سموگ :حکومتی مہم کارگر ثابت نہیں ہوئی ، اثرات سامنے نہ آئے

سموگ :حکومتی مہم کارگر ثابت نہیں ہوئی ، اثرات سامنے نہ آئے

(تجزیہ:سلمان غنی) بلا شبہ سموگ کے رجحان نے ہر طبقہ فکرکو پریشان کررکھا ہے اور حکومت بھی اس سے نمٹنے کیلئے سرگرم نظر آرہی ہے ،سموگ کے انسانی صحت پر اثرات سے بچنے کیلئے خصوصاً سکولوں کالجز بند اور مخصوص علاقوں میں لاک ڈاؤن کا بھی اعلان ہوا ہے۔

 حکومتی اعلانات اور اقدامات کس حد تک نتیجہ خیز ہوتے ہیں یا ہونگے قطع نظر اسکے اب تک یہ معلوم نہیں ہوسکا سموگ کے رجحان کا سد باب کیسے ممکن ہے اور اسکے اثرات کو کس حد تک کم کیا جاسکتا ہے بظاہر تو سموگ کی وجوہات میں فصلوں کولگائی جانے والی آگ کوڑا اور انڈسٹریز سے نکلنے والا دھواں اورخصوصاً پرانی گاڑیوں ،رکشوں، موٹر سائیکلزاور غیر معیاری ایندھن اسکی اہم وجوہات ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ حکومت کی چلائی جانے والی مہم کے اثرات سامنے نہیں آئے ۔پکڑ دھکڑ صورتحال میں بہتری کی بجائے الٹا جیبیں کاٹنے کا باعث بن رہی ہے اور اس طرح سے دفعہ144کے مقاصد بھی پورے نہیں ہوئے اور یہ سلسلہ ہر سال ہی سموگ بحران کے باعث نظر آتا ہے اور اس بنا پر بھی احتجاج اور شکایات عام ہوجاتی ہیں یہ سلسلہ تقریباً ایک دہائی سے جاری ہے لیکن ہر سال سموگ کے رجحان پر قابوپانے کیلئے اقدامات اور اعلانات تو ہوتے ہیں لیکن شکایات کا سد باب نہیں ہوتا ۔ ٹرانسپورٹ شعبہ اور خصوصاًانڈسٹریلائزیشن عمل اور کھیتوں کھلیانوں میں فصلوں کی باقیات کو آگ نہ لگانے کیلئے کسانوں کو تیار کرنا ضروری ہے ویسے تو آج کے حالات میں انڈسٹریز کے باعث آلودگی سے بچنے کیلئے ضروری ہے کہ بجلی کا استعمال کریں تاکہ دھوئیں کا امکان ہی نہ رہے اور دھواں چھوڑنے والی گاڑیوں خصوصاً بہت زیادہ وزن اٹھانے والی ویگنوں کا تدارک کیا جائے اور یہ سارا عمل تب درست ہوسکتا ہے کہ پبلک ٹرانسپورٹ کو یقینی بنایا جائے تاکہ ٹریفک کا لوڈ بھی کم ہو اور زیادہ سے زیادہ عوام بسوں کے ذریعہ سفری سہولتیں حاصل کریں ۔اب ہمیں یہ سمجھ لینا چاہیے کہ اس رجحان کے سامنے آنکھیں بند کرنے کی بجائے کھولنے کی ضرورت ہے ۔آج اگر لاہور کو ہاؤسنگ سکیموں کا شہر کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا درختوں کا شہر ہاؤسنگ سکیموں کے شہر میں کیونکر تبدیل ہوا اس پر سوچنا ہوگا ،مستقبل کی حکمت عملی میں بھی زرعی زمینوں کی حفاظت کرنا ہوگی ۔حکومت کیساتھ ساتھ تمام طبقات اور مختلف شعبہ جات کو بھی اپنی اپنی ذمہ داری ادا کرنا ہوگی ،فضا کو آلودہ بنانے والے ہر عمل کو انسانیت کا دشمن سمجھتے ہوئے اس سے بچنا چاہئے ، ویسے بھی اگر یہ کہا جائے کہ اب صرف اچھی آب وہوا یا آکسیجن پر کوئی ٹیکس نہیں اور جینے کے عمل میں یہ ناگزیر بھی ہے لہٰذا حکومت کو اس حوالے سے مربوط حکمت عملی بنانا ہوگی اور صحت عامہ کے مسئلہ کو بحران سمجھتے ہوئے اس پر قابو پانا ہوگا ۔ کیا ہی اچھا ہوتا کہ پنجاب حکومت عدالت میں یہ بیان دیتی کہ ہم اگلے نومبر دسمبر تک پنجاب کو ماحولیاتی مسائل سے پاک صوبہ بنائیں اور آلودگی کے ذمہ دارسزا سے نہیں بچ سکیں گے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں