"KSC" (space) message & send to 7575

نظریۂ نواز شریف!!

زاہد حامد جیسوںکو استعفیٰ دینا ہی تھا۔ فیض آباد دھرنے سے بھی بہت پہلے دے دینا چاہئے تھا۔ پرویز مشرف کے ساتھ مل کر ججوں کی نظربندی کے مبینہ ماسٹر مائنڈ زاہد حامد اخلاقی اور قانونی دونوں لحاظ سے آرٹیکل 6کی زد میں آتے ہیں۔ موصوف کو ہتھکڑی لگا کر جیل میں پھینکنے کی بجائے نظریۂ نواز شریف نے اقتدار کے قانونی منصب پر بٹھا دیا۔ ذرا سوچئے جب نظریۂ نواز شریف ملک کی اخلاقی سرحدوں کا محافظ بنے گا تو عوام کتنی چین کی نیند سوپائے گی؟
آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے پر کوئی تفتیش نہیں ہوگی۔ منی لانڈرنگ کرنے پر کوئی قدغن نہیں ہوگی۔ ایک بار کالا دھن بنا لیا تو بنا لیا‘پھر عوام تو کیا عدالتوں کی جرأت نہیں ہوگی کہ جواب طلبی کر سکیں۔ گلی گلی‘ نگر نگر‘ شہر شہر‘ ہر طرف صرف پنجاب پولیس ہوگی جس کا اولین فرض حکمرانوںکے جانوروں تک کی مالش کرنا ہوگا۔ مسلم لیگ ن کے نزدیک نظریۂ نواز شریف ہی ذہنوں میں انقلاب برپا کر دے گا۔ کیا ہوا جو ملک کے سب سے بڑے صوبے کے کروڑوں بچے تعلیم سے باہر ہیں۔ کیا ہوا کہ لاہور کی خوبصورت ترین سڑکیں مریضوں کیلئے ہسپتالوں کا کام دیتی ہیں۔ قصور اب شہباز شریف کا بھی نہیں‘ ہسپتالوں میں مریضوں کی ڈیمانڈ ہی اتنی ہے کہ ایک بستر پر چار چار لٹانے پڑتے ہیں‘ اس کے باوجود ڈیمانڈ ختم نہیں ہوتی تو پھر آخری صورت میں مریض سڑک پر جا کر ہی دم توڑتا ہے۔ نظریۂ نواز شریف ایک ''یک رکنی آرمی‘‘ ہے جو دشمن کی صفوں کو چیر دیتا ہے۔ یہ اور بات ہے کہ اس نے اپنا دشمن ملک کے معتبر اداروں (جیسے کہ عدلیہ اور فوج) کو بنایا ہے نہ کہ انڈیا وغیرہ وغیرہ۔
مقناطیس جیسی کشش ہے آپ کی ذات میں کہ خواہ آندھی آئے یا طوفان ساری کی ساری ن لیگ آپ کے ساتھ ہے۔ لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ساری قوم ن لیگ نہیں ہے۔ سرحد پر بیٹھا فوجی جس کا تعلق شاید کسی سیاسی جماعت سے نہ ہو‘ وہ سوچتاتو ہوگا کہ اپنی جان تک قربان کرنے کی آرزو لیے وہ جس ملک کی حفاظت کر رہا ہے‘ اس ملک کی نظریاتی اساس نظریات کے نام پر گھٹنوں گھٹنوں کرپشن میں دھنسی ہوئی ہے۔ ایک عام فرد کا پورا کنبہ چاہے فوجی ہو یا سول‘ پس رہا ہے مگر نظریۂ نواز شریف کہتا ہے کہ اگر اقتدار میں رہ کر ''میں نے اپنے ذاتی اثاثوں میں اضافہ کیا تو پھر کیا ہوا‘‘ تم عوام اور عدلیہ کون ہوتے ہو مجھ سے حساب لینے والے۔
انصاف کے پیمانوں کو بھی طاقت کی ضرورت ہوتی ہے ورنہ پلڑے اوپر نیچے ہو جائیں گے۔ شاہد خاقان کی حکومت اخلاقی‘ نہ ہی سیاسی وژن رکھتی ہے۔ بے وقعت‘ بے وزن اور بے توقیر پارلیمان کے متعلق چیئرمین سینیٹ رضا ربانی کے یہ الفاظ انتہائی دلچسپ ہیں:۔
''آپ نے ستائیس گھنٹے کیلئے سارے کا سارا میڈیا بند کر دیا‘ انتہائی نازک صورتحال تھی اس کے باوجود آپ نے پارلیمنٹ کو کچھ بتانا گوارا نہ کیا‘ بات یہ ہے کہ یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ آپ کے وزیر قانون کو مستعفی ہونا پڑا اور متعلقہ وزیر نے آ کر پارلیمنٹ کو جواب تک دینا گوارا نہیں کیا۔ وزیراعظم اسی دن ملک سے باہر چلے گئے‘ کیا ریاض میں ہونے والا اجلاس زیادہ ضروری تھا یا جو ملک میں ہوا وہ زیادہ ضروری تھا۔
اب آپ مجھے اس نہج پر جانے پر مجبور کر رہے ہیں جہاں میں خاص طور پر آج نہیں جانا چاہ رہا کیونکہ میں جانتا ہوں کہ حکومت پہلے ہی پسپا ہو چکی ہے۔ لیکن پارلیمنٹ جو کہ آپ کی طاقت بن سکتی ہے آپ اس کو خاطر میں نہیں لا رہے‘‘ اس صورت حال سے دوچار پاکستان‘ فوج کے رحم و کرم پر ہے کہ اگر باوردی لوگ نہ آئیں تو سیلاب میں شہروں کے شہر بہہ جائیں گے اور دھرنوں میں حکومت۔
ایک میجر جنرل کا سیاسی معاہدے پر وزیر داخلہ کے ساتھ دستخط کسی طاقتور فوجی کے شوق کی تسکین نہیں۔ یہ محض سیاسی قحط الرجال کی دلیل ہے‘ ن لیگ کی حکومت کے اندازو اطوار اقوام کو پستی کی طرف مسلسل مائل رکھتے ہیں مگر طاقت کا خلا جب بھی پیدا ہوگا‘ اسے پورا کرنے کیلئے کوئی طاقتور ہی آئے گا۔ ماضی ابھی اتنا بھی دور نہیں کہ نظر دیکھ نہ سکے کہ مغلیہ سلطنت کے وہ طاقتور مینار جو محمد شاہ رنگیلا کے پاس آئے تو صرف مینار نہیں‘ سلطنت مغلیہ کا سارے کا سارا تاج محل ہی نیست ونابود ہو گیا۔
فیض آباد دھرنا ختم ہو گیا مگر وزارت داخلہ میں ابھی بھی ایک انکوائری چل رہی ہے۔ عام طور پہ بچوں کو ساتویں آٹھویں کلاس میں یہ سکھا دیا جاتا ہے کہ درخواست کیسے لکھنی ہے لیکن یہ امتیاز نواز شریف صاحب کی فہم و فراست کے تلے چلنے والی عباسی حکومت کو ہی حاصل ہے کہ جب فوج سے مدد کی درخواست کی تو سرکاری خط میں اتنے پیوند تھے کہ ان کو ٹھیک کرنے میں ہی فوج کو کئی گھنٹے لگ گئے۔
آرمی چیف سے مدد کی درخواست کی جا رہی ہے مگر ساتھ ہی ٹرپل بریگیڈ کے کمانڈر کو بھی دھرنا ختم کرنے کیلئے مدعو کر لیا گیا۔
سرکاری درخواست میں یہ تاثر دیا گیا کہ فوج ہر صورت میں ایکشن کر کے دھرنا ختم کرائے‘ اگر ایسا ہو جاتا تو ن لیگ کے بُنے ہوئے سیاسی جال میں فوج بری طرح پھنس جاتی۔
جنرل باجوہ نے وزیراعظم کو یہ مشورہ دیا کہ طاقت کا استعمال کسی بھی لحاظ سے جائز نہیں۔ قوم پاک فوج سے محبت کرتی ہے لہٰذا حکومت فوج کو کسی ایسی آزمائش میں نہ ڈالے جس سے پاک فوج اور عوام کے درمیان محبت اور اعتماد کے رشتے کو ٹھیس پہنچے۔ یہ بڑا حیران کن مرحلہ ہے کہ عوامی پارلیمان کے نمائندوں سے فوج کا ایک جنرل عوام کے جان ومال کو لے کر مکالمہ کر رہا ہے۔ فکر کا مقام ہے کہ عوام کو اپنی حکومت کے تشدد سے بچنے کیلئے باوردی فوجی جرنیل کی طرف دیکھنا پڑتا ہے۔ جو بات ہمارے لئے حیران کن نہیں‘ وہ نواز شریف حکومت کا دو روز کیلئے اظہار رائے کی آزادانہ نشریات کو روکنا تھا۔ جو لوگ پاکستان میں جمہوریت کی سیاست سے واقف ہیں وہ بخوبی جانتے ہیں کہ محترمہ بے نظیر بھٹو ہوں یا محترم نواز شریف جب بات جمہور کی اظہار رائے کی آزادی کی آئے‘ دونوں کا جمہوری دماغ صرف ایک ہی نکتے پر آ کر متحد ہوتا رہاہے۔
پی ٹی وی نیوز... یہ ادارہ چلتا عوام کے مال سے ہے‘ مگر فرائض انجام دیتا ہے سرکاری لائوڈ سپیکر بن کے۔
بنا ہے‘ سرکار کا مصاحب پھرے ہے اتراتا
وگرنہ شہر میں ''پی ٹی وی نیوز‘‘ کی آبرو کیا ہے
یقینا جھوٹ کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ اگر یقین نہ آتا ہوتو سرکاری ٹی وی کھول لیں‘ کچھ جگہوں پر تو آپ کو یہ حد بھی حد پار کرتی ہوئی نظر آئے گی۔
ہمارے ملک کا ایک الگ جمہوری مزاج ہے‘ یہاں عوام نقل کر کے پاس ہونے والے ایم این اے کو نااہلیت کے تین ماہ کے اندر اندر دوبارہ منتخب کر لیتے ہیں۔
جمہوریت کی اس باس زدہ دلدل میں سے گلاب کے پھول توخیر نہیں نکل سکتے۔ ہاں البتہ کرپشن میں اَٹے ہر سائز کے نظریات ضرور ملیں گے۔ جس کے تن کو جو بھی موافق آتا ہے‘ وہ اسے ہی غنیمت جان کر پہن لیتا ہے اور پھر جمہوری انداز میں کرپشن کی ایک نئی داستان رقم کرتا ہے۔ پاکستانی میڈیا وردی والوں کا شائد اس لئے بھی شکرگزار ہو کہ ایک آرمی چیف آیا‘ اس نے جمہوریت کے منہ میں ہاتھ ڈال کر آزاد میڈیا کا تحفہ پاکستان کو دیا۔ ابھی کچھ روز پہلے جنرل باجوہ نے نظریۂ نواز شریف کو رد کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر پاکستان میں آزادیٔ اظہارِ رائے کے سب سے بڑے میڈیا پر لگی سرکاری پابندی کو ہٹوا دیا۔ دو دن بعد نشریات بحال ہوئیں۔ اندھیرا چھٹا‘ تو دنیا نے دیکھا کہ حکومت نام کی کوئی چیز پاکستان میں اپنا وجود نہیں رکھتی۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں