ملزم پر تشدد یا جاں بحق ہونیکا کیس ایف آئی اے کو منتقلی پر ایف آئی آر منسوخ کرنے کا حکم
لاہور (محمداشفاق سے )لاہورہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے پولیس کی زیر حراست ملزم پر تشدد یا جاں بحق ہونے کا مقدمہ ٹرائل شروع ہونے سے قبل ایف آئی اے کو ٹرانسفر کرنے پرپولیس کی ایف آئی آر کینسل کرنے کا حکم دیدیا ۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے نیا قانونی نکتہ طے کرتے ہوئے قرار دیاکہ حکومت نے کسٹوڈیل اینڈ ڈیتھ ٹارچر ایکٹ کے حوالے سے آگاہی اور سرکاری اہلکاروں کی ٹریننگ کے اقدامات نہیں کئے ۔ عدالتی معاون قرۃ العین افضل نے قرار دیاکہ ایف آئی آر کے بغیر بھی ایف آئی اے تفتیش شروع کر سکتی ہے ۔جسٹس طارق سلیم شیخ نے کانسٹیبل محمد آفتاب کی درخواست ضمانت پر 29 صفحات پر مشتمل فیصلہ جاری کردیا ۔ جسٹس طارق سلیم شیخ نے قرار دیاکہ اگر زیر حراست ملزم پر تشدد یا زیادتی کا مقدمہ پولیس نے درج کیا اور بعد ازاں ایف آئی اے کو ٹرانسفر کر دیا تو پولیس اس ایف آئی آر کو کینسل کر سکتی ہے کیس ٹرانسفر ہونے پر ایف آئی اے ایک نئی ایف آئی آر درج کرے گی ۔چیف سیکرٹری پنجاب سمیت دیگر کسٹوڈیل اینڈ ڈیتھ ٹارچر ایکٹ پر عملدرآمد کے لیے فوری اقدامات کریں اگر مقدمے کا ٹرائل شروع ہو چکا ہے تو پولیس کی درج ایف آئی آر کینسل نہیں کی جا سکتی اور ایف آئی اے کو نئی ایف آئی آر درج کرنے کی ضرورت نہیں پولیس کی جانب سے کسٹوڈیل اینڈ ڈیتھ ٹارچر ایکٹ کے کیس کی ایف آئی آر درج کرنا ٹرائل کو نقصان نہیں پہنچائے گا۔ اگر چالان جمع ہونے سے قبل کیس ایف آئی اے کو ٹرانسفر ہوا تو ایف آئی اے تمام مواد حاصل کرنے کے بعد اپنی علیحدہ رپورٹ بنائے گی۔ اگر پولیس نے چالان جمع کروا دیا تو ایف آئی اے عدالت میں ایک ضمنی رپورٹ جمع کروائے گی ۔
جسٹس طارق سلیم شیخ نے زیر حراست ملزم پر تشدد کے مقدمے میں گرفتار پولیس اہلکار کی ضمانت منظور کرلی۔ عدالت نے فیصلے میں لکھا کہ عدالت کے سامنے اس کیس میں تین بنیادی سوالات تھے ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ایکٹ 2022 کے کونسے جرائم کی تفتیش ہوسکتی ہے ؟ ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ڈیتھ ایک کی موجودگی میں زیر حراست ڈیتھ کا مقدمہ اگر پی پی سی کے قوانین کے تحت پولیس درج کرے تو ایف آئی اے کو ٹرانسفر کرنے کا کیا طریقہ کار ہے ؟ اگر تفتیش ایف آئی اے کو منتقل ہو جاتی ہے تو پھر پولیس نے جو تفتیش کی تھی اسکا کیا ہوگا؟ انتہائی اہم سوالات کے باعث عدالت نے اٹارنی جنرل ،ایڈووکیٹ جنرل اور پراسیکیوٹر جنرل پنجاب کو طلب کیا جب کہ بیرسٹر حیدر رسول مرزا اور قرۃ العین افضل ایڈووکیٹ کو عدالتی معاون مقرر کیا ۔فیصلے میں کہا گیاکہ ایڈووکیٹ جنرل پنجاب کے مطابق ایسے کیسز میں ایف آئی اے ہیومن رائٹس کمیشن کی نگرانی میں تفتیش کرے گی۔ایڈووکیٹ جنرل کے مطابق، سرکاری اہلکاروں کے خلاف ایف آئی آر انکوائری کے بعد درج کی جانی چاہیے ۔ایڈووکیٹ جنرل کے مطابق آئی جی پولیس ایسے کیسز کو ٹرانسفر کرنے کا میکنزم بنا سکتے ہیں، ایف آئی اے خود سے ایسے کیسز کا دائر اختیار حاصل کر سکتی ہے ، مجسٹریٹ زیر حراست ملزم پر تشددقتل اور زیادتی کے حوالے سے ایف آئی اے کو ہدایت جاری کر سکتا ہے ۔
عدالتی معاون قرۃ العین افضل کے مطابق ایف آئی آر کے بغیر بھی ایف آئی اے تفتیش شروع کر سکتا ہے ۔ایڈووکیٹ قرۃ العین افضل کے بقول ایف آئی اے تفتیش مکمل کرنے کے بعد رپورٹ عدالت میں جمع کروا سکتی ہے ۔ ایڈووکیٹ قرۃ العین افضل نے کہا کہ عدالت رپورٹ کی بنا پر ملزم کو طلب کر کے مقدمہ شروع کر سکتی ہے موجودہ کیس میں یہ بات واضح ہے کہ ایف ائی آر غلط طریقے سے درج کی گئی مگر مقدمے کا ٹرائل جاری ہے ایسی کوئی بات سامنے نہیں آئی کہ ملزم پولیس اہلکار کو کسی تعصب یا غیر قانونیت کا سامنا ہو۔ فیصلے میں کہا گیا کہ پولیس اہلکار کا یہ دعوی ٰغلط ہے کہ تفتیش اور ٹرائل قانونی طریقے سے نہیں چل رہا، یہ بات واضح ہے کہ پراسیکیوشن کے گواہان نے پولیس اہلکار پر محض الزامات لگائے ہیں ایسا کوئی الزام نہیں ہے کہ پولیس اہلکار نے ذاتی طور پر شہروز حیدر پر تشدد کیا۔ عدالت پولیس اہلکار آفتاب محمود کی ضمانت دو لاکھ روپے کے مچلکے کے عوض منظور کرتی ہے ملزم محمد آفتاب پر دیگر اہلکارں کے ہمراہ زیر حراست ملزم پر تشدد کرنے کا مقدمہ درج تھا ملزم پر گجرات کے تھانہ لاری اڈا میں 2025 میں مقدمہ درج کیا گیا ملزم کے وکیل کے مطابق ٹارچر اینڈ کسٹوڈیل ایکٹ کے تحت صرف ایف آئی اے کو تحقیقات کا اختیار ہے ملزم کے وکیل کے مطابق زیر حراست تشدد کا مقدمہ درج کرنا پولیس کا اختیار نہیں ملزم کے وکیل نے کہاپولیس نے مقدمہ درج کرتے وقت قانونی لوازمات پورے نہیں کئے ۔