"KSC" (space) message & send to 7575

’’خاموش لمحے‘‘اور شہباز شریف

اس کی آنکھوں کی چمک یہ بتاتی ہے کہ وہ اقتدار کی مسند پر بیٹھنے کیلئے بے تاب ہے۔ اس کے لہجے کی عاجزی انسانوں کی ایک بڑی تعداد کو یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتی ہے کہ وہ ان کا خادم بن کر رہے گا۔ الفاظ کا جوش‘ جسم کی پھرتی اور فلسفے و شاعری کا بیان اسے شاید ہر وقت اسی گمان میں ڈالے رکھتا ہے کہ وہ ایک اعلیٰ پائے کا فلاسفر حکمران ہوگا!
جس کی وسعت نظر سے بننے والی پالیسیاں اقوام عالم کیلئے مشعل راہ ہوں گی‘ افریقہ میں بیٹھا نیلسن منڈیلا کا پیروکار‘ چین میں بسنے والا مائوزے تنگ کا انقلابی اور فلسطین میں لڑنے والا مجاہد بھی اس ہستیٔ باکمال کی طرف نظر اٹھا اٹھا کر دیکھ رہا ہے کہ ذہانت کا یہ چراغ اقتدارِ اعلیٰ کی لو سے جلے گا تو تب ہی چمن میں بہار آئے گی۔ وزیراعلیٰ شہباز شریف وزیراعظم پاکستان کے امیدوار بن گئے‘ ان کی پارٹی کی جیت کی صورت میں وہ پاکستان کے آئندہ وزیراعظم ہوں گے۔ بس یہی وہ مقام ہوگاجب دنیائے عالم میں نظریۂ شہباز جنگل میں آگ کی طرح پھیل جائے گا! جگہ جگہ نگر نگر شہباز ماڈل اقوام کی زندگی کا نصب العین ہوگا۔ دنیا کا ہر نفس جواس چشمۂ بے نظیر سے فیض حاصل کرے گا پھر وہ کسی اور گھاٹ کا پانی نہ پی سکے گا۔شہباز ماڈل پر بننے والی سلطنتوں میں پنجاب پولیس جیسی محنتی اور ایماندار پولیس فورس ہوگی‘ جس کا مقصد حاکموں اور ان کے رشتے داروں کے اصطبل صاف کرنا نہیں بلکہ ڈیوٹی کیلئے جان دینا ہوگا‘ ایک ایسی عالیشان پولیس تیار ہوگی جو نہتے مرد اور عورتوں پر گولیاں چلانے کے آرڈر کو پھاڑ کر پھینک دیا کرے گی! شہباز ماڈل میں سریے سے تعمیر شدہ عمارتوں کی بجائے شعور اور علم کی عمارت کو تعمیر کرنے پر فوکس ہوگا۔ ٹیکس لینے والی حکومت عوام کو ہسپتال مہیا کرے گی۔ شہباز شریف کے وزیراعظم بننے کے بعد ان کی تقلید کرنے والی قوم قانون کی حکمرانی کا سنہرا دور دیکھے گی۔
آپ کی حکومت ٹیکس چوروں‘ جعلی اکائونٹ بنانے والوں‘ منی لانڈرنگ کرنے والوں کے خلاف جہاد کرے گی‘ آپ کے دور میں حکومتی امرا پر ملک سے باہر سرمایہ کاری کرنے پر پابندی ہوگی‘ اور حکمران کو بیرونی اثاثے رکھنے کی اجازت نہ ہوگی۔
اوپر لکھی یہ تمام سطور ایک خوبصورت گمان ہے‘ یہ اور بات ہے کہ اگلے الیکشن تک ن لیگی شعراء اسی خیال کو حقیقت بنا کر الیکشن میں بیچیں گے۔ کچھ بعید نہیں کہ عوام کی اکثریت اسی خواب کے چکر میں شہباز شریف کو اپنا اگلا حکمران چن لے! تاہم یہ نہیں معلوم کہ ماڈل ٹائون میں مرنے والے عالم ارواح میں شہباز شریف کی وزارت عظمیٰ کی تقریب حلف برداری کو کیسا محسوس کریں گے‘ مگر ایک بات تو طے ہے کہ شہباز ماڈل فردِ واحد کی پرستش میں کھڑے وزراء و بیورو کریٹ کے ایک ایسے دربار کا نام ہے‘ جہاں غلامی کا تقاضا حاکم کے ہر ظلم پر لبیک کہنا اور باطل کے ہر فیصلے پر سربسجود ہو کر کورنش بجا لانا ہے۔
دوسری طرف شریف فیملی کے دوسرے سپوت میاں نواز شریف ہیں۔ آپ نے وزارت عظمیٰ سے فارغ ہونے کے بعد اپنے دورِ فراغت کیلئے ایک نیا شغل سوچ لیا ہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد لوگ مختلف قسم کے کام کر کے اپنا دل بہلاتے ہیں‘ کوئی کتاب لکھنے میں مصروف ہو جاتا ہے تو کوئی باغبانی میں۔مگر نواز شریف اپنے فارغ ایام میں ایک بھرپور عدلیہ مخالف تحریک چلائیں گے۔ ملکی عدالتوں کے خلاف تحریک چلانے کا خیال آج سے پہلے شاید کسی شخص کو نہ آیا ہو۔ یہ ایجاد اور یہ کرشمہ سازی جناب نواز شریف صاحب کے ذہن کی ہی پیداوار ہے۔ عدالتوں پردشنام طرازی کی جو عالیشان مثال آپ قائم کر رہے ہیں اس کا اعزاز آج سے پہلے کسی کو حاصل نہ ہوا۔
ایک وقت تھا کہ اس ملک میں مولوی مشتاق حسین کے کالے عدل کا راج تھا‘ پھر جسٹس نسیم حسن شاہ کی چمکدار عدالت وجود میں آئی اور انتہا تو تب ہوئی جب افتخار چوہدری جیسے قانون دانوں نے عدل کو فردِ واحد کے تابع کر دیا‘ نواز شریف صاحب نظریاتی طور پر مولوی مشتاق صاحب کے ساتھ کھڑے تھے کہ بھٹو کی پھانسی پر یقینا آپ بھی شادیانے بجا رہے تھے۔
عدالتی ایوانوں کو بریف کیسوں اور چمک سے آشنا کرانے میں آپ کی ذہانت کا دخل تھا؛ تاہم سادہ ذہنوں کو اس بات کا تعجب تو ضرور ہوا ہوگا کہ پردیس بیٹھ کر میاں صاحب نے جس شخص کی بحالی کی موومنٹ چلائی یہ وہی جج تھا جس نے فیصلے میں یہ لکھ کر یہ اعلان کیا تھا کہ نواز شریف کی حکومت ایک غاصبانہ حکومت تھی اور مزید یہ کہ ایسی حکومت کو ایک باوردی جرنیل نے بالکل جائز بنیاد پر گرایا! مگر حیرانی کے یہ بادل چھٹ جائیں گے ‘جب آپ کو معلوم ہوگا کہ افتخار چوہدری کی بحالی دراصل من پسند منصف کی بحالی تھی کہ اگر امپائر آپ کی جیب میں ہو تو پھر حکمران سیاہ اور سفید کا مالک ہوتا ہے۔ یقینا آج کی عدلیہ میاں صاحب کی جیب میں فٹ نہیں‘ عدلیہ کو اتنا ہی باوقار اور اتنا ہی قدرآور ہونا چاہئے۔
اہم بات یہ ہے کہ عدلیہ مخالف تحریک اگر سڑکوں پر آ گئی تو پھر فوج کو آنا ہی پڑے گا! پھر فوج آ کر کیا کرتی ہے کیا نہیں کرتی‘ یہ الگ بات ہے‘ معاملہ البتہ سیاست دانوں کے ہاتھ سے نکل جائے گا! معاملہ تو خیر آگے بھی ان ہاتھوں میں نہیں کہ جس حکومت نے چالیس لوگوں کا حق مار کے میرٹ کی دھجیاں اڑا کے 33 لاکھ روپے ماہانہ پیکیج پر ایک نااہل چیئرمین پیمرا منتخب کیا‘ اس حکومت کی کیا عزت اور کیا اخلاقی ساخت ہوگی؟ اگرچہ میاں شہباز شریف اور میاں نواز شریف سگے بھائی ہیں‘ مگر اقتدار کی فاختہ شاید خون کے رشتوں سے زیادہ محبوب ہوتی ہے‘ وگرنہ بڑے بھائی چھوٹے بھائی کی امیدواری کا اعلان اتنی مشکل سے نہ کرتے۔
مگر اگلے الیکشن میں شہباز شریف کا مقابلہ عمران خان سے بھی بہت پہلے اپنے بڑے بھائی اور ان کے نظریات سے ہے کہ سڑکوں پر مارچ کرتا عدلیہ مخالف مارچ جب عمران خان کے عدلیہ محافظ مارچ سے ٹکرائے گا تو ہنگامہ تو ہوگا‘ خون بھی بہے گا مگر اس طوفان بدتمیزی کے بعد ایک ''سکوت‘‘ طاری ہو جائے گا۔ اس ملک کو ہمارے شہکار سیاستدانوں کے ہاتھوں میں چھوڑنا بھی تو کوئی عقل مندی کی بات نہیں اس لیے سکوت طویل سے طویل تر بھی ہو سکتا ہے۔ خاموشی کی بھی اپنی ہی اک زبان ہوتی ہے!
99ء کی طرح ان ''خاموش لمحوں‘‘ کو واپس لانے میں ایک ہی سوچ اور ایک ہی نظریہ بھرپور محنت اور لگن سے کام کر رہا ہے۔
نظریۂ نواز شریف! آپ پورے نظام کو گرانے کا عزم صمیم رکھتے ہیں۔
اقوام عالم کو شہباز ماڈل کے سحر میں گرفتار کرنے کا عزم رکھنے والے شہباز شریف جان لیں کہ پاکستان کی تاریخ میں ''خاموشی‘‘ کے یہ لمحے سیاستدانوں کی شوخیوں اور شعبدہ بازیوں سے زیادہ طویل عرصے تک پھیلے ہوئے ہیں!

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں