ریاستی بحران میں سب کو ایک قدم پیچھے ہٹنا ہوگا
تجزیہ:سلمان غنی پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے ایک مرتبہ پھر بھرپور تیاری کے ساتھ احتجاج کیلئے اسلام آباد جانے کا اعلان ظاہر کر رہا ہے کہ وہ مزاحمتی ایجنڈا پر گامزن ہے ،
مذکورہ فیصلہ پختونخواکی پارلیمانی پارٹی کے اجلاس میں کیا گیا جس میں صوبائی وقومی اسمبلی ارکان نے بھی شرکت کی، اطلاعات ہیں کہ پارلیمانی کمیٹی نے مرکزی قیادت سے ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے استفسار کیا کہ جب ڈی چوک میں گولیاں چل رہی تھیں تو مرکزی قیادت کہاں اور کیوں غائب تھی مذکورہ ردعمل سے ظاہر ہو رہا ہے کہ اس حوالے سے پارٹی کے اندر بحرانی کیفیت طاری ہے اور پارٹی عملاً مفاہمتی اور مزاحمتی گروپوں میں تقسیم ہو چکی ہے لہذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ آخر کیا وجہ ہے کہ پی ٹی آئی مزاحمتی طرزعمل پر پسپائی کیلئے تیار نہیں اور پختونخواکی حکومت اسلام آباد کو کیونکر ٹارگٹ کئے ہوئے ہے ،پی ٹی آئی کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو بانی پی ٹی آئی اور انکی جماعت کی پہچان جارحانہ طرزعمل اور احتجاجی سیاست رہی ہے ،اسکی بڑی وجہ یہ بھی رہی کہ ماضی میں انکی مذکورہ حکمت عملی کے پیچھے کچھ ایسے عناصر رہے جو اس وقت کے سیاسی سسٹم اور حکومتوں کو مضبوط ہوتا نہیں دیکھنا چاہتے تھے لہذا اس مقصد کیلئے انہوں نے بانی پی ٹی آئی کو تھپکی بھی دی ا ور وسائل کا بندوبست بھی کر کے دیا۔
جس سے وہ مسند اقتدار تک بھی پہنچے تاہم پھر سرد جنگ شروع ہوئی جو گرم جنگ میں تبدیل ہوگئی اور انہوں نے اقتدار کھودیا، جس پر انہوں نے سیاسی مخالفت سے فاصلے پیدا کر کے مقتدرہ کو ٹارگٹ کرنا شروع کردیااور مزاحمتی بیانیہ کو لے کر چلے تاہم وہ بھول گئے کہ لشکر کشی سے حکومتیں نہیں بنتیں اور نہ ریاست اتنی کمزور ہوتی ہے کہ مسلح لشکروں اور شرپسندوں کے سامنے سرنڈر کر دیا جائے ۔اب پھر سے اسلام آباد چڑھائی کا اعلان ظاہر کرتا ہے کہ اسلام آباد کو مجبور کیا جائے کہ جتنی جلد ممکن ہو پختونخواکی حکومت کو چلتا کیا جائے اور یہاں گورنر راج کا نفاذ ہو تاکہ وہ ہر طرح کی پابندیوں سے آزاد ہو کر اپنا کھیل کھل کر کھیل سکیں انہیں شاید یہ نہیں معلوم کہ جب پختونخواکی حکومت نہیں ہوگی تو پھر بار بار لشکر کشی آسان نہیں ہو گی یہ راستہ اور حکمت عملی درست نہیں اگر ان کا کوئی سیاسی کیس ہے تو انکے پاس بہت سے فورم موجود ہیں۔آج کا بحران سیاسی معاشی انتظامی سے زیادہ ریاستی ہے کیونکہ سیاسی جماعتوں کے ساتھ بعض ادارے بھی اپنی بالادستی کے خواہاں ہیں جو قابل تشویش ہے اس بحرانی اور ہیجانی کیفیت کا حل یہی ہے کہ سب ایک ایک قدم پیچھے ہٹائیں اور ملک میں آئینی قانون کی بالادستی قائم کریں اور خصوصاً سیاسی جماعتیں اصولوں کی پاسداری کرتے ہوئے اپنا کردار ادا کریں۔