"RTC" (space) message & send to 7575

ایس ایم ظفر، دی ٹربل شوٹر

جناب ایس ایم ظفر کی کال تھی۔ وہ پوچھ رہے تھے، کیا میں اگلے روز صبح گیارہ بجے اُن کے دفتر میں، ان کے ساتھ چائے کا ایک کپ پی سکتا ہوں؟ بزرگ قانون دان سے ون ٹو ون ملاقات کو ایک عرصہ بیت گیا تھا۔ یاد آیا، برسوں پہلے ان کا دفتر مال روڈ پر شاہ دین بلڈنگ سے متصل عمارت میں تھا۔ ضیاالحق کے مارشل لا میں یہ ہماری (پولیٹیکل) رپورٹنگ کے ابتدائی ماہ و سال تھے۔ ظفر صاحب ہمیشہ میڈیا فرینڈلی رہے ہیں۔ ہم نے جب بھی ملاقات کے لیے کال کی، انہوں نے وقت دینے میں بخل یا تاخیر سے کام نہ لیا۔ عموماً اشرف ممتاز بھی ساتھ ہوتے۔ تب ہم ''رپورٹروں کی جوڑی‘‘ مشہور تھے۔ ظفر صاحب کبھی لنچ کے اوقات میں بلا لیتے۔ کھانا سادہ ہوتا‘ لیکن اس کا اپنا ذائقہ اور اپنی خوشبو ہوتی۔ ظفر صاحب بتاتے، انہوں نے گاؤں میں اپنی زرعی زمین میں سے ایک، دو ایکڑ اپنے لیے مخصوص کر رکھے ہیں۔ گندم سمیت، جہاں مختلف اشیائے خور و نوش کی کاشت کھاد کے بغیر ہوتی ہے۔ ان کے خیال میں عمر کے اس حصے میں بھی ان کی قابلِ رشک صحت کا ایک راز، ان کی یہ پرہیزی خوراک بھی تھی۔ تب وہ پیر صاحب پگاڑا کی مسلم لیگ کے جنرل سیکرٹری بھی ہوتے تھے۔ سیاست پر گفتگو میں وہ فوجی ڈکٹیٹرشپ سے نجات کے لیے ڈکٹیٹر سے تصادم کی بجائے حکمت، مفاہمت اور مصالحت ہی کو کارگر سمجھتے۔ پھر ہم جدہ چلے گئے اور وہ فیروزپور روڈ پر جامعہ اشرفیہ کے نزدیک، نہر کنارے منتقل ہو گئے۔ چُھٹی پر پاکستان آنا ہوتا، تو اِن کے ہاں بھی حاضری ہوتی۔ پرویز مشرف کے ''مارشل لا‘‘ میں، انہوں نے ڈکٹیٹر کی تخلیق ''قاف لیگ‘‘ میں شمولیت اختیار کی تو ہمیں صدمہ ہوا۔
86 سالہ بزرگ قانون دان اور سینئر سیاستدان کو گزشتہ دنوں فلو کے زبردست حملے نے آلیا۔ (وہ اسے ''لاہور فلو‘‘ کا نام دیتے ہیں) وہ اپنی ہیومن رائٹس سوسائٹی کے سالانہ ایوارڈز کی تقریب میں، وہیل چیئر پر آئے۔ ہاتھ پر ڈرپ لگی ہوئی تھی۔ دیر تک بیٹھنا محال تھا چنانچہ تقریب کے آغاز ہی میں خطاب کی ٹھانی، درمیان ہی میں کھانسی کا ایسا دورہ پڑا کہ اپنی بات مکمل کئے بغیر روانہ ہو گئے۔ 
طبیعت کچھ سنبھلی تو مطالعہ کے لیے ہمارا 2 فروری کا کالم بھی ہاتھ لگا‘ جس میں ان کی ہیومن رائٹس سوسائٹی کی تقریب کا احوال تھا۔ کچھ سطور میں ان کے طویل سیاسی کیریئر کے بارے میں منفی ریمارکس بھی تھے ''کیا دلچسپ اتفاق تھا کہ فیلڈ مارشل ایوب خان کے رفیق کار کی حیثیت سے سیاست کا آغاز کرنے والے ممتاز ماہر قانون نے 34 سال بعد اپنی سیاست کے لیے پھر ایک ڈکٹیٹر کی تخلیق (قاف لیگ) کا انتخاب کیا‘‘۔ 
اب اگلے روز چائے پر ملاقات کا ''حکم ‘‘ دیتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ وہ میرا یہ کالم پڑھ چکے ہیں۔ اگلے روز حاضر ہوا تو ان کے رویے میں، ان کے لب و لہجے میں تلخی یا شکایت کا شائبہ تک نہ تھا۔ وہی برسوں پہلے والی شفقت۔ ان کی دلچسپ گفتگو کے بین السطور میں، میرے کالم کے متذکرہ بالا ریمارکس کی وضاحت تھی۔ وہ کہہ رہے تھے، میری وکالت چل نکلی تھی، میں نے اپنا آفس دوبارہ اسٹیبلش کر لیا تھا۔ اچھا سا گھر بھی بنا لیا تھا۔ 1964ء میں ایوب خان نے جماعتِ اسلامی کو خلافِ قانون قرار دے کر، مولانا مودودی سمیت اس کی ساری لیڈرشپ کو گرفتار کر لیا تو سپریم کورٹ میں اس کا مقدمہ لڑنے والے پینل میں، جواں سال ایس ایم ظفر بھی شامل تھے۔ (جماعتِ اسلامی یہ مقدمہ جیت گئی تھی)۔ ظفر صاحب بتا رہے تھے، یہ 1965ء تھا، میری عمر 35 سال تھی، جب مجھے ایوب خاں کی کابینہ میں وزارتِ قانون کی پیشکش ہوئی (اس میں گورنر مغربی پاکستان نواب آف کالاباغ کی سفارش کارفرما تھی) تب مارشل لا کو ختم ہوئے تین سال ہو چکے تھے، ایوب خان اپنی سیاسی جماعت (مسلم لیگ کنونشن ) بنا چکے تھے۔ جنوری 1965ء میں صدارتی انتخاب ہو چکا تھا اور اب فیلڈ مارشل صاحب، منتخب صدر تھے (اس الیکشن میں مادرِ ملت کی شکست کے لیے دھونس دھاندلی کے کیا کیا حربے اختیار کئے گئے؟ ہم نے یہ بحث نہ چھیڑی، یہاں ظفر صاحب یہ ''دلیل‘‘ لا سکتے تھے کہ یہ سب کچھ وزارت میں ان کی شمولیت سے پہلے کی بات تھی)۔ 
1968ء کے اواخر میں شروع ہونے والے سیاسی بحران کے حوالے سے (جو 25 مارچ 1969ء کو یحییٰ خاں کے مارشل لا پر منتج ہوا) جناب ظفر درونِ خانہ کئی واقعات کے عینی شاہد ہیں۔ ایوب خان نے اپوزیشن کو مذاکرات کی میز پر لانے کے لیے، آئندہ صدارتی انتخاب سے دستبرداری کا اعلان کر دیا تو اس سے فوج، بیوروکریسی اور خود اپنی کنونشن لیگ میں ان کی پوزیشن کمزور ہو گئی۔ ایوب خان نے گول میز کانفرنس میں دونوں بنیادی مطالبات مان لئے تھے (1) صدارتی نظام کی بجائے وفاقی پارلیمانی نظام اور (2) بالغ رائے دہی کی بنیاد پر براہِ راست انتخاب لیکن گول میز کانفرنس کامیاب ہو کر بھی ''ناکام‘‘ کیوں ہو گئی؟ 
مغربی پاکستان میں بھٹو صاحب کے بائیکاٹ نے کیا کیا فتنے اُٹھائے؟ مشرقی پاکستان میں بھاشانی کی گھیراؤ جلاؤ مہم نے حالات و واقعات کو کس طرح آتش بداماں بنا دیا۔ جنرل یحییٰ خان کی سازشیں اور فیلڈ مارشل کی بے بسی، یہ سب کچھ پاکستان کی سیاسی تاریخ کا المناک باب تھا۔ دسمبر1971ء میں ملک ٹوٹ گیا، اِدھر ''نئے پاکستان‘‘ میں اب بھٹو صاحب سیاہ وسفید کے مالک تھے۔ بھٹو کی طرف سے شمولیت کی پیشکش کو ظفر صاحب ٹال گئے۔ اب وہ اپنی تمام تر توجہ اپنی وکالت پر مرکوز کر چکے تھے۔ بھٹو صاحب کے خلاف آرمی اور ایئرفورس کے بعض افسروں کی بغاوت کیس کی سماعت کرنے والے اٹک ٹربیونل کی سربراہی بھٹو نے ضیاالحق کو سونپی، ایس ایم ظفر ملزموں کے وکیل تھے، اسی دوران ضیاالحق کے ساتھ ان کے ذاتی تعلقات بھی قائم ہو گئے۔ 
جنرل ضیاالحق نے مارشل لا کے دوران ایک مرحلے پر ظفر صاحب کو وزارت کی پیشکش کی تو انہوں نے نہ صرف معذرت کر لی بلکہ یہ خبر اخبارات کو بھی جاری کر دی (جس پر ضیاالحق کی ناراضی ''فطری‘‘ تھی)۔ پرویز مشرف دور میں قاف لیگ میں شمولیت کے حوالے سے ظفر صاحب کا مؤقف تھا کہ ''ڈکٹیٹر کی جماعت‘‘ میں یہ شمولیت انہوں نے اس وقت کی جب 12 اکتوبر 2002ء کا الیکشن ہو چکا تھا، ملک میں نئے جمہوری سفر کا آغاز ہو رہا تھا اور یہ بھی کہ انہوں نے یہ شمولیت مشرف کی خواہش پر نہیں بلکہ میاں اظہر (قاف لیگ کے پہلے صدر) اور چودھری برادران کے اصرار پر کی تھی۔ 
اس سے پہلے جنرل مشرف کے ساتھ ہونے والی ملاقاتوں میں، وہ فوجی سربراہوں کی شمولیت والی نیشنل سکیورٹی کونسل کے قیام کی مخالفت کرتے رہے تھے۔ وہ ایل ایف او کو آئین کا حصہ بنانے کے لیے پارلیمنٹ کی منظوری کو بھی لازمی قرار دے رہے تھے۔ وہ حکومت اور اسمبلیوں کی برطرفی والے صدارتی اختیار (58/2B) کی غیر مشروط بحالی کے حق میں بھی نہیں تھے (اس کے لیے ان کے پاس متبادل تجاویز تھیں) چنانچہ قاف لیگ میں شمولیت کے بعد، ان کے لیے 
سینیٹ کے ٹکٹ کا حصول شیر کے منہ سے گوشت کا ٹکڑا نکالنے کے مترادف تھا۔ یہاں چودھری شجاعت کی عملی فراست کام آئی۔ ایم ایم اے کے ساتھ 17ویں ترمیم پر معاہدے کے حوالے سے ظفر صاحب کا کہنا تھا، 58/2B کی بحالی اس ترمیم کے ساتھ منظور ہوئی کہ حکومت کی برطرفی کے بعد 15 دِن کے اندر، خود صدر کی طرف سے ریفرنس پیش کیا جائے گا جس پر سپریم کورٹ 30 دِن کے اندر فیصلہ دینے کی پابند ہو گی اور یہ فیصلہ حتمی ہو گا۔ ایل ایف او کی آئین میں شمولیت کو بھی پارلیمنٹ کی منظوری سے مشروط کیا گیا‘ جبکہ وردی اتارنے کے حوالے سے طے پایا کہ اس وعدے کو آئینی تحفظ دینے کی بجائے مشرف اپنے خطاب میں قوم کے ساتھ یہ وعدہ کریں گے کہ وہ 31دسمبر 2004ء تک وردی اتار دیں گے۔ مشرف اس وعدے سے منحرف ہو گئے تو ایس ایم ظفر اس کے خلاف ایم ایم اے کے ہم نوا تھے۔ تقریباً ڈیڑھ گھنٹے پر محیط اس ملاقات میں ظفر صاحب کا مقصد ہمیں اس فلسفے کا قائل کرنا تھا کہ مارشل لا شیر کی سواری ہوتا ہے۔ اس سے اُترنا اور اتارنا، دونوں کام آسان نہیں ہوتے۔ مارشل لا سے جمہوریت کا سفر بہت احتیاط کا تقاضا کرتا ہے۔ اس میں ڈکٹیٹر کو دھمکیاں، اِسے دیوار کی طرف دھکیلنے کے مترادف ہوتی ہیں اور یہ اصلاح کی بجائے فساد کا باعث بنتا ہے۔ یہ ٹرانزیشن کا پیریڈ ہوتا ہے جس میں وہ ''ٹربل میکر‘‘ کی بجائے ''ٹربل شوٹر‘‘ کا کردار ادا کرتے رہے ۔ 
ظفر صاحب اپنا مؤقف بیان کر چکے۔ انہوں نے اس ٹرانزیشن کے دوران مفاہمت، مصلحت، مصالحت کو مفید جانا‘ لیکن وہ بھی تھے جنہوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کیا جس کے بغیر ڈکٹیٹر کو ''جمہوریت‘‘ کا لبادہ اوڑھنے کی ''ضرورت‘‘ (زیادہ صحیح الفاظ میں ''مجبوری‘‘) بھی لاحق نہ ہوتی۔ شعر یاد آیا ؎
کون طاقوں میں رہا، کون سرِ راہگزر
شہر کے سارے چراغوں کو ہوا جانتی ہے

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں