وفاق نے تحفظات دور نہ کئے تو پیپلز پارٹی بجٹ پرووٹ نہیں دیگی:وزیراعلیٰ سندھ

وفاق نے تحفظات دور نہ کئے تو پیپلز پارٹی بجٹ پرووٹ نہیں دیگی:وزیراعلیٰ سندھ

کراچی (سٹاف رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک) وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ نے بجٹ کے بعد تفصیلی پریس کانفرنس میں صوبے کے لیے ایک پرعزم مالی و ترقیاتی ایجنڈے کا اعلان کیا، ساتھ ہی سنگین مالی چیلنجز اور وفاقی کٹوتیوں پر بھی روشنی ڈالی۔

مراد علی شاہ نے پریس کانفرنس کا آغاز ایران پر حالیہ اسرائیلی حملے کی شدید مذمت سے کیا۔ انہوں نے بتایا کہ وہ اس حملے کے خلاف اپنا احتجاج بجٹ اجلاس میں ہی ریکارڈ کرا چکے تھے اور فوری طور پر اجلاس بلا کر اس جارحیت کے خلاف قرارداد بھی منظور کرائی۔ وزیراعلیٰ نے اپوزیشن کی جانب سے قرارداد کی منظوری کے دوران پیدا کی گئی ہنگامہ آرائی پر افسوس کا اظہار کیا اور سوال اٹھایا کہ اپوزیشن نے اس کی مخالفت کیوں کی، ساتھ ہی حکومت کے دہشت گردی کے خلاف سخت مؤقف کو بھی دہرایا۔وزیراعلیٰ سندھ نے کہا کہ وفاق نے تحفظات دور نہ کئے توپیپلزپارٹی بجٹ منظوری کیلئے ووٹ نہیں دے گی، بلاول کی واضح ہدایات ہیں، کہ تحفظات دور ہوئے بغیر ووٹ نہ دیا جائے ،وفاق سے سندھ کو کبھی نہیں چلایا جا سکا، یہ حکومت ویسے بھی بے اختیار ہے ، وفاق سند ھ کو نو آبادی نہ سمجھے ۔ وزیراعلیٰ سندھ نے کہا پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنا 17 واں مسلسل صوبائی بجٹ پیش کیا ہے جو سیاسی تسلسل اور مؤثر حکمرانی کا ثبوت ہے ، تاہم مراد علی شاہ نے وفاقی حکومت پر مالی وعدے پورے نہ کرنے پر تنقید کی اور انکشاف کیا کہ بجٹ پیش ہونے سے صرف ایک روز قبل سندھ حکومت کو آگاہ کیا گیا کہ متوقع 105 ارب روپے روک لیے جائیں گے ۔

سندھ کو گزشتہ سال سے اب تک قابل تقسیم محاصل سے 1,478.5 ارب روپے موصول ہوئے ہیں جبکہ 422.3 ارب روپے تاحال واجب الادا ہیں۔ وزیراعلیٰ نے امید ظاہر کی کہ یہ رقم جون کے اختتام تک جاری کر دی جائے گی۔انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف پروگرام کے تحت سخت مالی نظم و ضبط کی شرائط کے باوجود سندھ حکومت رواں سال ترقیاتی منصوبوں کے لیے 590 ارب روپے مختص کرے گی۔ مجموعی بجٹ کا حجم 3.45 کھرب روپے رکھا گیا ہے جس میں 1 کھرب روپے ترقیاتی اور 2.15 کھرب روپے جاری اخراجات کے لیے مختص ہیں۔ قابل ذکر بات یہ ہے کہ تنخواہوں اور پنشنز کے لیے 1.1 کھرب روپے رکھے گئے ہیں۔ کراچی میں انفرااسٹرکچر منصوبوں کے لیے 236 ارب روپے رکھے گئے ہیں جن میں پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کے تحت چلنے والے منصوبے بھی شامل ہیں۔دیہی زندگی کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے مراد شاہ نے 600 ارب روپے کے واٹر اینڈ سینی ٹیشن منصوبے کا اعلان کیا جس سے 45 لاکھ دیہی افراد مستفید ہوں گے ۔ یہ منصوبہ موجودہ حکومت کے دور میں مکمل کیا جائے گا۔

وزیراعلیٰ نے کہا بجٹ میں کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا بلکہ کئی ٹیکس ختم یا کم کر دیے گئے ہیں۔آئی ایم ایف کی ہدایات کے مطابق ٹیکس سے مستثنیٰ اشیا کی فہرست شائع کی جائے گی۔سندھ حکومت زمین کے ریکارڈ کو بلاک چین کے ذریعے ڈیجیٹل بنا رہی ہے تاکہ آسان رسائی ممکن ہو سکے ۔ تعلیم اور صحت میں اہم پیشرفت میں 34 ہزار نئے کاسٹ سینٹرز قائم کیے جا رہے ہیں، ہیڈماسٹرز کو انتظامی اخراجات کے لیے بجٹ میسر ہوگا۔ وزیراعلیٰ نے کے فور واٹر پروجیکٹ کی ساخت پر روشنی ڈالتے ہوئے بتایا کہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ پانی کینجھر جھیل سے فراہم کرے ، جبکہ سندھ حکومت اس پانی کی تقسیم کی ذمہ دار ہے اور اس مقصد کے لیے ضروری فنڈز مختص کر دیے گئے ہیں۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ وفاقی فنڈز کی کمی اور آئی ایم ایف کی شرائط چیلنجز پیدا کر رہی ہیں، سندھ حکومت ترقی، سماجی فلاح اور مالی نظم و ضبط پر قائم ہے ۔گریڈ 1 سے 4 تک کی 20 سے 25 ہزار نوکریاں خالی ہیں، جنہیں جلد پر کیا جائے گا۔ مراد شاہ نے وفاق پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ جب پی ڈبلیو ڈی اسکیمیں صوبوں کو منتقل ہوئیں تو سندھ کو صرف 18 منصوبے دیے گئے جو ناانصافی ہے ۔

انہوں نے وفاقی بجٹ کی مشروط حمایت کا اعلان کرتے ہوئے کہا ترقیاتی منصوبوں کی منصفانہ تقسیم اور تعلیمی اداروں کی فنڈنگ بحال نہ کی گئی تو پیپلز پارٹی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی۔ وزیراعلیٰ نے سکھرحیدرآباد موٹروے پر بھی تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اس منصوبے کے لیے وفاقی فنڈز 30 ارب روپے سے کم کرکے 15 ارب کر دیے گئے ۔ اگر وفاق 25 ارب روپے برابر کا حصہ ڈالے تو سندھ بھی اتنی رقم دینے کو تیار ہے مگر وفاق نے یہ پیشکش رد کر دی، البتہ اسلامی ترقیاتی بینک تین حصوں کے لیے فنڈنگ پر آمادہ ہے ۔ جبکہ باقی حصوں کے لیے بین الاقوامی مالی معاونت کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔مراد شاہ نے افسوس کا اظہار کیا کہ بڑے منصوبے وفاقی پبلک سیکٹر ڈیولپمنٹ پروگرام (پی ایس ڈی پی) میں شامل ہی نہیں کیے گئے اور سولر پینلز پر 18 فیصد ٹیکس کو ناانصافی قرار دیا۔ انہوں نے واضح کیا کہ اگر یہ مسائل حل نہ ہوئے تو پیپلز پارٹی وفاقی بجٹ کی حمایت نہیں کرے گی۔ انہوں نے بعد از بجٹ پریس کانفرنس اعتراف کیا کراچی میں 150 بسوں کی آمد میں تاخیر وسائل کی کمی کے باعث ہوئی، تاہم انفرااسٹرکچر اور صفائی ستھرائی کے متعدد منصوبے جاری ہیں۔سیف سٹی منصوبے کے پہلے مرحلے کی تکمیل ستمبر یا اکتوبر 2026 تک متوقع ہے جو کراچی کے اہم علاقوں پر مشتمل ہوگا۔

ابتدائی نتائج حوصلہ افزا ہیں اور کیمرے سکیورٹی خدشات کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ دوسرے مرحلے کے لیے 2026 کے بجٹ میں فنڈز مختص کر دیے گئے ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا عالمی مالیاتی ادارے وفاق کے مقابلے میں سندھ حکومت پر زیادہ اعتماد کرتے ہیں۔ اگست 2022 کے سیلاب کے بعد ورلڈ بینک نے ہنگامی فنڈز جاری کیے جو سندھ حکومت پر اعتماد کا ثبوت ہے ۔مراد شاہ نے واضح کیا پیپلز پارٹی وفاقی حکومت کی باقاعدہ اتحادی نہیں تاہم سندھ نے تاریخی فنڈز کی کمی پر مؤثر مؤقف پیش کیا جس کے نتیجے میں 86 ارب روپے سندھ کو دیگر صوبوں کے برابر لانے کے لیے دیے گئے ۔وزیراعلیٰ نے چیف منسٹر آفس کے لیے ہیلی کاپٹر اور گاڑیوں کی خریداری پر تنقید کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ موجودہ ہیلی کاپٹر 36 سال پرانا ہے جبکہ گاڑیاں کئی برسوں سے اپ ڈیٹ نہیں کی گئیں۔ انہوں نے اعلان کیا کہ آئندہ مالی سال میں غیر ضروری اخراجات روکنے کے لیے نئی گاڑیوں کی خریداری پر پابندی عائد کر دی گئی ہے ۔مراد علی شاہ نے بے قابو آبادی کو سندھ کا اہم مسئلہ قرار دیا اور بتایا کہ صحت اور پاپولیشن ویلفیئر محکموں کو ضم کر دیا گیا ہے تاکہ بہتر سہولیات فراہم کی جا سکیں۔

انہوں نے کہا وفاق نے اب تک بڑے ڈیمز کے لیے کوئی فنڈز نہیں رکھے ، جب فنڈ رکھا گیا تو دیکھا جائے گا۔ مراد علی شاہ نے وزیر اعظم کی جانب سے متنازع ڈیم منصوبوں کی مخالفت کو سراہا۔وزیراعلیٰ نے انکشاف کیا کہ سندھ حکومت نے 25 ارب روپے کے سولر منصوبے رکھے ہیں اور شجرکاری مہم بھی شروع کی جا رہی ہے ۔ انہوں نے اعتراف کیا کہ اس حوالے سے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے ۔انہوں نے اعتراف کیا صوبے میں غربت بڑھ رہی ہے اور اس کی بڑی وجہ آئی ایم ایف پروگرام کی وجہ سے حکومتی اخراجات پر لگنے والی پابندیاں ہیں۔انہوں نے دعویٰ کیا بجٹ میں شفافیت کو یقینی بنایا گیا ہے ،اپوزیشن کو بریفنگ دی گئی، کچھ تجاویز کو شامل نہ کرنے پر تنقید کی جا رہی ہے ۔مراد علی شاہ نے واضح کیا سندھ حکومت اپوزیشن سے رابطہ رکھنے اور ان کے تحفظات سننے کی خواہشمند ہے ، تاہم افسوس اکثر بات چیت ذاتی شکایات کی نذر ہو جاتی ہے ۔ انہوں نے کہا بجٹ سازی کے عمل میں اپوزیشن سے باضابطہ مشاورت کا کوئی طریقہ کار موجود نہیں حالانکہ سندھ حکومت نے ان سے بات چیت کی کوشش ضرور کی۔ مراد شاہ نے دو ٹوک اعلان کیا کہ پیپلز پارٹی تحریک انصاف یا ایم کیو ایم کے کسی بھی دباؤ یا بلیک میلنگ کو خاطر میں نہیں لائے گی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں