روزگار، صحت نہ پانی، پاکستان کے 20 اضلاع انتہائی پسماندہ، بلوچستان سرفہرست
بلوچستان کے 17 اضلاع میں پینے کا پانی بھی میسر نہیں ، کچے گھر ، ٹرانسپورٹ ،فون سروسز، ایمرجنسی رسپانس جیسے مسائل ملک کے 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ، آبادی کی گروتھ اور کلائمیٹ چینج کو کنٹرول کرنا ناگزیر ہو چکا : وزیر خزانہ
اسلام آباد (کامرس رپورٹر) ملک بھر کے 20 اضلاع میں 1 کروڑ افراد پسماندہ زندگی گزارنے کا انکشاف ہوا ہے۔ 20اضلاع میں سے بلوچستان کے 17 اضلاع انتہائی پسماندہ قرار دئیے گئے ہیں۔ پاکستان پاپولیشن کونسل نے ملک کے پسماندہ ترین اضلاع کی رپورٹ میں بتایا کہ ملک کے 20 کمزور ترین اضلاع میں سب سے کمزور واشک، خضدار، کوہلو، ژوب شامل ہیں۔ خیبرپختوانخوا کا ضلع کوہستان بھی پسماندہ ترین اضلاع میں شامل ہے ۔ دیگر پسماندہ ترین اضلاع میں ماشکیل، ڈیرہ بگٹی، قلعہ سیف اللہ، قلات، تھرپارکر، شیرانی، جھل مگسی بھی پسماندہ ترین اضلاع میں شامل ہیں۔ نصیر آباد، آواران، خاران، شمالی وزیرستان اور پنجگور بھی کمزور ترین اضلاع ہیں۔پسماندہ ترین گھروں میں 65 فیصد مکانات کچے یا عارضی ڈھانچوں پر مشتمل ہیں۔ جھل مگسی میں 97 فیصد گھرانے کچے یا نیم پکے گھروں میں رہنے پر مجبور ہیں۔ بلوچستان کے بیشتر اضلاع میں سڑکوں، ٹرانسپورٹ اور فون سروسز کی شدید کمی ہے۔
رپورٹ کے مطابق مواصلات کی کمزوری سے ایمرجنسی رسپانس اور ترقیاتی خدمات متاثر ہیں۔ روزگار کے شعبے میں 20 میں سے 15 بدترین اضلاع بلوچستان میں ہیں۔ بلوچستان اور کے پی میں بے روزگاری اور بلا معاوضہ گھریلو مزدوری کی شرح سب سے زیادہ ہے ۔صحت کی سہولیات تک رسائی میں بلوچستان اور کے پی سب سے زیادہ کمزور ہیں۔ دور دراز اضلاع میں قریبی صحت مراکز تک فاصلہ 30 کلومیٹر سے زائد ہے جبکہ بلوچستان میں مختلف علاقوں میں قریبی صحت مراکز تک فاصلہ 93 کلومیٹر تک بھی ہے ۔ اسی طرح ملک میں مجموعی طور پر ہائی اور ہائر سیکنڈری سکول 12 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہیں جبکہ خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں تعلیمی مراکز کا فاصلہ 31 کلومیٹر تک بھی ریکارڈ کیا گیا ہے ۔ رپورٹ میں بتایا گیا کہ کراچی میں سب سے زیادہ سکول جبکہ بلوچستان میں سب سے کم ہیں۔ بلوچستان میں لڑکیوں کیلئے ہائی/ہائر سیکنڈری سکول تک فاصلہ سب سے زیادہ ہے۔
سندھ کا تھرپارکر ڈیموگرافک لحاظ سے سب سے زیادہ کمزور ہے ۔ پاکستان میں زیادہ شرحِ پیدائش کمزوری میں بڑا کردار ادا کرتی ہے ۔ بڑے خاندان تعلیمی و صحت سہولیات تک رسائی کو مزید مشکل بناتے ہیں۔ وزیر خزانہ محمد اورنگزیب نے پسماندہ ترین اضلاع کی رپورٹ لانچنگ تقریب کے دوران کہا پاکستان کو آبادی اور کلائمیٹ چینج جیسے اہم چیلنجز کا سامنا ہے ۔ موجودہ جی ڈی پی گروتھ آبادی کی 2.5 فیصد گروتھ کی ضروریات سے کم ہے ۔ 2.55 فیصد آبادی کی گروتھ خطے کے دیگر ممالک کی نسبت بہت زیادہ ہے ۔ پاکستان میں تقریباً 40 فیصد بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔ کلائمیٹ چینج کے باعث سیلاب، خشک سالی جیسی آفات کا سامنا ہے ۔ آبادی کی گروتھ اور کلائمیٹ چینج دونوں کو کنٹرول کرنا ناگزیر ہو چکا ہے ۔وزیر خزانہ نے خطاب کے دوران کہا بلوچستان اور خیبرپختونخواہ کے اضلاع میں زیادہ متاثرہ لوگ شامل ہیں۔ ہمیں فوری طور پر 2.55 فیصد آبادی کی گروتھ میں کمی لانا ہو گی۔ دیہی علاقوں کے لوگوں نے شہروں میں کچی آبادی قائم کی ہوئی ہیں۔
کچی آبادیوں میں صاف پانی، صحت، چائلڈ اسٹنٹنگ جیسے مسائل کا سامنا ہے۔ آبادی کو کنٹرول کرنے کیلئے بچوں کی افزائش میں پلاننگ کی ضرورت ہے ۔ آبادی اور کلائمیٹ چینج کے مسائل کو سنجیدہ نہ لیا تو سنگین صورتحال ہو گی۔ پاکستان آئی ایم ایف پروگرام اور اسٹرکچرل ریفامرز پر عملدرآمد کر رہا ہے ۔ آئی ایم ایف پروگرام کے باعث ملکی معیشت بہتری کی جانب گامزن ہے ۔وزیر موسمیاتی تبدیلی مصدق ملک نے تقریب کے دوران کہا کہ بڑھتی ہوئی آبادی ماحولیاتی آلودگی کا باعث بنتی ہے ۔ 20 میں سے 17 بدترین اضلاع صوبہ بلوچستان میں ہیں۔ ان اضلاع میں ایک کروڑ کی آبادی رہائش پذیر ہے ۔ ان اضلاع میں 65 فیصد آبادی کچے مکانات میں رہ رہی ہے ۔ پچاس لاکھ افراد کو صاف پانی تک رسائی ہی نہیں ہے ۔ مصدق ملک نے کہا کہ پانچ سال کی عمر کے دو کروڑ سے زیادہ بچوں کو اسکول تک رسائی نہیں۔ آبادی کی بنیاد پر وسائل دینے سے آبادی بڑھ رہی ہے۔ زیادہ آبادی ملکی وسائل پر بوجھ بڑھا رہی ہے ۔ زیادہ آبادی زچہ و بچہ کی صحت کیلئے مسائل پیدا کرتی ہے۔
مضبوط معیشت کیلئے ذمہ دارانہ پاپولیشن پلاننگ ضروری ہے ۔ زیادہ آبادی زچہ و بچہ کی صحت کیلئے مسائل پیدا کرتی ہے ۔ آبادی کی بنیاد پر وسائل دینے سے آبادی بڑھ رہی ہے ۔ خوشحالی کی بنیاد پر وسائل دینے سے مزید خوشحالی آئے گی۔ اضلاع اور تحصیل کی سطح پر بااختیار بنانے کی ضرورت ہے ۔ لوکل باڈیز کو بااختیار بنا کر مقامی سطح پر مسائل حل کرنا ہوں گے ۔رپورٹ میں مزید کہا گیا کہ بلوچستان میں 64 لاکھ آبادی، خیبرپختونخوا میں 17 لاکھ 40 ہزار اور سندھ میں 17 لاکھ 80 ہزار افراد پسماندہ علاقوں میں زندگیاں گزار رہے ہیں۔ کنٹری ڈائریکٹر پاپولیشن کونسل کا کہنا تھا کہ پسماندہ علاقوں میں صحت کیلئے بنیادی سہولیات اور ہیلتھ ورکرز کی کمی جیسے مسائل کا سامنا ہے ۔ ملک بھر میں اسکولوں کی کمی ہے ۔ پینل ڈسکشن کے دوران ماہرین کا کہنا تھا کہ پاکستان میں پسماندگی بہت زیادہ بڑھ چکی ہے ۔ بلوچستان میں ڈیموگرافک پریشر ناگزیر حد تک بڑھ چکا ہے ۔ ایس ڈی جیز پروگرام کی مانیٹرنگ بڑھانا ہو گی۔ زمینی حقائق کے مطابق بجٹ مختص کرنا ہو گا۔