پی ٹی آئی کیلئے اپنی قوت بچانااور آگے بڑھنابڑا چیلنج
(تجزیہ:سلمان غنی) اسلام آباد میں پی ٹی آئی کے احتجاجی مارچ کے ڈراپ سین کے بعد سے اب تک پی ٹی آئی نفسیاتی کیفیت سے نکل نہیں پا رہی اور جماعت میں احتجاجی عمل کے انجام سے سب اپنا دامن بچاتے نظر آ رہے ہیں۔
بغیر تیاری اور ڈسپلن کے ، چڑھائی کا عمل نتیجہ خیز نہیں ہوتا، سیاسی حکمت عملی تبھی نتیجہ خیز ہو گی جب اس میں سنجیدگی ہو۔ جماعتی تنظیمی و سیاسی طاقت اس کیلئے تیار ہو ۔ اس آپشن پر مستقبل قریب میں پیشرفت نظر نہیں آ رہی ، اسلام آباد احتجاجی مارچ کے انجام پر جماعت کے اندر تبدیلیوں کا امکان ہے ۔ کیا پی ٹی آئی مزاحمتی بیانیہ پر کاربند رہے گی ، احتجاج اور مارچ کیونکر نتیجہ خیز نہیں ہو پا رہے ؟ ۔ اس روش سے حکومت کا خاتمہ ممکن ہے ؟ ورکر خود اپنی جماعت اور لیڈر شپ سے بھی مایوس نظر آتے ہیں اس کی بڑی وجہ احتجاج کی مسلسل روش ہے ۔
خود تو قیادت جیل میں ہے لیکن اس امر کی خواہاں ہے کہ خود انکی رہائی کیلئے ریاست پر چڑھائی کر کے اسے سرنڈر کرنے پر مجبور کیا جائے ، ایسا چاہتے ہوئے یہ بھول گئے کہ اگر انکے پاس سیاسی قوت ہے تو ریاست کے پاس بھی طاقت ہے ۔ اگر حکومت سے مذاکرات کے نتیجہ میں پی ٹی آئی سگنجانی میں دھرنا دے کر بیٹھی نظر آتی تو آج حکومت کو اپنی پڑی ہوتی ۔ پی ٹی آئی آگے اور حکومت پیچھے ہوتی لیکن ڈی چوک کا خبط پتہ نہیں کیونکر بانی کی اہلیہ پر سوار تھا ، اچھی بھلی احتجاجی سیاست کو تشدد سے دوچار کروا کر بیچارگی کی صورت میں لاکھڑا کیا ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ احتجاجی مارچ کی ناقص حکمت عملی سے لگنے والے دھچکے نے ان کی آنکھیں کھول دی ہیں ،ایک بات تو کہی جا سکتی ہے کہ پی ٹی آئی کو احتجاج کو آگے بڑھانے کیلئے کوئی زیادہ جلدی نہیں اگلا اقدام جب بھی ہوا ، منزل ڈی چوک نہیں ، لاہور ہوگا ، پی ٹی آئی کا احتجاج دراصل پختونخوا حکومت کا وفاق کے خلاف تھا ، اس میں سندھ ،پنجاب اور بلوچستان کا کردار آٹے میں نمک کے برابر تھا ، اگلا محاذ پنجاب میں کھلنے کے امکانات ہیں ۔ واقعات نے ثابت کیا ہے کہ وزیراعلیٰ گنڈاپورحکومتی محاذ کے بعد احتجاجی محاذ پر بھی ناکام ثابت ہوئے اور بڑھکوں پر اکتفا کئے ہوئے ہیں ۔
پی ٹی آئی جس کیفیت سے دوچار ہے فی الحال کوئی اس کے ساتھ کھڑا نظر نہیں آ رہا ۔ سیاسی قوتیں اس حد تک ضرور ساتھ ہیں کہ یہاں گورنر راج نہیں لگنا چاہئے لیکن ڈائیلاگ کا عمل ممکن نظر نہیں آ رہا ، پی ٹی آئی نے تحفظ آئین کے نام سے اتحاد بنایا، محمود اچکزئی کو ساتھ ملایا لیکن ساتھ لیکر چلنے سے قاصر رہی ۔اب پی ٹی آئی کیلئے اپنی قوت بچانااور آگے بڑھنابڑا چیلنج ہے ، انہیں وقت کے دھار کے ساتھ حالات کا جائزہ لینا ہوگا جب تک تحریک انصاف اپنے حالیہ انجام کی ذمہ داری کا تعین نہیں کر پائے گی آگے چلنا ممکن نہیں ہوگا ، اطلاعات ہیں کہ جب حکومت اور پی ٹی آئی کی لیڈر شپ میں سنگجانی کے مقام پر دھرنے کا فیصلہ ہوگیا تو بشریٰ نے ڈی چوک کو ضد بنا کر شرکا کو آگے جانے پر مجبور کیا ، یہاں ہنگامی صورتحال طاری ہوئی تو محترمہ وزیراعلیٰ پختونخوا کے ہمراہ غائب ہو گئیں ۔ اب بھی وہ فیصلہ سازی میں شامل ہیں البتہ اب ان کا انداز جارحانہ نہیں ۔غیر جانبدار مبصر کے مطابق بشریٰ کے سیاسی کردار کا پی ٹی آئی کو تو فائدہ نہیں ملا البتہ یہ حکومت کی انشورنس پالیسی ضرور بنی ہیں۔