلق پارلیمان سے نہیں ہوگا۔ اس ممبر کا انتخاب سپیکر اسمبلی کریں گے ۔اس کے لیے شرط ہوگی کہ وہ بطور ٹیکنوکریٹ سینیٹر منتخب ہونے کی اہلیت رکھتے ہوں۔ صوبائی جوڈیشل کمیشن کی تشکیل میں کوئی تبدیلی نہیں کی گئی جوصوبائی چیف جسٹس کی مشاورت سے ججوں کی کارکردگی کو جانچنے کا فارمولا مرتب کرے گا۔وفاقی اور صوبائی سطح پر آئین اجازت دیتا ہے کہ پانچ پانچ ٹیکنیکل ایڈوائزرز رکھ سکتے ہیں۔ اب صوبائی ایڈوائزر کو بھی صوبائی اسمبلی میں پیش ہونا ہوگا۔ چیف جسٹس کی تعیناتی بھی اس آئینی پیکیج کا حصہ ہے ۔
وزیراعظم اورکابینہ کی جانب سے صدر کو بھیجی جانے والی کسی بھی ایڈوائس پر کوئی ادارہ ،ٹربیونل یا اتھارٹی کارروائی نہیں کرسکے گی۔نائب وزیر اعظم سینیٹر اسحاق ڈار نے کہا آج تاریخی دن ہے ، کئی ماہ کی محنت کے بعد آئینی تاریخ منظور کرلی گئی، جس پر سب کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔سینیٹ اجلاس میں اظہار خیال کرتے انہوں نے کہا جس نے آئینی ترمیم کے عمل میں حصہ لیا وہ مبارکباد کا مستحق ہے ۔ میثاق جمہوریت کا نامکمل ایجنڈا پورا ہوگیا ۔ پارلیمانی کمیٹی میں پی ٹی آئی کے عامرڈوگر نے بھی آئینی ترمیم کی متفقہ منظوری دی، ترمیم کسی کا ذاتی ایجنڈا نہیں ، ایک جماعت باہر رہ گئی ہے یہ ان کا حق ہے ۔وزیراعظم شہباز شریف اور بلاول بھٹوزرداری نے چارٹر آف ڈیموکریسی کا نامکمل ایجنڈہ پورا کر دیا، مسلم لیگ نے کوشش کی آئینی ترمیم تمام سیاسی جماعتوں کے اتفاق رائے سے ہو۔ آئینی ترمیم کے لیے پارلیمان کی خصوصی کمیٹی بنائی گئی جسکے 16 اجلاس ہوئے ۔سینیٹر شیری رحمان میں ایوان میں کہا پارلیمانی کمیٹی کا 10بار اجلاس ہوا، علی ظفر اس اجلاس کا حصہ تھے ، پارلیمانی کمیٹی میں پی ٹی آئی نے ایک بھی تجویز نہیں دی ۔
ترامیم کیلئے ہر دوست نے انتھک محنت کی، سب تسلیم کریں گے بلاول بھٹو نے آئینی ترامیم کیلئے بہت محنت کی ، آج میثاق جمہوریت کے تسلسل میں یہ آئینی ترمیم لائی جارہی ہے ۔ 18ویں ترمیم کے ذریعے پیپلز پارٹی نے وفاق کو بچانے کا مکمل ڈھانچہ پیش کیا ، بتائیں اس بل میں کون سا کالا ناگ ہے ؟ مولانا تو ہمارے ساتھ ہیں، اچھا ہوتا تحریک انصاف بھی پارلیمانی کمیٹی میں سفارشات پیش کرتی۔ایمل ولی خان نے سینیٹ میں اظہارخیال کرتے ہوئے کہا ہے کہ لوگ یاد کریں گے ہم نے ثاقب نثار،جسٹس کھوسہ جیسے ججزکی آئندہ تقرری روک دی۔مولانا عطا الرحمان نے کہا آئین کی وجہ سے آج ملک سلامت ہے ، آج اگرپارلیمنٹ محفوظ ہے تواس آئین کی وجہ سے ہے ، جب بھی آئین میں ترمیم کی بات ہوتی ہے ، جے یو آئی کوتشویش ہوتی ہے ۔ ترمیم کا ہم نے بغورمطالعہ کیا، پہلے جو ترمیم پیش کی گئی تھی اس میں ملک کوخدشہ تھا۔سینیٹر علی ظفر نے کہا کہ آئین قوم کو متحد کرنے کیلئے رضا مندی اور اتفاق رائے سے بنایا جاتا ہے ، ترامیم میں اتفاق رائے نہ ہو تو قوم کو نقصان ہوتا ہے ۔ 1962کا آئین مسلط کیا گیا جو 8سال بعد ختم ہوگیا ، لوگوں کے بیوی ، بچے اغوا کرکے ووٹ لینے کا عمل اتفاق رائے نہیں ، آج بھی ہمارے کچھ سینیٹرز اور انکے اہل خانہ اغوا ہیں، ترمیم میں رضا مندی شامل نہیں ۔
ایم کیو ایم کے سینیٹر فیصل سبزواری نے کہا ترمیم کے مسودے پر خاصی عرق ریزی کی گئی ، عام لوگوں کو کئی سال تک عدالتوں سے انصاف نہیں ملتا، اگر عدالت اپنا کام فعال طریقے سے کرے تو اس میں عوام کا فائدہ ہے ، عوام کے مقدمات کئی کئی سال عدالتوں میں چلتے ہیں۔ کوئی رہنما تقریر کردے تو صبح نوٹس لے لیا جاتا ہے ، صوبوں میں بلدیاتی نظام کو اختیارات نہیں دیئے گئے ، آئین کہتا کہ صوبائی خود مختاری کے ساتھ صوبوں کو بھی اختیارات دیئے جائیں۔قبل ازیں وفاقی کابینہ نے حکومتی اتحادی جماعتوں بشمول پیپلز پارٹی کا 26 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ منظور کر لیا جبکہ وزیراعظم شہباز شریف نے کہا کابینہ نے ملکی ترقی اور عوامی فلاح کے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ملکی وسیع تر مفاد میں فیصلہ کیاہے ۔گزشتہ روز وزیراعظم آفس سے جاری بیان کے مطابق وزیراعظم شہباز شریف کی زیرِ صدارت وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا۔ وزیرِ قانون و انصاف نے 26 ویں آئینی ترمیم پر دوبارہ تفصیلی بریفنگ دی۔وفاقی کابینہ نے حکومتی اتحادی جماعتوں بشمول پیپلز پارٹی کا 26 ویں آئینی ترمیم کا مجوزہ مسودہ منظور کر لیا۔وزیراعظم نے کہا ملکی ترقی و خوشحالی اور ملکی حالات کی بہتری کیلئے کابینہ نے بہترین فیصلہ کیا۔پوری قوم کو 26 ویں آئینی ترمیم کی کابینہ سے منظوری کی مبارکباد ہو۔
کابینہ نے ملکی ترقی اور عوامی فلاح کے حلف کی پاسداری کرتے ہوئے ملکی وسیع تر مفاد میں فیصلہ کیا۔اللہ کے فضل و کرم سے ملکی معیشت کے استحکام کے بعد ملک کے آئینی استحکام اور قانون کی حکمرانی کیلئے ایک سنگ میل عبور ہوا۔ادھر پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری نے قومی اسمبلی میں خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ بل کی کامیابی میں سب سے زیادہ محنت میری نہیں،مولانا کی ہے ،مولانا فضل الرحمن کا کردار تاریخ یاد رکھے گی، آئین سازی کے عمل میں سب سے بڑاکردارمولانا فضل الرحمن کا رہا،صدر زردادی کے بعد کسی کو مانتاہون تووہ مولانا فضل الرحمن ہیں،میں اگر قرآن پاک کے بعد کسی کتاب کو مانتا ہوں وہ پاکستان کا آئین ہے ، قرآن کی آیات پڑھتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اللہ جسے چاہیے عزت عطا کرتا ہے ، جتنی ہم نے اپنے پارلیمان اور دستور اور آئین سازی کے عمل کی عزت رکھی ہے تو اس میں بھی کردار مولانا فضل الرحمن کا ہے ۔یہ سیاست کی فتح ہے ، یہ جمہوریت کی فتح ہے ، یہ سیاسی جماعتوں کی فتح ہے اور تحریک انصاف ووٹ دے نہ دے ، یہ اُن کی بھی سیاسی کامیابی ہے ،ہماری عدالتوں کا کام جمہوریت، آئین کا تحفظ کرنا، آمر کا راستہ روکنا تھا لیکن انہوں نے کبھی یہ ذمہ داری پوری نہیں کی۔
ہم نے 18ویں ترمیم کے وقت اس دور کے حالات کے مطابق کام کیا،آج کے دور کا اپنا سیاسی سپیس ہے ،سیاسی جماعتوں کے لیے آج جتنا سپیس ہے اتناماضی میں نہیں رہا،جتنا اتفاق رائے پیدا ہوسکتا تھا اُتنا حاصل کیا ہے ۔ ان کا کہنا تھا کہ 1973 کے آئین کے وقت جے یو آئی ان بینچوں پر بیٹھی تھی اور پیپلز پارٹی ان بینچوں پر بیٹھی تھی،جب پاکستان کی بات آتی تھی تو سارے اختلاف بھول کر ایک میز پر بیٹھ کر آئین دلوایا تھا،ہمارے آئین میں تمام کالے قوانین کو ہم نے اپنے آئین سے نکلوا دیا،سیاست دان کا امتحان ہی یہ ہوتا ہے کہ جتناسپیس ملتا ہے اس سپیس پر کتنا کھیل سکتے ہو ،تاثر دیا جاتا ہے سیاست دان ہاتھ تک ملانے کا نہیں تیار،جتنا اتفاق رائے پیدا ہو سکتا تھا وہ ہم نے حاصل کرکے 26 ویں ترمیم کی شکل میں پاس کرنے جارہے ہیں۔ پاکستان کے عوام کے لیے سمجھانا چاہتا ہوں کہ ہم کتنا بڑا کام کرنے جا رہے ہیں،پاکستان کے عوام سے پوچھنا چاہوں گا کہ کیا وہ پاکستان کیے نظام عدل سے مطمئن ہیں یا نہیں،پاکستان کے عوام کیا یہ چاہتے ہیں کہ جیسے عدالت کا نظام چلتا آ رہا ہے ویسا ہی چلے ؟ہماری عدالت کام تھا جمہوریت کا تحفظ آئین کا تحفظ کرنا،ہماری عدالت کا کام تھا آمر کو روکنا،کیا ہم بھول چکے ہیں کہ عدالت کی تاریخ کیا ہے۔
عدالت نے یہ ذمہ داری کب پوری کی،بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ آئینی عدالت کے قیام کی سب سے پہلے قائد اعظم محمد علی جناح نے بات کی تھی، اس کے بعد 2006 میں تمام سیاسی جماعتوں نے آئینی عدالت بنانے پر اتفاق کیا تھا اور آج ا مولانا فضل الرحمن کی تجویز پر آئینی عدالت کے بجائے آئینی بینج بنائے جا رہے ہیں۔بلاول بھٹو نے کہا کہ جراتمندانہ فیصلے لینے پر آج بھی جسٹس دراب پٹیل کو تاریخ میں یاد رکھا جا رہا ہے جسٹس دراب پٹیل کو کرسی کی فکر ہوتی تو پی سی او کا حلف لیتے اور چیف جسٹس بنتے ، لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔پاکستان میں ڈکٹیٹرشپ کو کامیاب کرنے میں صف اول کا کردار عدالتوں کا رہا ہے ۔ زہر والا کالا سانپ جو پارلیمان کے اردگرد گھوم رہا ہے ، جس نے وزرائے اعظم کو فارغ کروایا، وہ کالا سانپ افتخار چوہدری والی عدالت کا کالا سانپ ہے - ہم نے 58-2B ختم کیا تو عدالتوں نے اُسے زندہ کردیا-وردی میں صدر کا الیکشن لڑنے کی اجازت عدالت نے دی، مشرف نے راج کیا اجازت عدالت نے دی،ایک وزیر اعظم کو پھانسی دی ، پھر ایک وزیر اعظم کو خط نہ لکھنے پر گھر بھیج دیا ، پھر ایک وزیر اعظم کو بیٹے سے تنخواہ نہ لینے پر گھر بھیج دیا، یہ ہیں وہ کالے سانپ۔ نئی تقرری تک چیف الیکش