نوشہرہ ورکاں:والدین کا دوبیٹیوں کو قتل کرنے کا اعتراف
گوجرانوالہ (مانیٹرنگ ڈیسک)نوشہرہ ورکاں میں قتل ہونے والی دو بہنوں کے کیس میں پولیس نے ان کے والدین کو گرفتار کر لیا جنہوں نے خود گزشتہ ماہ اپنے گھر پر ڈکیتی اور بیٹیوں کے قتل پر نامعلوم افراد کے خلاف مقدمہ درج کرایا تھا۔
۔19 مئی کو گوجرانوالہ کے علاقے نوشہرہ ورکاں میں 22 اور 19 سالہ دو بہنوں کے قتل کا مقدمہ ان کے والد کی مدعیت میں درج کیا گیا تھا۔پولیس کا دعویٰ ہے کہ بہنوں کے قتل میں ان کے والدین ملوث تھے اور یہ کہ آلہ قتل کے ساتھ ساتھ لاکھوں روپے کی وہ رقم بھی برآمد کر لی ہے جس کا والد نے ڈکیتی اور قتل کے مقدمے میں دعویٰ کیا تھا۔عدالت نے والدہ کو جوڈیشل ریمانڈ پر سینٹرل جیل گوجرانوالہ منتقل کر دیا ہے جبکہ والد کو جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحقیقاتی ٹیم کے حوالے کیا گیا جس کے بعد 26 جون کو ملزم کو ایک بار پھر جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں دے دیا گیا۔تفتیشی افسر اور ڈی ایس پی کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ انصر موہل کا کہنا ہے کہ تفتیش کے مطابق دونوں میاں بیوی ہی ملزم ہیں اور کوئی تیسرا شامل نہیں۔مقتولین کے والد نے عدالت میں صحت جرم سے انکار کرتے ہوئے کہا کہ ان کے خلاف یہ کیس نہ صرف کمزور ہے بلکہ اس میں کوئی چشم دید گواہ بھی نہیں۔ مقتولین کے والد نے پولیس کو بتایا کہ وہ 22سال سے اٹلی میں کام کر رہے ہیں اور واقعے سے چند روز قبل پاکستان آئے تھے ۔
والد نے مقدمے میں دعویٰ کیا کہ ڈاکوؤں نے ان کے سامنے ان کی دو بیٹیوں کا قتل کیا اور گھر سے 9 لاکھ روپے بھی لے گئے تھے ۔کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ کے ایس ایس پی کیپٹن (ر)منصور امان نے بتایا کہ ‘یہ حساس کیس تھا جس میں قتل کے تمام شواہد ماں باپ کی طرف ہی جاتے تھے ۔’ایس ایس پی نے بتایا کہ مقتولین کے والد نے پولیس کو بیان دیا کہ چھوٹی بیٹی نے انھیں امتحانات سے متعلقہ اشیا خریدنے کے لیے بازار بھجوایا تھا۔ ان کے مطابق اس دکان میں نصب سی سی ٹی وی کیمروں کا جائزہ لینے سے پولیس کو معلوم ہوا کہ مرکزی ملزم وہاں نہیں گئے تھے اور ان کی موبائل فون پر لوکیشن بھی کسی اور جگہ کی نشاندہی کر رہی تھی۔کیپٹن (ر)منصور امان کا کہنا ہے کہ دونوں میاں بیوی کے موبائل فونز کا فرانزک کرنے پر یہ معلوم ہوا کہ ان کے بیچ واٹس ایپ پر بڑی بیٹی کی ‘کورٹ میرج کے بارے میں بات ہوئی تھی۔’
ان کے مطابق واٹس ایپ پر ان پیغامات میں والد ‘سخت سیخ پا اور پریشان تھے ۔ وہ جلد اٹلی سے پاکستان آنا چاہ رہے تھے ۔’پولیس کو تحقیقات کے دوران معلوم ہوا کہ بڑی بیٹی نے دو سال قبل یونیورسٹی میں اپنے کلاس فیلو کے ساتھ ‘خفیہ کورٹ میرج کر لی تھی۔ یہ بات چھوٹی بیٹی نے ماں کو بتائی اور ماں نے اپنے شوہر کو اٹلی فون کر کے آگاہ کیا۔’پولیس کا الزام ہے کہ بیٹیوں پر فائرنگ ان کے والد نے کی مگر آلہ قتل کو چھپانے اور دیگر شواہد چھپانے میں مقتولین کی والدہ ملوث تھیں۔تفتیشی افسر اور ڈی ایس پی کرائم کنٹرول ڈیپارٹمنٹ انصر موہل نے بی بی سی کو بتایا کہ ‘ملزم سے جب تفتیشی ٹیم نے پوچھا کہ بڑی بیٹی کو خفیہ نکاح کرنے کی پاداش میں قتل کیا تو چھوٹی بیٹی کو کیوں مارا’ تو اس پر ملزم کا جواب تھا کہ ‘اسے (چھوٹی بیٹی کو) اس معاملے کا علم تھا لیکن اس نے بات چھپائے رکھی اور وہ بھی اپنی بڑی بہن کے اس مبینہ جرم میں شریک تھی،مجھے لگا کہ اگر آج اسے چھوڑ دیا تو کل کو یہ بھی ایسا عمل (یعنی اپنی پسند سے شادی ) کر سکتی ہے ۔