"RS" (space) message & send to 7575

پی ٹی آئی کے ناکام احتجاج کا ذمہ دار کون؟

پی ٹی آئی احتجاج کی ناکامی کے بعد مظلوم بننے کی کوشش کر رہی ہے۔ کیااس طرح ناکامی چھپ سکتی ہے؟ پی ٹی آئی کا الزام ہے کہ ڈی چوک میں حکومت نے طاقت کا استعمال کیا اور فائرنگ سے سینکڑوں کارکنان شہید ہوئے۔اگر ایک بھی پُرامن شہری کی جان گئی ہے تو وہ قابلِ مذمت ہے مگر لاشوں پر سیاست بھی قابلِ مذمت ہے۔ ڈی چوک سے چند قدم دور سے قیادت ڈی چوک کیوں نہ پہنچ سکی؟ کون سی غلطی پی ٹی آئی کو ڈی چوک سے دور لے گئی؟ قیادت کے ایک دوسرے کو ناکامی کا ذمہ دار ٹھہرانے سے کیا وہ اپنی ساکھ بچا سکتی ہے؟ مسلسل احتجاج کا حصہ بنے رہنے اور گرفتاریوں نے کارکنان کو تھکا دیا ہے ‘حتمی کال کی ناکامی کے بعد پی ٹی آئی کو طویل عرصہ تک انتظار کرنا پڑ سکتا ہے‘ کیا پی ٹی آئی اس کے لیے تیار ہے؟ اس طرح کے دیگر کئی سوالات عوام کے ذہنوں میں ہیں۔ ذیل کی سطور میں احتجاج کے آغاز سے لے کر آپریشن اور پی ٹی آئی قیادت کے فرار تک کے معاملے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
احتجاج ہر سیاسی جماعت کا جمہوری حق ہے اس لحاظ سے دیکھا جائے تو پی ٹی آئی نے احتجاج کر کے کوئی غلطی نہیں کی‘ مگر جلسے جلوس اور احتجاج کے لیے کوئی طریقہ کار موجود ہے۔ جن معاشروں میں جمہوری اقدار مضبوط ہیں اور اظہار ِرائے کی آزادی ہے وہاں احتجاج کے لیے متعین جگہ اور روٹ کا خیال رکھا جاتا ہے۔ اس تناظر میں دیکھا جائے تو پی ٹی آئی نے احتجاج کا آغاز ہی قانون شکنی سے کیا۔ تحریک انصاف نے 24 نومبر کے احتجاج کو بانی پی ٹی آئی کی رہائی سے مشروط کیا۔ یہ جانتے ہوئے بھی کہ مقدمات میں عدالتوں سے ریلیف مل سکتا ہے‘ قیادت نے کارکنوں کی ذہن سازی کی اور انہیں باور کرایا کہ احتجاجی مظاہرے اور طاقت کے زور پر بھی بانی پی ٹی آئی کو رہا کرایا جا سکتا ہے۔
پی ٹی آئی قیادت نے سیاسی مقصد کے حصول کے لیے کارکنوں کو اکسایا کہ ہم خان صاحب کو لیے بغیر واپس نہیں لوٹیں گے۔ یہ تاثر دیا گیا کہ خان صاحب کو کسی نے اغوا کر رکھا ہے اور انہیں صرف طاقت کے زور پر بازیاب کرایا جا سکتا ہے۔قیادت کی توجہ کارکنان کی تعداد پر مرکوز تھی کہ اگر لوگ جمع ہو گئے تو مقاصد حاصل کیے جا سکتے ہیں۔ اس دوران احتجاج کیلئے اسلام آباد انتظامیہ سے اجازت لینے کی ضرورت محسوس نہیں کی گئی۔ پُرامن اجتماع اور امنِ عامہ ایکٹ 2024ء کے تحت اسلام آباد میں بغیر اجازت جلسہ کرنے پر تین سال قید اور جرمانے کی سزا ہے جبکہ دوبارہ جرم دہرانے پر دس سال تک قید کی سزا ہے۔ پی ٹی آئی نے اسلام آباد انتظامیہ سے اجازت لینے کے بجائے غیر قانونی راستہ اختیار کرتے ہوئے 24 نومبر کو پشاور سے احتجاج کا آغاز کر دیا۔ اسلام آباد ہائی کورٹ نے بھی پی ٹی آئی کو احتجاج سے روکا تھا‘ اس کے حکم کی بھی خلاف ورزی کی گئی۔ وزیر اعلیٰ خیبرپختونخوا اور بشریٰ بی بی جس جلوس کی قیادت کر رہے تھے اس میں غیر قانونی طورپر مقیم کچھ افغان باشندے بھی شامل تھے۔ سیاسی احتجاج کے لیے صوبائی حکومت کی مشینری کو استعمال کیا گیا اور خیبرپختونخوا حکومت کی سینکڑوں سرکاری گاڑیوں کو ذاتی مقصد کے لیے استعمال میں لایا گیا۔ احتجاجی جلوس کے فرنٹ پر ڈنڈا بردار افراد کو رکھنے کا مقصد کیا تھا؟ اسلام آباد میں داخل ہونے سے پہلے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے پی ٹی آئی کو ڈی چوک جانے کے بجائے مختلف مقامات پر احتجاج کرنے کی پیشکش کی جس کا مقصد یہ تھا کہ اسلام آباد کے شہریوں کی زندگی متاثر نہ ہو مگر پی ٹی آئی نے اس پیشکش کو بھی ٹھکرا دیا اور کارکنوں کو ڈی چوک پہنچنے کی ہدایت دی گئی۔26 نومبر کی شب تحریک انصاف کے احتجاجی مظاہرے کے دوران سری نگر ہائی وے پر شرپسندوں نے رینجرز اہلکاروں پر گاڑی چڑھا دی جس سے تین رینجرز اہلکار شہید جبکہ پانچ رینجرز اور دو پولیس کے جوان شدید زخمی ہوگئے۔ اس اندوہناک واقعے کے بعد امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے حکومت نے اسلام آباد میں فوج کو طلب کرلیا۔ جب پی ٹی آئی کے احتجاجی مظاہرین تمام رکاوٹوں کو عبور کرتے ہوئے اسلام آباد میں داخل ہونے میں کامیاب ہو گئے تو قانون فافذ کرنے والے اداروں نے تحمل کا مظاہرہ کرتے ہوئے انہیں پُرامن احتجاج ریکارڈ کرانے پر زور دیا مگر پی ٹی آئی کے مظاہرین ڈی چوک پہنچ گئے اور ہنگامہ آرائی شروع کر دی۔یوں پی ٹی آئی قیادت نے کارکنوں کے ذہنوں میں جونفرت کا زہر گھولا تھا‘ اسلام آباد پہنچتے ہی اس کے منفی اثرات سامنے آنا شروع ہو گئے۔ پی ٹی آئی کے کارکنان قیادت کے بغیر شُتر بے مہار ہو گئے‘ ڈی چوک میں موجود کنٹینرز پر چڑھ گئے اور رسیوں کے ساتھ انہیں گرانا شروع کر دیا اس دوران بھی قانون نافذ کرنے والے اہلکار انہیں مسلسل پُرامن رہنے کی تلقین کرتے رہے۔ پی ٹی آئی کے کارکن اسلام آباد بلیو ایریا اور ڈی چوک پر جب توڑ پھوڑ اور ہنگامہ آرائی کر رہے تھے تو اس سے چند فرلانگ کے فاصلے پر بیلا روس کے صدر اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ موجود تھے۔ کیا یہ محض اتفاق ہے کہ جب بھی کوئی غیر ملکی شخصیت پاکستان کا دورہ کرتی ہے یا حکومت سرمایہ کیلئے کسی ملک کے سربراہ کو مدعو کرتی ہے تو پی ٹی آئی احتجاج کا راستہ اختیار کر لیتی ہے؟
ڈی چوک میں ہونے والی ہنگامہ آرائی میں تین ‘ چار عام شہریوں کے جاں بحق ہونے کی اطلاعات ہیں مگر سکیورٹی ادارے اس کی تردید کرتے ہیں۔جس وقت پی ٹی آئی کے کارکنان ڈی چوک میں ہنگامہ آرائی کر رہے تھے تو اس سے ایک کلو میٹر کی دوری پر وزیر اعلیٰ پختونخوا علی امین گنڈا پور اور بشریٰ بی بی کنٹینر پر مرکزی قافلے کے ہمراہ موجود تھے انہوں نے آگے بڑھ کر کارکنان کو روکا کیوں نہیں؟ کارکنان دوپہر دو بجے تک ڈی چوک پر پہنچ چکے تھے‘ ایک کلو میٹر دوری پر موجود قیادت ڈی چوک کیوں نہ پہنچ سکی؟ ڈی چوک پہنچنے والے دو تین سو کے قریب کارکنان کہہ رہے تھے کہ وہ پی ٹی آئی کا مزاحمتی سکواڈ ہیں انہیں یہی ٹاسک دیا گیا ہے کہ آگے رہ کر راستے کو مرکزی قافلے کیلئے سازگار بنائیں‘ کئی نوجوان فخریہ کہہ رہے تھے کہ ان کے پاس سکیورٹی اہلکاروں سے نمٹنے کا سامان موجود ہے۔ اگر قیادت کارکنان کے ساتھ موجود ہوتی تو انہیں پُرامن رکھا جا سکتا تھا اور ممکنہ آپریشن سے بھی بچا جا سکتا تھا جب شام چھ بجے کے قریب کے وزیر داخلہ اور وزیر اطلاعات نے ہنگامہ آرائی کرنے والے کارکنان کے خلاف کارروائی کا اشارہ دیا تو قیادت نے تب بھی اسے سنجیدہ نہیں لیا۔ کہیں ایسا تو نہیں کہ پی ٹی آئی کنٹینر پر موجود کچھ لوگ لاشوں پر سیاست کا خفیہ منصوبہ بنا چکے تھے؟ ناکام احتجاج کا ذمہ دار کون ہے‘ پی ٹی آئی اس پر بات کرنے سے کترا رہی ہے‘ کہیں ایسا تو نہیں کہ ناکامی کے ذمہ دار پی ٹی آئی کی اپنی صفوں میں موجود ہیں؟ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ پی ٹی آئی کو اصل نقصان تشدد پر مبنی سوچ نے پہنچایا ہے۔ علی امین گنڈا ڈی چوک سے فرار ہونے کے بعد بھی گولی کا جواب گولی سے دینے کی دھمکی دے رہے ہیں۔ سیاست میں غلطیوں کی بھاری قیمت چکانی پڑتی ہے۔ پی ٹی آئی پچھلے دو برسوں سے غلطیوں کی قیمت چکا رہی ہے مگر اس سے سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہے‘ نو مئی کی غلطی کے پیچھے یہ سوچ موجود تھی کہ طاقت کے زور پر راستے کی رکاوٹوں کو ہٹا کر اپنا حق وصول کرنا ہے‘ وہی سوچ 24 نومبر کے احتجاج میں بھی موجود تھی۔ پی ٹی آئی دو سے زائد بار اس سوچ پر عمل کر کے ناکامی سمیٹ چکی ہے‘ دیکھنا یہ ہے کہ آئندہ پی ٹی آئی اسی سوچ پر قائم رہتی ہے یا حکمت عملی تبدیل ہو گی؟

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں