ایران امریکی حاکمیت تسلیم کرے گا اور نہ ہی پسپائی

ایران امریکی حاکمیت تسلیم کرے گا اور نہ ہی پسپائی

(تجزیہ: سلمان غنی) ایران اور اسرائیل کے درمیان جنگ خطرناک دور میں داخل ہونے کے ساتھ ہی اس میں امریکی کردار ہر سطح پر زیر بحث نظر آ رہا ہے۔ ایک عام تاثر تو یہی ہے کہ اسرا ئیل کوئی بڑا قدم امریکی تائید کے بغیر اٹھا نہیں سکتا تھا، البتہ خود امریکی صدر ٹرمپ ایرانی حملے سے لاتعلقی ظاہر کرتے نظر آ رہے ہیں۔

اس حوالے سے اگلے 72 گھنٹے اہم ہیں جہاں تک اسرائیل اور ایران کے درمیان جنگی صورتحال میں امریکی کردار کا تعلق ہے تو بظاہر امریکا کا دعویٰ ہے کہ اس کا کردار نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل اتنا بڑا قدم امریکا کی مرضی کے خلاف اٹھا نہیں سکتا ۔ ایران اور امریکا کے درمیان جوہری معاہدے میں امریکا کے پاس اس کے سوا کوئی چارہ نظر نہیں۔ امریکی ترجیحات میں اسرائیل اور اس کے مفادات سرفہرست ہیں اور غزہ کی صورتحال پر بھی اس وقت کی امریکی لیڈر شپ تل ابیب آ کر یہ کہتی نظر آئی تھی کہ ہماری ساری طاقت اور قوت اسرائیل کی پشت پر ہے اور حماس کو اس کے انجام پر پہنچانے تک اسرائیل کی پشت پر رہیں گے لیکن ایران غزہ نہیں اور ایک قوم کی حیثیت سے ایرانی نہ تو امریکی حاکمیت کو تسلیم کرنے کو تیار ہیں اور نہ ہی اس نے اسرائیل کے سامنے کبھی پسپائی اختیار کی ہے بلکہ اگر یہ کہا جائے تو بیجا نہ ہوگا کہ جس طرح پاکستان کی جنگی تیاریوں کا مقصد ہی بھارت کے جارحانہ عزائم ہیں تو ایران نے بھی خود کو ہمیشہ سے اسرائیل کے جنگی عزائم سے نمٹنے کے لئے تیار کیا ۔ لہٰذا کہا جا سکتا ہے کہ امریکا اگر اسرائیل ، ایران جنگ میں براہ راست نہیں کودتا تو اس کی حکمت عملی کا حصہ ضرور ہے ۔ اسرائیل کی کمزوری ظاہر ہونے پر وہ براہ راست بھی سامنے آئے گا کیونکہ وہ بھارت کے بعد اسرائیل کی کمزوری ظاہر ہونے کا متحمل نہیں ہو سکتا ۔

بلاشبہ اسرائیل جدید ٹیکنالوجی اور جنگی سازو سامان سے لیس ہے لیکن اگر ایران کی جانب سے ڈرونز اور میزائلوں کی بارش جاری رہی تو اسرائیل کا رقبہ اتنا زیادہ نہیں کہ اس کو متاثر نہ کرے ، یہی وجہ ہے کہ ایران کی حکمت عملی کے جواب میں ابھی سے اسرائیل نے امریکا سے جنگی صورتحال میں مدد مانگ لی ہے جہاں تک جنگی صورتحال میں سفارتی کوششوں اور کاوشوں کا تعلق ہے تو اسرائیل ایران کے درمیان تنائو نے دنیا کو پریشان کر رکھا ہے خود اس حوالہ سے صدر ٹرمپ اور صدر پیوٹن کے درمیان ٹیلی فون بات چیت ہوئی ہے ۔ اسرائیل امریکی تھپکی اور سگنل کے بغیر ایک قدم نہیں اٹھا سکتا لہٰذا چین کی جانب سے آنے والے ردعمل اور اسرائیل کو پہنچنے والے نقصان اور ایران کی جانب سے بدلہ لینے کے اعلان کے بعد گیند امریکی کورٹ میں ہے اور اس کا انحصار امریکا پر ہوگا کہ وہ سیز فائر کرواتا ہے یا نہیں ۔ یا جنگ کو آگے بڑھاتا ہے ، اس کے ساتھ اس کے لئے یہ خطرہ ضرور ہوگا کہ اگر اسرائیل مطلوبہ نتائج حاصل نہ کر سکا تو بھارت کے بعد اسرائیل کی ہزیمت اس کی عالمی حیثیت کو ضرور متاثر کر دے گی ، امریکی صدر ٹرمپ کی جانب سے ایران اور اسرائیل پر معاہدے کے لیے زور ، اس حوالے سے اپنے کردار کی بات سے ظاہر ہو رہا ہے کہ امریکا پر دبائوہے اور اسرائیل کو ایران کے مقابلہ میں مطلوبہ نتائج نہیں مل رہے ۔ دوسری جانب خود مشرق وسطیٰ کے ممالک میں اسرائیلی جارحیت کے خلاف آنے والے ردعمل اور خصوصاً ایران کے دفاع کی حمایت نے بھی امریکا کو یہ سوچنے پر مجبور کردیا ہے کہ ایک اسرائیل کی خاطر وہ خطہ میں دیگر اتحادیوں کی حمایت کھو سکتا ہے لہٰذا اب بھی اگر وہ اسرائیل ایران میں معاہدہ چاہتا ہے تو پھر انہیں حقیقی ثالث کا کردار ادا کرنا ہوگا محض سیز فائر تنازعات کے حل کا ذریعہ ہوتا ہے حل نہیں ہوتا لہٰذا گیند ان کے کورٹ میں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں