"KMK" (space) message & send to 7575

سبسڈی کی چکربازیاں

دنیا میں ہر جگہ نہ سہی‘ مگر بیشتر ممالک میں زراعت اور کئی ممالک میں لائیو سٹاک کو گھاٹے کا کاروبار تصور کرتے ہوئے اس سے وابستہ لوگوں کو سرکار سبسڈی دیتی ہے تاکہ یہ سلسلہ جاری رہے۔ یورپ کے اکثر ممالک میں سرکار بھیڑیں حتیٰ کہ گھوڑے پالنے والوں کو بھی فی جانور کے حساب سے امدادی رقم دیتی ہے۔ اس کا مقصد صرف اور صرف اپنے ملک کی فوڈ سکیورٹی کو محفوظ رکھنا اور اس سے وابستہ کاشتکاروں اور مویشی پالنے والوں کے اس گھاٹے کے کاروبار کو ان کے لیے اتنا منافع بخش بنانا ہوتا ہے کہ وہ یہ جانور پالتے اور فصلیں اُگاتے رہیں۔ہمارے ہاں بھی گندم کی امدادی قیمت اسی میکانزم کو جاری رکھنے کے لیے لاگو کی جاتی ہے۔ گزشتہ چند سالوں کے دوران کپاس کے رقبے میں غیر معمولی کمی ہوئی اور اس کے نتیجے میں کپاس کی پیداوار میں 60 فیصد سے زیادہ کمی ہوئی‘ جس کے بعد کپاس کے کاشتکاروں کو دوبارہ اس فصل کی طرف مائل کرنے کے لیے گزشتہ سال کپاس کے لیے بھی امدادی قیمت کا فارمولا طے کیا گیا؛ تاہم اس پر بھی حسبِ معمول پوری طرح عمل نہیں ہو سکا۔
صرف گزشتہ سال کپاس ہی پر کیا موقوف‘ عشروں سے گندم کی فصل کے لیے ہر سال امدادی قیمت کا اعلان ہوتا ہے‘ لیکن ہر سال یہ فارمولا خاص لوگوں کے لیے سود مند ثابت ہونے کے علاوہ گندم کے تمام کاشتکاروں اور خاص طور پر چھوٹے کاشتکاروں کے لیے فائدہ مند ثابت نہیں ہوا۔ سرکار کی ہر سبسڈی میں سے حقداروں کو تو شاید ہی کبھی مالی فائدہ پہنچا ہو مگر اس قسم کے فارمولوں سے سرکاری افسروں‘ مل مالکان اور ڈیلروں نے ضرور موج میلہ کیا ہے۔ اس کی سب سے روشن مثال فرٹیلائزر انڈسٹری ہے۔ حکومت یوریا کھاد بنانے والے کارخانوں کو یوریا کھاد کی پیداوار میں استعمال ہونے والے بنیادی خام مال‘ قدرتی گیس کو نہایت ارزاں نرخوں پر سپلائی کرتی ہے اور اس کا بنیادی مقصد صرف یہ ہوتا ہے کہ سستے خام مال سے تیار کردہ کھاد آگے سے کاشتکار کو بھی سستے نرخوں پر دستیاب ہو لیکن اصل میں ہوتا کیا ہے؟ کھاد فیکٹریوں کو قدرتی گیس تو سستے داموں مل جاتی ہے اور اس سے سستی یوریا کھاد بھی تیار ہو جاتی ہے‘ لیکن سستی کھاد یعنی سرکار کے طے کردہ نرخوں پر کھاد کبھی کسان اور کاشتکار کو حقیقت میں ملی ہی نہیں۔ کاغذی کارروائی کی بات اور ہے لیکن جب بھی کسی فصل کی کاشت شروع ہوتی ہے اور خاص طور پر گندم کی کاشت کے لیے ابتدائی طور پر سب سے ضروری یوریا کھاد کی سرکاری نرخ پر فراہمی تو رہی ایک طرف‘ کسان کے لیے کھاد کا حصول ہی خواب ہو جاتا ہے۔ ایک عرصے سے کھاد کی بہت بڑی مقدار کارخانوں سے نکل کر ٹرالروں کے ذریعے سیدھی وسطی ایشیائی ریاستوں تک پہنچ جاتی ہے جس کا نفع تو تگڑے حصہ دار وصول کر لیتے ہیں لیکن مقامی کاشتکار کے حصے میں صرف ذلت و خواری آتی ہے۔ گندم کی فصل کی کاشت کا ایک خاص وقت ہے اور اس میں تاخیر کا مطلب ہے کہ ہر روز فی ایکڑ ایک من تک پیداوار میں کمی کا نقصان برداشت کیا جائے۔ کاشتکار کے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہوتا کہ وہ بلیک میں یوریا کھاد خریدے۔ یعنی جس چیز کو کاشتکار کو سستا فراہم کرنے کے لیے فرٹیلائزر فیکٹریوں کو براہِ راست سبسڈی دیتے ہوئے سستی قدرتی گیس دی جاتی ہے وہ سبسڈی کاشتکار تک پہنچنی تو رہی ایک طرف‘ کاشتکار کو اُلٹا یوریا کھاد بلیک میں لینی پڑتی ہے۔ گزشتہ سال یوریا کھاد کی فراہمی کو کنٹرول ریٹ پر یقینی بنانے کے لیے ضلعی انتظامیہ کو اس کا انچارج بنا دیا گیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ پہلے اس لوٹ مار میں کھاد فیکٹریاں‘ ڈیلر اور کھاد ذخیرہ کرنے والے سرمایہ کار تین حصہ دار تھے‘ اس نئی انٹری کے باعث تین سے بڑھ کر چار ہو گئے۔ گزشتہ سال اس نئے حصے دار کے آنے کے بعد جتنی بدانتظامی اور لوٹ مار دیکھنے میں آئی‘ اس سے پہلے اس کی مثال نہیں ملتی۔
یہی حال گندم کے سرکاری ریٹ کا ہے۔ گندم کی خرید پر مامور سرکاری اداروں کے لیے یہ امدادی قیمت سدا سے مال پانی بنانے کا ذریعہ رہی ہے۔ جب گندم کی فصل اچھی ہو جاتی ہے اور گندم مارکیٹ میں ٹکے ٹوکری ہونے لگتی ہے تو گندم کی خرید پر مامور سرکاری محکموں کے آفیسر اور اہلکار اس سرکاری قیمت کے اصل حقداروں یعنی چھوٹے زمینداروں سے گندم خریدنے کے بجائے سرکاری بار دانہ صرف ان کاشتکاروں اور زمینداروں کو دیتے ہیں جو اُن کو فی بوری کی ادائیگی کرتے ہیں۔ اس سال سندھ میں اڑھائی من گندم کی بوری چھ سے آٹھ سو روپے میں فراہم کی گئی ہے۔ ظاہر ہے جب کاشتکار کو منڈی میں فی من گندم کا ریٹ سرکاری نرخ سے آٹھ سو روپے کم مل رہا ہو تو وہ فوڈ ڈیپارٹمنٹ کو آٹھ سو روپے دے کر اڑھائی من کے لیے باردانہ حاصل کرے تو اس کا نقصان دو ہزار کے بجائے آٹھ سو روپے رہ جاتا ہے۔ وہ فی من آٹھ سو روپے کا گھاٹا برداشت کرنے کے بجائے تین سو بیس روپے فی من گھاٹے کا سودا قبول کر لیتا ہے۔ کاشتکار بھی نقصان کم ہونے پر خوش ہے اور سرکاری محکمے والے بھی خوش ہیں۔ایک عرصے سے یہ سارا معاملہ اسی ‘‘بھائی چارے'' سے طرح چل رہا ہے۔
یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ پاکستان میں زرعی مداخل پر دی جانے والی سرکاری سبسڈی کبھی بھی کاشتکار تک نہیں پہنچی۔ یہ ہمیشہ درمیان میں سرمایہ دار اور سرکاری افسر ہی غتربود کر لیتے ہیں۔ دیہاتی ووٹوں کے حصول اور پارٹی کے جاگیردار لیڈروں کی خوشنودی کی خاطر گندم کا ریٹ بڑھا دیا جاتا ہے‘ جس کا براہِ راست اثر سارے ملک کے عوام پر پڑتا ہے کہ گندم کا آٹا تو سب نے استعمال کرنا ہے۔ اب آٹے کی قیمت کو کم رکھنے کی غرض سے سرکار کاشتکار سے مہنگی گندم لے کر فلور ملز کو سستے نرخوں پر دیتی ہے لیکن اس سرکاری کوٹے والی گندم سے پسائی ہونے والے آٹے میں گھپلوں کے باعث فلور ملز اور فوڈ ڈیپارٹمنٹ کے افسروں کی چاندی ہو جاتی ہے۔ ملتان میں گزشتہ سے پیوستہ سال تو ایسی لوٹ مچی کہ کسی نے ایسی چور بازاری کا کبھی تصور بھی نہیں کیا تھا۔مجھے یاد پڑتا ہے کئی سال قبل سیرت اصغر‘ جو تب سیکرٹری نیشنل فوڈ سکیورٹی اینڈ ریسرچ تھے‘ نے کھاد کی سبسڈی کو ملز مالکان کو براہِ راست دینے کے بجائے اسے ٹوکن کی شکل میں کھاد کی بوری کے اندر رکھنے کی تجویز دی تاکہ کاشتکار اپنی خرید کردہ یوریا کھاد کی بوری کے اندر سے ملنے والے رعایتی ٹوکن کو سرکاری خزانے سے براہِ راست کیش کرا لے مگر یہ تجویز ردی کی ٹوکری کی نذر کردی گئی۔ اب اس سال پنجاب حکومت اپنے محکمہ زراعت کے ذریعے گندم سرکاری نرخ یعنی تین ہزار نو سو روپے فی من خریدنے سے عملی طور پر صاف انکاری ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ پنجاب حکومت اس خریداری سے انکار کر بھی نہیں رہی لیکن خرید بھی نہیں رہی۔اور بھلا خریدے بھی کہاں سے؟ ہم سب لوگ پاور سیکٹر کے گردشی قرضے سے تو خوب آگاہ ہیں اور پی آئی اے‘ سٹیل ملز اور ریلوے کے خساروں سے بھی پوری طرح واقف ہیں لیکن کسی کو معلوم نہیں کہ پنجاب فوڈ ڈیپارٹمنٹ پر مہنگی گندم خرید کر فلور ملز کو سستی فراہم کرنے کے چکر میں پانچ سو ارب روپے سے زیادہ کا گردشی قرضہ ہے جو اَب اس خراب معاشی صورتحال میں اس کے لیے ادا کرنا ممکن نہیں رہا۔ اس لیے مجھے نہیں لگتا کہ سرکار اس سال گندم اپنے طے کردہ نرخوں پر خریدے گی۔ میں تو صرف اطلاع دے رہا ہوں۔ آگے کسی کی مرضی کہ اعتبار کرے یا نہ کرے۔ سرکار کی جانب سے فصلوں اور اجناس کی امدادی قیمت اور زراعت پر دی جانے والی سبسڈی کا فائدہ کم از کم کاشتکار تک تو کبھی نہیں پہنچا۔ گزشتہ کئی عشروں سے سرکاری سبسڈی کو جس ٹیکنیکل چکر بازیوں سے مل بانٹ کر ہضم کیا جارہا ہے وہ اتنی آسانی سے کسی کی سمجھ میں نہیں آ سکتیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں