مدارس کا مسئلہ بڑھا تو بڑا طوفان بھی بن سکتا ہے

 مدارس کا مسئلہ بڑھا تو بڑا طوفان بھی بن سکتا ہے

(تجزیہ: سلمان غنی) مدارس بل پر ایوان صدر کے تحفظات کے بعد حکومت بھی اس حوالے سے گومگو کا شکار ہے جبکہ دوسری جانب مولانا فضل الرحمن نے اس بل کو اپنی انا کا مسئلہ بنا رکھا ہے اور ان کا کہنا ہے کہ ایوان میں اس بل کی منظوری کے بعد اے ایکٹ میں تبدیل کرنے کے حوالے سے پیش رفت ممکن نہ ہوئی تو ہم اپنے لائحہ عمل میں آزاد ہوں گے ۔

 دوسری جانب بل کے حوالے سے پی ٹی آئی اور جے یو آئی میں بھی رابطوں کی خبریں ہیں ، یہ امکان بھی ظاہر کیا جا رہا ہے کہ اگربل پر پیش رفت نہ ہوئی تو پی ٹی آئی احتجاجی عمل میں جے یو آئی کی حمایت کر سکتی ہے لہٰذا اس امر کا تجزیہ ضروری ہے کہ مدارس بل کے حوالہ سے پیدا شدہ صورتحال میں  اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا ۔ جہاں تک پارلیمنٹ کے اجلاس میں بل کے پیش ہونے کا سوال ہے تو اسمبلی سیکرٹریٹ کا کہنا ہے کہ یہ بل پارلیمنٹ سے منظور ہو چکا ہے لہٰذا اس کے دوسری مرتبہ ایوان میں پیش ہونے کا امکان نہیں البتہ حکومتی ذمہ دار ذرائع کا کہنا ہے کہ بل کے حوالے سے سترہ دسمبر کو اسلام آباد میں علما کرام کے درمیان ایک وسیع مشاورت ہو رہی ہے ۔

دوسری جانب صدر مملکت کے اعتراضات بارے کہا جا رہا ہے کہ شاید انہیں یہ نہیں بتایا گیا کہ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت رجسٹریشن پر صرف مدارس ہی اصرار نہیں کر رہے ۔اب کئی ماہرین یہ سوال بھی اٹھا رہے ہیں کہ کیا مدارس قرآن و سنت اور عصری علوم کی مفت تعلیم دے رہے ہیں کیا وہ طلبہ کیلئے مفت تعلیم اور مقام و طعام کا بندوبست اور کردار سازی جیسے اصلاحی کام نہیں کر رہے ، 26ویں آئینی ترمیم میں مذکورہ بل کی منظوری کے بعد اب مدارس بل پر تحفظات کے عمل کو تو بعض ماہرین چائے کی پیالی میں طوفان کھڑا کرنے کے مترادف قرار دیتے نظر آتے ہیں ۔ اس نان ایشو کو بڑا ایشو بنا کر کچھ اور اہم ایشو سے توجہ ہٹانے کا مرتکب سمجھتے ہیں لہٰذا اس نئی صورتحال پر ضرورت تو خود حکومت کی دانشمندی کی ہے کیونکہ یہ مسئلہ اگر بڑھتا ہے تو موجودہ صورتحال میں بڑا طوفان بھی بن سکتا ہے ۔

خدانخواستہ علما کے درمیان تفریق کا عمل ملک میں نئے انتشار کو جنم دے سکتا ہے جہاں تک مدارس سے متعلق بل کا سوال ہے تو یہ مسئلہ محض ایک ترمیم سے حل ہو سکتا ہے کہ جو مدارس محکمہ تعلیم کے تحت رجسٹریشن پاتے ہیں یہاں اپنی رجسٹریشن کرائیں ۔ جو سوسائٹی ایکٹ کے تحت رجسٹریشن میں دلچسپی رکھتے ہیں وہ وہاں رجوع کر سکتے ہیں ۔ یہ مسئلہ خود حکومت کے گلے بھی پڑ سکتا ہے ۔ اطلاعات یہ ہیں کہ حکومت نے دینی مدارس کی رجسٹریشن کے حوالے سے نیا مسودہ جے یو آئی کو دے دیا ہے اور اس پر مشاورت جاری ہے اور یہ توقعات قائم کی جا رہی ہیں کہ یہ معاملات باہمی افہام و تفہیم سے طے ہو جائیں البتہ مولانا فضل الرحمن کی جانب سے جو ردعمل ظاہر کیا جا رہا ہے وہ قابل فہم ہے کیونکہ وہ سمجھ رہے ہیں کہ حکومت اور بعض پس پردہ عناصر اس بل کی عدم توثیق میں ہاتھ کرنا چاہتے ہیں ، مدارس کی رجسٹریشن کی قانونی موشگافیوں سے قطع نظر، مولانا فضل الرحمن کیلئے یہ بڑا دھچکاہے ، کہا جا سکتا ہے کہ یہ معاملہ 19دسمبر کے اجلاس میں تو طے نہیں ہوگا اس بل کے حوالے سے بڑی مشاورت کے بعد ایک نیا بل سامنے آئے گا جسے بعد ازاں اجلاس میں پیش کر کے منظوری حاصل کی جائے گی ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں