سیف سٹی اتھارٹی انفرادی فرد کو ویڈیوز دینے کی مجاز نہیں:ہائیکورٹ
لاہور(محمد اشفاق سے )لاہور ہائیکورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے پنجاب حکومت کو سیف سٹی کے تمام کیمرے فعال کرنے کا حکم دیدیا اور کہا ترقیاتی منصوبوں کی کھدائی کے دوران سی سی ٹی وی کیمروں کی کیبل کو محفوظ بنانے کیلئے چیف سیکرٹری پنجاب عدالتی فیصلہ پر عمل درآمد کو یقینی بنائیں۔
سیف سٹی اتھارٹی کسی انفرادی فرد کو ویڈیوز فراہم کرنے کا مجاز نہیں، عدالت نے سیف سٹی اتھارٹی کی جانب سے خاتون کو شوہر کی گرفتاری کی ویڈیوز فراہم نہ کرنے کے اقدام کو درست قرار دیتے ہوئے کہا قانون کے تحت سیف سٹی صرف کسی ادارے ،تفتیشی ،عدالت یا اتھارٹی کو ویڈیوز فراہم کرسکتی ہے ،جسٹس طارق سلیم شیخ نے ناصرہ اشفاق کی درخواست پر 21 صفحات پر مشتمل تحریری فیصلہ جاری کردیا، فیصلے میں کہا گیا کہ تمام ادارے ترقیاتی کاموں سے پہلے سیف سٹی سے اجازت لیں گے ۔ فیصلے میں کہاگیا کہ درخواست گزار کے شوہر محمد اشفاق کیخلاف 2023 میں تھانہ وحدت کالونی میں ڈیڑھ کلو منشیات برآمد گی کا مقدمہ درج ہوا ، درخواست گزار کے مطابق پولیس حکام نے اسکے شوہر پر جھوٹا مقدمہ درج کیا،اہلکاروں نے نامعلوم افراد کے ہمراہ اس کے شوہر کو گھر سے اغوا کیا اور بری طرح تشدد کا نشانہ بنایا ،اغوا کے بعد فون آیا اور رہائی کے بدلے 5 لاکھ کا مطالبہ کیا گیا ،بعد ازاں دو لاکھ کا کہا گیا، رقم نہ دینے پر منشیات کے مقدمے میں نامزد کردیا گیا۔
درخواست گزار نے واقعہ کی سی سی ٹی وی فوٹیجز اور کال ڈیٹا ریکارڈ کی درخواست دی جس پر کوئی عملدرآمد نہیں ہوا ،درخواست گزار نے سیف اتھارٹی کو وقوعہ کی فوٹیج دینے کی درخواست دی ،سیف سٹی اتھارٹی نے ویڈیو فراہم کرنے کی درخواست مسترد کردی ، جسٹس آف پیس نے بھی درخواست مسترد کی جسے ہائیکورٹ میں چیلنج کیا گیا،جسٹس طاق سلیم شیخ نے فیصلے میں لکھا کہ آئین کے تحت معلومات تک رسائی ہر شہری کا بنیادی حق ہے ۔اسکے باوجود معلومات تک رسائی لا متناہی نہیں ہوسکتی نیشنل سکیورٹی سمیت بہت سے ایسے معاملات ہیں جہاں معلومات تک رسائی نہیں ہوسکتی ۔پولیس آرڈر 2002 میں کسی بھی مدعی کو متعدد قانونی آپشنز فراہم کرتا ہے اگر تفتیش بری نیت یا درست سمت میں نہ ہو تو ہائیکورٹ کو بھی مداخلت کا اختیار ہے ، درخواست گزار کے پاس پولیس آرڈر کے تحت کارروائی کا حق تھا جو اس نے استعمال نہیں کیا ، عدالت کی نظر میں جسٹس آف پیس کو تفتیشی کو ہدایت جاری کرنی چاہیے تھی ،درخواست گزار نے ویڈیوز سے متعلق درخواست وقوعہ کے دو ماہ بعد دائر کی اتنے عرصے میں سیف سٹی کی ویڈیوز ویسے ہی ضائع ہو جاتی ہے ۔ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے بتایا کہ کال ڈیٹا ریکارڈ کیس فائل کے ساتھ لگایا ہے اس لیے درخواست کو مٹادیا جاتا ہے ۔