جنوری کے آخر میں تیمور واپس گیا۔ ایئر پورٹ پر‘ اندر جانے سے پہلے‘ مجھے گلے ملا تو پوچھا ''ابو! آپ کا ویزا کب لگے گا؟‘‘۔
بارہ سالہ تیمور‘ ہر روز‘ پاکستانی وقت کے مطابق‘ تین بجے سہ پہر‘ وڈیو کال کرتا ہے۔ اُس کے ہاں یہ نو بجے رات کا وقت ہوتا ہے۔ سونے سے پہلے کہانی سنتا ہے۔ یہ اس کا معمول ہے۔ پاس ہو تو مجھے اس کے پلنگ پر‘ اس کے ساتھ بیٹھ کر‘ یا نیم دراز ہو کر کہانی سنانا ہوتی ہے۔ پاس نہ ہو تو وڈیو لنک پر! اس کے ساتھ اس کا چھوٹا بھائی سالار بھی کہانی سنتا ہے۔ آسٹریلیا واپس پہنچ کر کچھ دن تک ہر روز پوچھتا رہا کہ ویزے کا کیا بنا؟ ان معاملات میں اتنی جلدی کوئی پیشرفت تو ہوتی نہیں! یہاں سے روتے ہوئے جاتا ہے۔ وہاں سے جب ہم نے واپس آنا ہوتا ہے‘ تو ہماری روانگی سے چند دن پہلے ہی کہنا شروع کر دیتا ہے کہ ایک مہینہ اور رُک جائیے۔ ابھی جنوری میں جب واپس گیا تو اس کے ابا نے بتایا کہ وہ لوگ‘ تالا کھول کر‘ خالی گھر میں داخل ہوئے تو تیمور رو پڑا اور کہنے لگا ''ہمیں پاکستان سے واپس نہیں آنا چاہیے تھا!‘‘
اب تو ما شاء اللہ بارہ سال کا ہے۔ جب چار پانچ سال کا تھا تب بھی دادا دادی کے ساتھ وابستگی کا یہ عالم تھا کہ ہر وقت ساتھ ہوتا۔ ایک بار مذاق سے کہا کہ آپ کی دادی جان کو تنگ کروں گا تو رونا شروع کر دیا۔ رات کو سونے کا وقت ہوتا اور ماں سونے کا کہتی تو آ کر میرے یا دادی کے پیچھے‘ چھپ جاتا۔ اُسی زمانے میں جب وہ چار پانچ سال کا تھا‘ ایک بار مجھے اکیلے میلبورن جانا پڑا۔ پہلی رات اتنا خوش تھا کہ تین بجے تک سویا نہ مجھے سونے دیا۔ بہت سے کھلونے میرے پلنگ پر لے آیا۔ بہت مشکل سے اس کی ماں نے سلایا۔ دوسرے دن میں واک پر جانے لگا تو ساتھ ہو لیا۔ لمبی واک کی۔ گھر واپس چلنے کا کہا تو انکار کر دیا کہ ابھی اور بھی سیر کرنی ہے۔ چلتے چلتے ایک درخت کے ساتھ کھڑا ہو گیا اور کہا ''چیز‘‘۔ مجھے اُس وقت تک نہیں معلوم تھا کہ چیز (Cheese) کا لفظ اس وقت کہتے ہیں جب فوٹو کھنچوانا ہو۔ گھر آ کر بہو کو بتایا تو اس نے یہ نیا سبق پڑھایا کہ چونکہ ''چیز‘‘ کہتے وقت مسکراہٹ ظاہر ہوتی ہے اس لیے فوٹو کھینچنے والا یہ لفظ بولنے کے لیے کہتا ہے۔ گھر کے ساتھ ایک پارک تھا۔ اس میں ایک خوبصورت گزیبو (Gazebo) بنا ہوا تھا۔ یہ تیمور کی پسندیدہ جگہ تھی۔ اسے وہ '' متان‘‘ یعنی مکان‘ کہتا تھا۔ گھنٹوں وہاں کھیلتا اور واپس آنے کا نام نہ لیتا۔ وہاں سے ہٹانے کی ایک ہی ترکیب تھی کہ چلو مال میں چلتے ہیں‘ وہاں چپس کھاتے ہیں اور جوس پیتے ہیں۔ مال میں‘ ایک ریستوران کے سامنے‘ اس کی اور میری مخصوص جگہ تھی۔ میں اپنے لیے کافی منگواتا اور اس کے لیے چپس اور جوس۔ مگر وہاں سے بھی اٹھنے کا نام نہ لیتا۔ میرے پاکستان واپس آنے کے بعد‘ اس کے امی ابو اُسی مال میں اُس کے ساتھ گئے۔ وہ اپنی مخصوص نشست پر بیٹھ گیا اور اپنے ماں باپ کو چپس اور جوس کا آرڈر دیا۔ انہیں نہیں معلوم تھا کہ دادا نے یہ عادت ڈالی ہوئی ہے۔
سکول داخل ہوا تو کلاس میں‘ اس کے علاوہ‘ جنوبی ایشیا سے ایک دو ہی بچے تھے۔ اس کی دوستی ایک بھارت نژاد بچے سے ہو گئی۔ گھر آ کر اس سے فون پر لمبی بات کرتا تو ماں نے منع کیا کہ جب سکول ہر روز مل لیتے ہو تو شام کو پھر لمبی بات کیوں؟ اس نے یہی بات اپنے دوست کو بتائی۔ دوست نے کہا کہ تمہاری اپنی لائف ہے۔ تمہاری ماں کیسے منع کر سکتی ہے۔ اس نے آ کر یہ بات ماں کو بتائی۔ تب اسے سمجھایا گیا کہ پاکستانی بچے ماں باپ کا کہا مانا کرتے ہیں اور یہ ''اپنی لائف‘‘ والی بات غلط ہے۔ بات سمجھ گیا۔ اُن دنوں پوری پاکستانی قوم پر ارطغرل والا ڈرامہ سوار تھا۔ تارکینِ وطن بھی اسی رَو میں بہہ رہے تھے۔ ( میں اُن چند پاکستانیوں میں سے ہوں جنہوں نے یہ ڈرامہ دیکھنے سے انکار کر دیا) تیمور کے گھر پر بھی ارطغرل کا راج تھا۔ اس نے کاغذ سے تلواریں بنائیں۔ چھوٹے بھائی کو بھی شمشیر زنی سکھائی۔ ارطغرل صاحب کوئی انگوٹھی ونگوٹھی بھی پہنتے تھے۔ تیمور نے دادی سے فرمائش کی کہ آسٹریلیا آئیں تو ایسی ہی انگوٹھی اس کے لیے بھی لے کر آئیں۔ دادی نے فرمائش پوری کی۔ شاید اس ڈرامے کا اثر تھا کہ بچوں کے ذہن پر ہتھیاروں کا غلبہ تھا۔ تیمور دوسری جماعت میں تھا۔ بچے ان ملکوں میں اپنی استانیوں سے بے تکلف ہوتے ہیں۔ ایک دن کلاس میں استانی نے کہا کہ سب بچے اپنے اپنے ٹیبلٹ پر فلاں مشق کریں۔ استانی نے دیکھا کہ تیمور کچھ اور ہی کر رہا تھا۔ اس نے منع کیا تو تیمور نے استانی سے کہا: I will make a weapon and will destroy you۔ کہ میں ہتھیار بناکر آپ کو تباہ کر دوں گا۔ استانی نے سمجھایا بجھایا۔ والدین کے ساتھ اگلی (پیرنٹس ٹیچرز) میٹنگ ہوئی تو استانی نے اس کے والدین کو سارا واقعہ بتایا اور یہ بھی کہا کہ اس نے اس معاملے کو خود ہی سلجھا لیا تھا۔ تاہم تیمور کی امی کا کہنا ہے کہ یہ ڈائیلاگ تیمور نے ارطغرل ڈرامے سے نہیں‘ ایک انگلش فلم سے سیکھا تھا۔
اب تیمور چھٹی کلاس میں ہے۔ ابھی تک اس کا یہی مؤقف ہے کہ پاکستان آسٹریلیا سے بہت بہتر ہے۔ وہ پاکستان واپس آکر‘ یہیں رہنا چاہتا ہے۔ اسے پاکستان والا گھر‘ یہاں کے مال‘ دکانیں‘ رشتہ دار‘ سب بہت پسند ہیں۔ اس معاملے میں اس کا باپ بھی اس کا ہمنوا ہے۔ باپ پاکستان کے شنواری اور دوسرے کھانے یاد کرتا ہے‘ مگر پاکستان سے باہر رہنے والے ایسے سب پاکستانی شیر کی سواری کر رہے ہیں اور شیر کی پیٹھ سے نیچے اترنا ممکن نہیں۔ کئی قسم کی آہنی اور سنہری زنجیریں پاؤں میں پڑی ہیں۔ ہم پاکستان میں رہنے والے‘ تارکینِ وطن کے درد ناک دوراہے (Dilemma) کو نہیں سمجھ سکتے۔ جوتا خوبصورت لگتا ہے مگر صرف پہننے والے کو معلوم ہوتا ہے کہ کہاں سے چُبھ رہا ہے۔ ہم‘ میرے سمیت‘ تارکینِ وطن پر طعنہ زن ہوتے ہیں کہ باہر بیٹھ کر پاکستان کی فکر کرنے کی ضرورت نہیں۔ مگر ایسا نہیں ہے۔ ہم غلطی کرتے ہیں! تارکینِ وطن کی پہلی نسل پاکستان کو کبھی بھی نہیں بھول سکتی! اپنی گلیاں‘ اپنی مٹی‘ اپنے شہر‘ قصبے اور قریے‘ اپنے اعزہ اور احباب‘ یہ سب کچھ بھلا دینا ممکن ہی نہیں! وہ بیرونِ ملک رہ کر بھی پاکستان کے غموں اور خوشیوں میں برابر کے شریک ہیں۔ ان کا درد بے کنار ہے۔ وطن کی یاد میں ان کے دل سے جو ہُوک اُٹھتی ہے ہم اس کی شدت سے ناآشنا ہیں! ہاں‘ ان کی اگلی نسل جو وہیں کی جَم پَل ہے‘ اس کی بات دوسری ہے۔ کچھ عرصہ پہلے آرٹس کونسل راولپنڈی میں ایک صاحب کے شعری مجموعے کی تقریب تھی۔ نام یاد نہیں مگر امریکہ یا یورپ میں مقیم تھے۔ تقریب میں موجود ایک صاحب نے ان کی شاعری میں اوزان کی غلطیوں کی طرف اشارہ کیا۔ میری باری آئی تو عرض کیا کہ غلطیاں نکالنے کے بجائے خراجِ تحسین پیش کیجیے کہ مغرب کی مصروف‘ افراتفری والی زندگی میں بھی ان حضرات نے اُردو کی بستیاں بسا رکھی ہیں۔ اُردو میں شاعری کر رہے ہیں۔ وطن کے ساتھ ذہنی رابطہ رکھے ہیں۔ کتاب اپنے ہم وطنوں کو پہنچانے اتنی دور سے آئے ہیں! غلطیوں کی نشاندہی کرنی ہے تو بزم میں نہیں‘ تنہائی میں کیجیے اور شائستگی کے ساتھ کیجیے۔
افتخار عارف کا شعر یاد آ رہا ہے:
تمام خانہ بدوشوں میں مشترک ہے یہ بات
سب اپنے اپنے گھروں کو پلٹ کے دیکھتے ہیں