کال ریکارڈنگ درخواستوں پر فیصلوں کیلئے جسٹس فاروق نامزد

کال ریکارڈنگ درخواستوں پر فیصلوں کیلئے جسٹس فاروق نامزد

لاہور (محمد اشفاق سے )چیف جسٹس لاہور ہائیکورٹ عالیہ نیلم نے مشکوک کالز ریکارڈ کرنے سے متعلق قانون پر 12سال بعد عملدرآمد کرتے ہوئے جسٹس فاروق حیدر کو جج نامزد کردیا ،خفیہ اداروں کی درخواست پر ملک دشمن عناصر کی کالز ریکارڈ کرنے کی اجازت دینے یا نہ دینے کا فیصلہ جسٹس فاروق حیدر کرینگے۔

جسٹس فاروق حیدر کو انویسٹی گیشن فار فیئر ٹرائل ایکٹ 2013 کے تحت ذمہ داریاں سونپی گئیں ۔مذکورہ قانون کے تحت ملک دشمن عناصر اور ملکی مفاد کیخلاف کام کرنے والے افراد کی کالز اور ڈیجیٹل موجودگی پر نظر رکھنے کی اجازت دی گئی ،تحت خفیہ اداروں کو ریکاڑڈ کالز و دیگر چیزوں کو عدالت میں بطور ثبوت پیش کرنے کی اجازت حاصل ہے ۔ قانون کے مطابق متعلقہ اداروں کو اگر کسی شخص پر شک ہو کہ ملکی مفاد کیخلاف کام کررہا ہے تو ڈیجیٹل نگرانی یعنی اسکی کالز ریکارڈ کرنے اور کال ریکارڈنگ کے وارنٹ کی اجازت کیلئے ادارے کو آفیسر مقرر کرنا ہوگا جسے وفاقی وزیر داخلہ کو کال ریکارڈنگ کی درخواست کرنا ہوگی اور ا س سے قبل متعلقہ ادارے کو مشکوک شخص کیخلاف مواد بھی پیش کرنا ہوگا۔ وزیر داخلہ مواد اور درخواست کو سامنے رکھ کر کال ریکارڈنگ کی درخواست منظور یا مسترد کر سکتا ہے ۔ وزیر داخلہ کی اجازت کے بعد ادرے کا افسر متعلقہ ہائیکورٹ کے جج کو درخواست پیش کرے گا جودلائل کی روشنی میں کال ریکارڈنگ کی درخواست منظور یا مسترد کر سکتا ہے ۔ درخواست منظوری پرمتعلقہ جج سیل بند لفافے میں اپنی اجازت متعلقہ افسر کے حوالے کرینگے ، اس قانون پر اس وقت عملدرآمد شروع ہوا جب پراسیکیوٹر جنرل پنجاب فرہاد شاہ نے چیف جسٹس عالیہ نیلم کو مراسلہ لکھا کہ اس قانون کو بنے 12سال گزر گئے کسی چیف جسٹس نے ا س پرعمل کرکے ہائیکورٹ کے جج کو نامزد نہیں کیا جس سے ملک دشمن عناصر کیخلاف پراسیکیوشن اہم ثبوت اکٹھے نہیں کر سکی اور انہیں سخت سزائیں نہیں ہوسکیں۔ چیف جسٹس عالیہ نیلم نے قانون پر فوری عملدرآمد کرتے ہوئے جسٹس فاروق حیدر کو نامزد کردیا ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں