پی ٹی آئی اندرونی بحران پر سخت پریشان ، 5اگست کو بڑا احتجاج نہیں ہو گا
(تجزیہ:سلمان غنی) اڈیالہ جیل کے اندر سے پارٹی میں اندرونی اختلافات اور احتجاج کے حوالے سے کنفیوژن پر آنے والے بانی پی ٹی آئی کے ردعمل اور اڈیالہ جیل کے باہر پارٹی کے سیکرٹری جنرل سلمان اکرم راجہ کی جانب سے پنجاب کی چیف آرگنائزر عالیہ حمزہ کے حوالے سے اختیار کیے جانے والے طرز عمل اور تنبیہ سے ظاہر ہو رہا ہے کہ پی ٹی آئی اپنے اندرونی بحران پر سخت پریشان ہے ۔
یہ بحران اور طوفان بانی پی ٹی آئی کی جانب سے 5 اگست کو شروع کیے جانے والے احتجاج کے اعلان کے بعد پختونخوا کے وزیراعلیٰ علی امین گنڈاپور کی جانب سے اس تحریک کے حوالے سے نوے روز کے بیان سے پیدا ہوا، جو انہوں نے اپنی لاہور آمد کے بعد رائیونڈ کے فارم پر اظہار خیال کرتے ہوئے دیا۔خود جماعت کے اندر اس حوالے سے ایک کنفیوژن پیدا ہوئی کہ 5 اگست کی تاریخ کے بعد یہ نوے روز کا احتجاج کیا ہے ؟ اس طرح احتجاج اور احتجاجی تحریک پر سوالات اٹھے ، اور یہ سب کچھ کہنے والے خود جماعت کے ذمہ داران تھے ۔ لہٰذا اس امر کا جائزہ ضروری ہے کہ صورتحال کے بعد 5 اگست کے احتجاج کی پوزیشن کیا ہوگی،حقیقت یہی ہے کہ 5 اگست کے احتجاج کے جواب میں نوے روز کی بات ظاہر کرتی ہے کہ پارٹی میں کچھ اور بھی چل رہا ہے ، اور اس ایجنڈے پر گامزن موثر احتجاج کو ممکن نہیں سمجھتے اور اس عمل کو طویل کرنا چاہتے ہیں۔گزشتہ روز اڈیالہ جیل اور اس کے باہر ہونے والی سرگرمیوں اور ردعمل سے ظاہر ہو رہا تھا کہ اب احتجاجی عمل کو نوے روز کے اعلان سے نکالا جائے گا اور آگے بڑھایا جائے گا۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ نوے روز کے اعلان نے 5 اگست کی احتجاج کی کال سے ہوا نکال دی ہے اور ماہرین مصر ہیں کہ ایسا جان بوجھ کر کیا گیا، اور مقصد یہی تھا جو اس کا نتیجہ نکالا۔
اب عملاً جماعت 5 اگست اور نوے روز میں گھری دکھائی دے رہی ہے ۔ جہاں تک اس امر کا سوال ہے کہ کیا پی ٹی آئی 5 اگست کو بڑا احتجاج کر پائے گی؟ فی الحال ایسی کیفیت نظر نہیں آ رہی، نہ تو پارٹی کے پاس ایسی حکمت عملی ہے اور نہ ہی ایسے ایشوز جن کی بنا پر کارکنوں اور عوام کے اندر تحریک پیدا کی جا سکے ۔ یہی وجہ ہے کہ یہ چہ میگوئیاں بھی جاری ہیں کہ 5 اگست کے احتجاج کو حتمی نہ سمجھا جائے ، یعنی کہ احتجاج کی اس کال پر پارٹی ڈانوں ڈول ہے ۔ویسے بھی اگر احتجاجی عمل کا گہرائی سے جائزہ لیا جائے تو تحریک انصاف جو احتجاجی عمل اور مزاحمتی بیانیہ کی پہچان رکھتی ہے ، 26 نومبر کے بعد سے اب اس میں پہلا سا دم خم نظر نہیں آ رہا۔یہی وجہ ہے کہ خود پارٹی کے اندر بھی اس حوالے سے یکسوئی اور سنجیدگی نظر نہیں آتی، اور حالات کا رخ بتا رہا ہے کہ اب شاید پختونخوا میں بھی پہلا سا دم خم نہ ہو، کیونکہ پختونخوا میں احتجاج سے زیادہ توجہ وزیراعلیٰ گنڈاپور کی خود اپنی حکومت کی بقاء کی ہوگی۔ مخصوص نشستوں کے فیصلوں کے بعد اب پختونخوا میں حکومت کی تبدیلی کی بات ہو رہی ہے ، اور نوے روز کے بیان کو بھی اس تناظر میں لیا جا رہا ہے ۔لہٰذا مذکورہ صورتحال کی روشنی میں اگر پی ٹی آئی کے سیاسی کردار اور خصوصاً احتجاج کو دیکھا جائے تو فی الحال نہیں کہا جا سکتا کہ احتجاج اور احتجاجی تحریک چلتی نظر آ رہی ہے ۔ اگر اس حوالے سے کوئی کوشش ہوتی ہے تو زیادہ دیر تک چل نہیں پائے گی۔