جنگ بندی کی پھر خلاف ورزی ، اسرائیل کی طے شدہ حکمت عملی

 جنگ بندی کی پھر خلاف ورزی ، اسرائیل کی طے شدہ حکمت عملی

(تجزیہ: سلمان غنی) غزہ میں جنگ بندی کے بعدایک بار پھر اسرائیلی جارحیت اور بربریت کا نیا سلسلہ شروع ہے اوربمباری کے عمل کے نتیجہ میں سینکڑوں فلسطینی شہادت کے منصب پر فائز ہو چکے ہیں جن میں دو سو سے زائد بچے ہیں لیکن فلسطینی سرزمین پر جاری اس اندھے فاشزم کے خلاف نہ تو عالمی ضمیر حرکت میں آ رہا ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 

 اور نہ ہی عالم اسلام کی جانب سے کسی قسم کا احتجاج اور ردعمل ظاہر ہوا ہے یہی وجہ ہے کہ امت آنکھیں کھولے فلسطینیوں کے خلاف جاری اس ظلم و جبر پر تشویش ظاہر کرتی نظر آ رہی ہے مگر کوئی اس کی سننے والا نہیں ،جہاں تک 19جنوری کے معاہدہ کی خلاف ورزی کا سوال ہے تو یہ سراسر اسرائیل کی طے شدہ پالیسی کا حصہ ہے ۔ اس وقت جنگ بندی کا معاہدہ اس لئے عمل میں آیا تھا کہ خود اسرائیل ایک پریشان کن صورتحال سے دوچار تھا ۔ امریکا ہر صورت میں وزیراعظم نیتن یاہو کو بچانا چاہتا تھا ، اس طرح سے نیتن یاہو کو تو عارضی ریلیف مل گیا لیکن فلسطینیوں کے لئے ریلیف ایک خواب بنا رہا ۔ معاہدہ پر عمل درآمد کے حوالے سے حماس نے سنجیدگی ظاہر کی اور قیدیوں کا تبادلہ طے شدہ طریقہ کار کے مطابق جاری رہا البتہ اس معاہدہ پر عمل درآمد کے ساتھ ساتھ اسرائیل کی پوزیشن دنیا بھر میں اس لئے خراب ہوتی نظر آئی کہ عالمی میڈیا میں ایسی رپورٹس شائع ہوئی ہیں ، جس میں حماس اسرائیل جنگ کے حوالے سے لکھا گیا کہ اسرائیل دنیا بھر کی طاقت اپنی پشت پر رکھنے کے باوجود حماس کو انجام تک نہ پہنچا سکا ۔ بالآخر حماس کے ساتھ برابری کی سطح پر معاہدہ کرنا پڑا ، لہٰذا مذکورہ معاہدہ کا عمل بھی اسرائیل کی جگ ہنسائی کا باعث بنا رہا ، اس نے 18مارچ کی رات کو سحری کے وقت شدید بمبا ری سے جنگ کے دوسرے مرحلے کا آغاز کر دیا ۔

اب اسرائیلی وزیر دفاع اپنی افواج کو بمباری کے ساتھ پیش رفت کے احکامات دیتے نظر آ رہے ہیں ، جب کہ امریکا نے اس صورتحال کا ذمہ دار اسرائیل کو گرداننے کی بجائے الٹا یہ الزام اہل غزہ کے سر دھر دیا اور ان کے ترجمان نے یہ کہہ کر حقائق کو جھٹلانے کی کوشش کی کہ مزاحمت کاروں نے قیدیوں کو رہا نہ کر کے جنگ بندی میں توسیع کی بجائے جنگ کا خود انتخاب کیا ۔اسرائیل کی جانب سے جنگ کے دوسرے مرحلہ کا آغاز امریکی آشیر باد کے بغیر ممکن نہیں اور خود اسرائیل کے مذہبی عناصر ٹرمپ سرکار کو اسرائیل کی نشانی قرار دے رہے ہیں ،دوسری جانب اسرائیل سے فلسطینیوں کی بڑی تعداد میں رہائی کے عمل نے خود حماس کو فلسطینیوں میں اور زیادہ مقبول بنا دیا ہے اور رہائی پانے والے خود اپنی رہائی کو حماس کی بہتر حکمت عملی قرار دے رہے ہیں لیکن نئی پیدا شدہ صورتحال میں غزہ پھر سے لہولہان نظر آ رہا ہے اور اس صورتحال میں بڑی ذمہ داری صدر ٹرمپ اور امریکا پر عائد ہوتی ہے جس نے جنگ بندی معاہدہ کروایا اور اس پر بڑے ممالک نے دستخط کئے تھے لیکن اب اسرائیل کی جانب سے معاہدہ کی خلاف ورزی اور بمباری کا عمل خود ان کے لئے بڑے سوال کے طور پر موجود ہے اور دیکھنا یہ ہوگا کہ وہ کیا اسرائیل کا ہاتھ پکڑ سکیں گے اسے جوابدہ بنا پائیں گے فی الحال یہ ممکن نظر نہیں آ رہا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں