سینیٹ کی 204سفارشات اسمبلی کو ارسال،50فیصد فنانس بل کا حصہ بنائینگے:وزیر خزانہ

سینیٹ کی 204سفارشات اسمبلی کو ارسال،50فیصد فنانس بل کا حصہ بنائینگے:وزیر خزانہ

اسلام آباد(اپنے رپورٹرسے ) سینیٹ نے آئندہ مالی سال کے فنانس بل کیلئے 204 سفارشات کی اتفاق رائے سے منظوری دیتے ہوئے قومی اسمبلی کو بھجوا دی ہیں۔ سینیٹ کی جانب سے بھجوائی جانے والی مجموعی طور پر 204 سفارشات میں کہا گیا کہ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں 50 فیصد اورپنشن میں 7 فیصد کی بجائے 20 فیصد اضافہ کیا جائے ۔

 کم از کم اجرت 37 ہزار روپے کی بجائے 50 ہزار روپے کی جانی چاہئے ۔ای او بی آئی کی پنشن 11500 روپے سے بڑھا کر 23 ہزار روپے ماہانہ کی جائے ۔ انہوں نے کہا کہ فیملی پنشن تاحیات ہونی چاہئے ، تمام سرکاری ملازمین کے میڈیکل الاؤنس میں 200 فیصد تک اضافہ ہونا چاہئے ۔آٹا، دالوں اور ادویات جیسی تمام ضروری اشیا پر جی ایس ٹی ختم ہونا چاہئے ۔قومی اداروں کی نجکاری فوری طور پر روک دینی چاہئے ، ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کیا جائے اور مزید ملازمتوں کے مواقع پیدا کئے جانے چاہئیں، 6 لاکھ روپے تک کی سالانہ آمدنی پر کوئی ٹیکس نہیں ہونا چاہئے ۔ سولر پینلز پر 18 فیصد جی ایس ٹی کا نفاذ واپس لیا جانا چاہئے ،ایوان بالا کے اجلا س میں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ کے چیئرمین سینیٹر سلیم مانڈوی والا نے سفارشات پر کمیٹی کی رپورٹ ایوان میں پیش کی جسے منظور کر لیا گیا ،سفارشات میں کہاگیا کہ سینیٹ کے ارکان کی مجوزہ ترقیاتی سکیمیں بھی 2025-26 کے پی ایس ڈی پی کا حصہ بنائی جائیں۔ زرعی شعبے کی ترقی کیلئے چھوٹے کاشتکاروں کو مناسب سہولیات فراہم کی جانی چاہئیں ۔ کنسٹرکشن کنٹریکٹرز کو ودہولڈنگ ایجنٹس شمار نہ کیا جائے ، سٹیل کے شعبے کو ٹیرف ریفارمز سکیم سے مستثنٰی قرار دیا جائے ۔ جوس انڈسٹری پر عائد کی جانے والی فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں 15 فیصد تک کمی ہونی چاہئے ۔

ہومیو پیتھک ادویات پر سیلز ٹیکس18 فیصد کی بجائے ایک فیصد ہونا چاہئے ، 850 سی سی اور اس کے نیچے کی گاڑیوں پر مجوزہ ٹیکس 18 فیصد کی بجائے 10 فیصد عائد کیا جانا چاہئے سفارشات میں کہا گیا کہ خصوصی ورکرز کو ماہانہ کنوینس الاؤنس 6 ہزار کی بجائے 10 ہزار دیا جانا چاہئے ۔ جی ایس ٹی کسٹم ڈیوٹی اور ایکسائز ٹیکس جیسے بالواسطہ ٹیکسوں میں 50 فیصد کمی کر کے بلواسطہ ٹیکسوں کی طرف جانا چاہئے ۔ مقامی اور بین الاقوامی جاب مارکیٹ کی ضرورت کے مطابق ملک بھر میں فنی اور پیشہ وارانہ تربیت کے پروگرام شروع کئے جانے چاہئیں۔ پچاس لاکھ سے زائد آمدنی پر سالانہ کم از کم 10 فیصد زرعی ٹیکس عائد کیا جانا چاہئے ۔ 200 یونٹ تک کے بجلی بلوں پر سرکلر ڈیٹ سرچارج عائد نہ کیا جائے ۔ کارپوریشنز، رئیل اسٹیٹ اور بڑے زمینداروں سمیت اشرافیہ کو دیئے جانے والے ٹیکس استثنٰی کو ختم کیا جائے ۔ حکومت آئی پی پیز کی کپیسٹی پیمنٹس کو موخر کرے اور ان میں کمی کیلئے مذاکرات کئے جائیں ۔ ٹیکس کا دائرہ بڑھانے کیلئے بڑے زمینداروں، رئیل اسٹیٹ ڈویلپرز اور سٹاک مارکیٹ کے بروکرز پر ٹیکس عائد کیا جانا چاہئے ۔بلوچستان میں جدید ہسپتالوں کی تعمیر کیلئے خصوصی گرانٹس کی منظوری دی جانی چاہئے ۔

رولز کے مطابق استعمال شدہ اور پرانی گاڑیوں کی درآمد پر سہولت دی جانی چاہئے ۔ مقامی طور پر تیار ہونے والے درآمدی ٹریکٹرز پر سیلز ٹیکس کی شرح 5 فیصد تک کم کی جائے تاکہ کاشتکار باآسانی ٹریکٹرز خرید سکیں۔ تنخواہ پر بنیادی استثنیٰ 6 لاکھ روپے سے بڑھا کر 12 لاکھ روپے تک ہونا چاہئے اور انکم ٹیکس 12 لاکھ سے اوپر آمدنی پر وصول کیا جانا چاہئے ۔ غیر متوقع اخراجات سے نمٹنے کیلئے ایمرجنسی فنڈ کا قیام عمل میں لایا جانا چاہئے ۔ ہائر ایجوکیشن ڈویژن کے اداروں کیلئے فنڈز کی تخصیص 4 ہزار 870 ملین روپے تک بحال کی جانی چاہئے ۔ پی ڈبلیو ڈی کی سکیمیں دیگر تین صوبوں کی طرح حکومت سندھ کو بھی منتقل ہونی چاہئیں۔ سرکاری ملازمین کے تمام ایڈہاک الاؤنسز بنیادی تنخواہ میں ضم ہونے چاہئیں۔ ڈیموں کی تعمیر کیلئے مختص فنڈز میں اضافہ ہونا چاہئے تاکہ ان کو بروقت مکمل کیا جا سکے ۔ کلائمیٹ ایڈپشن کیلئے ترقیاتی فنڈز میں 10 فیصد تک اضافہ ہونا چاہئے ۔ رئیل اسٹیٹ ٹرانزیکشن پر کیپٹل گین ٹیکس بحال کیا جانا چاہئے ۔

ایوان بالا میں نئے مالی سال کے بجٹ پر جاری بحث کوسمیٹتے ہوئے وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے کہا کہسینیٹ کی پچھلے سال کی طرح 50 فیصد سے زائد سفارشات کو فنانس بل کا حصہ بنائیں گے ، وزیر اعظم شہباز شریف کی خصوصی ہدایت پر 6 سے 12 لاکھ تک سالانہ کمانے والے افراد پر انکم ٹیکس کی شرح 2.5 فیصد سے کم کر کے ایک فیصد کر دی ، ریاست اس طبقے کو بوجھ تلے دبانا نہیں چاہتی ۔ وزیر خزانہ نے کہاکہ تنخواہ دار ملازمین پر عائد انکم ٹیکس میں کمی کی تجویز پہلے سے ہی بجٹ تجاویز کا حصہ ہے ۔سرکاری ملازمین کی مشکلات کا ادراک کرتے ہوئے 10 فیصد اور ریٹائرڈ ملازمین کی پنشنز میں 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے ۔ برآمد شدہ سولرز کے پرزہ جات پر 18 فیصد سیلز ٹیکس عائد کرنے کا فیصلہ مقامی صنعت کو فروغ دینے اور مسابقتی ماحول قائم کرنے کے لیے کیا گیا تھا۔دونوں ایوانوں میں تفصیلی غور اور اراکان پارلیمنٹ کی تجاویز پر حکومت نے لچک کا مظاہرہ کرتے ہوئے ٹیکس کو کم کرنے کا فیصلہ کیا ہے ، اس ٹیکس کا اطلاق صرف 46 فیصد درآمدی پرزہ جات پر ہوگا جب کہ امپورٹڈ سولر پینلز کی پلیٹوں پر صرف 4.6 فیصد سیلز ٹیکس لاگو ہوگا۔

درآمدی سولر پینلز کی مجوزہ 10 فیصد جی ایس ٹی کے نفاذ سے قبل ہی بعض عناصر کی جانب سے ذخیرہ اندوزی اور منافع خوری میں ملوث ہونے کی اطلاعات موصول ہو رہی ہیں، ان عناصر کو وارننگ دیتا ہوں کہ ان کے خلاف جلد قانون کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ آئندہ برس کے لیے وفاقی حکومت کے اخراجات میں صرف 1.9 فیصد اضافہ ہوا ہے ، کم اور متوسط آمدن والے افراد قومی معیشت میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، ہم تسلیم کرتے ہیں کہ یہ طبقہ ٹیکس بھی دیتا ہے اور مہنگائی بھی جھیلتا ہے ،، بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کا بجٹ 592 ارب روپے سے بڑھا کر 716 ارب روپے کردیا۔ وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا کہ خیبرپختونخوا کے انضمام شدہ علاقے انکم ٹیکس سے مستثنٰی ہیں۔بلوچستان کے مسائل کا حل اولین ترجیح ہے ۔ فاٹا کے سینیٹر حاجی ہدایت اللہ خان نے فاٹا سے ٹیکس لینے کے فیصلے کے خلاف زمین پر بیٹھ کر دھرنا دیا۔ شبلی فراز نے کہا کہ اراکین سینیٹ نے نئے مالی سال کے بجٹ کے حوالے سے بہتر تجاویز پیش کی ہیں، ان تجاویز پر سنجیدگی سے غور کر کے ان پر عملدرآمد کو یقینی بنایا جائے ۔ بعدازاں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ سیدال خان نے ایوان کی کارروائی غیرمعینہ مدت تک ملتوی کردی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں