طالبان کے ذمہ دارثابت ہونے تک دفاعی محاذ پر رہنا پڑیگا

طالبان کے ذمہ دارثابت ہونے تک دفاعی محاذ پر رہنا پڑیگا

وضاحتوں سے نکل کر دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی بیخ کنی کریں تب مسئلہ حل ہوگا

(تجزیہ:سلمان غنی)

پاکستان اور افغانستان میں جاری بداعتمادی کے عمل میں افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے اس بیان کو حقیقت پسندانہ قرار دیا جا سکتا ہے جس میں انہوں نے کابل میں پولیس اکیڈمی سے خطاب کرتے ہوئے واضح کیا کہ ہم کسی ریاست کے لئے خطرہ نہیں اور ہم غلط فہمیوں کے ازالہ کے لئے تیار ہیں ۔جب تک افغان طالبان اس حوالہ سے ذمہ داری کا ثبوت نہیں دیں گے انہیں دہشت گردی کے حوالہ سے دفاعی محاذ پر رہنا پڑے گا، لہٰذا وہ بیانات ،اعلانات اور وضاحتوں سے نکل کر اپنی سرزمین اور دہشت گردوں کی سرگرمیوں کی بیخ کنی کریں تب مسئلہ حل ہوگا، دوسری جانب پاکستان کی پالیسی بھی بڑی واضح ہے کہ افغانستان ہمارا ہمسایہ ملک ہے اور ہم نہیں چاہتے کہ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف استعمال ہو اور دہشت گردی کی یہ سرگرمیاں خود افغانستان کے اپنے مفاد میں نہیں ،لہٰذا افغان وزیر داخلہ سراج الدین حقانی کے مذکورہ موقف کا تجزیہ ضروری ہے کہ کیا واقعتاً افغان انتظامیہ کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہے ۔

جہاں تک افغانستان اور پاکستان کے درمیان بداعتمادی کا سوال ہے تو اس کی بنیادی وجہ تو افغان سرزمین ہے ،دہشت گردی کی سرگرمیاں ہیں جن پر پاکستان کا افغان انتظامیہ پر اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے لئے دباؤ تھا اور افغان طالبان نے اپنی ذمہ داریاں ادا کرنے کی بجائے الٹا اپنا جھکاؤ بھارت کی جانب کر لیا اور پاکستان پر الزام تراشی شروع کر دی ۔افغانستان کے حقانی ہمیشہ سے اپنا جھکاؤ پاکستان کی طرف رکھتے ہیں۔ طالبان قیادت میں حقانی نیٹ ورک کو ہمیشہ ایک سخت گیر عسکری اور انٹیلی جنس صلاحیت والا دھڑا سمجھا جاتا ہے اور پاکستان سے قربت نے ہی انہیں ز یادہ اثر و رسوخ کا حامل بنایا ۔بھارت مخالف بیانیے میں بھی پاکستان اور حقانی نیٹ ورک کے مفادات مشترکہ رہے اور یہ رشتہ ماضی میں وقتی نہیں بلکہ عقیدت اور اعتماد پر مبنی بن گیا ۔سراج الدین حقانی کی جانب سے آنے والے موقف سے ظاہر ہوتاہے کہ افغان طالبان کو اپنی غلطیوں کا احساس ہے ، جس کا اظہار سراج الدین حقانی کے بیان سے ظاہر ہے ،جس میں انہوں نے کہا کہ ہم نے مسائل کے حل کے لئے مذاکرات کے دروازے بند نہیں کئے ۔ لیکن ان کا اشارہ پاکستان کے اس دیرینہ مطالبے کی طرف تھا جس میں کابل سے کالعدم تحریک طالبان کو لگام ڈالنے کی بات کی گئی تھی ۔لہٰذا یہ امر بھی افغانستان میں خود طالبان انتظامیہ پر دباؤ کا باعث بن رہا ہے ۔

لیکن کیا سراج الدین حقانی کی جانب سے غلط فہمیوں کے ازالہ کیلئے بیان کو طالبان کے موقف کا آئینہ دار سمجھا جائے اور طالبان اپنی سرزمین سے دہشت گردی کی سرگرمیوں کا سدباب کر سکیں گے اور دوحا معاہدہ پر عمل درآمد کیا طالبان کے ایجنڈا میں شامل ہے ؟، ابھی اس پر کچھ حتمی طور پر کہنا قبل از وقت ہے ۔حقانی افغانستان کے حوالہ سے پاکستان کے کردار کو نہ بھولنے کے لئے تیار ہیں اور پاکستان کو چھوڑنے کا خطرہ مول لینا چاہتے ہیں،لہٰذا ان کا بیان ان کی روایتی پالیسی کا مظہر ہے ۔ایک طرف افغانستان پاکستان کے دہشت گردی بارے تحفظات دور نہیں کر پا رہا تو دوسری جانب تاجکستان میں دہشت گردی کے واقعات میں افغانستان کے ملوث ہونے کے عمل نے نئی صورتحال پیدا کر رکھی ہے ۔اس محاذ پر بھی افغان وزیر داخلہ ملا متقی غلط فہمیوں کے ازالہ اور مسائل کو افہام و تفہیم کے ذریعہ حل کرنے پر زور دیتے نظر آ رہے ہیں اور ملا متقی کا کہنا ہے کہ ہم تاجکستان میں پیش آنے والے واقعات پر سنجیدہ تحفظات کر رہے ہیں، مطلب یہ کہ کوئی بھی ہمسایہ افغان سرزمین سے ہونے والی دہشت گردی سے بچا نظر نہیں آ رہا ،سب کو شکایات ہیں اور ذمہ داری افغان انتظامیہ پر ہے ۔آخر کب تک طالبان ہمسایہ ممالک کو وضاحتیں دیتے نظر آئیں گے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں