بلوچستان میں پولیس فورس بہت کم,آخر کیوں ؟
پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ پچھلے پندرہ سالوں سے لڑرہا ہے ، آ پریشن رد الفساددہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بہت اہم ترین مرحلہ ہے ۔
(دنیا کامران خان کے ساتھ ) پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ پچھلے پندرہ سالوں سے لڑرہا ہے ، آ پریشن رد الفساددہشت گردوں کے خلاف جنگ میں بہت اہم ترین مرحلہ ہے ۔جس میں کامیابی کے اثرات پورے پاکستان میں نظر آ رہے ہیں ۔ اکثر شہروں میں اس کے اثرات واضح نظر آ رہے ہیں لیکن بلوچستان میں اس کے اثرات اتنے نظر نہیں آ رہے ۔ پولیس اس میں سب سے زیادہ قربانیاں دے رہی ہے اس کے اہلکاروں نے سب سے زیادہ اپنی جانوں کے نذرانے پیش کیے ہیں اس کی مثال اور کہیں نہیں ملتی ۔گزشتہ مہینے میں 33 پولیس اہلکار شہید ہوئے اس کے پس منظر میں ایک بڑی وجہ موجود ہے جس کا ذکر کسی سیاسی شخصیت نے نہیں کیا ۔ پولیس سروس آف پاکستان میں 119 افسروں کی اسامیاں موجود ہیں جن میں سے صرف 59 افسر موجود ہیں اور 60 افسروں کی کمی ہے ۔ ایڈیشنل آئی جی کی چار اسامیوں پرصرف 2 موجود ہیں ڈی آئی جیز کی 15 اسامیوں میں سے 4 موجود ہیں جب کہ 11 کی کمی ہے ۔ ایس ایس پیز کی 31 اسامیوں میں سے 12 موجود اور 19 کی کمی ہے ۔ ایس پی کی 68 میں سے 40 موجود اور 28 کی کمی ہے ۔ جونیئر افسروں کو ایڈہاک بیس پر رکھا جاتا ہے چار سالوں میں ڈی آئی جی ، اے آئی جی اور ایس پی عہدوں کے چار افسروں سمیت 340 پولیس اہلکار شہید ہو چکے ہیں ۔ ایک خودکش حملہ میں ڈی آئی جی حامد شکیل سمیت 3 اہلکار شہید اور 7 زخمی ہوئے ۔سنٹرل پولیس آفس رپورٹ کے مطابق پولیس افسروں کی موجودہ تعداد پچھلے پانچ سالوں میں سب سے کم ہے پچھلے پانچ سالوں کے دوران پی ایس پی افسروں کو ایک سال کے بجائے ساڑھے تین سال تعینات رہنا پڑا ۔ آئی جی بلوچستان معظم جاہ انصاری کا کہنا ہے کہ پولیس افسروں کی تعیناتی کے بارے میں وفاقی حکومت کو لکھا گیا ہے امید ہے وہاں کام ہو رہا ہو گا یہاں افسروں کی کمی کی وجہ سے موجودہ افسروں کو زیادہ وقت ڈیوٹی دینا پڑتی ہے ہم نے بڑی کامیابیاں بھی حاصل کی ہیں ٹارگٹ کلرز کو گرفتار کیا گیا ۔ ہزارہ میں سو افراد کی ٹارگٹ کلنگ میں ملوث ملزم کو منگل کو گرفتار کیا ہے اسی گینگ نے پولیس افسر کے گھرکو بھی نشانہ بنایا تھا اور بڑی تباہی کا سبب بنا تھا اس کے علاوہ بی ایم سی کو بھی ٹارگٹ کیا تھا جس میں بہت سے طالب علم شہید ہوئے تھے ۔ 34 اضلاع میں 22 ایس پی موجود نہیں ہیں وہاں ڈی ایس پیز کو چارج دیا ہے ۔ کوئٹہ میں ڈی آئی جی کے پاس 14 کے بجائے صرف 8 ڈی ایس پی لگائے گئے ہیں اسی طرح جونیئر افسروں کو چارج دے کر کام چلایا جا رہا ہے ، ہمارے پاس 119 سینئر رینک افسر ہونے چاہئیں جس میں چالیس فیصد کوٹہ بلوچستان کا ہے وہ سارے موجود ہیں جو 45 کے قریب بنتے ہیں ۔ باقی کوٹہ وفاق کا ہے جس کے 73 میں سے صرف 14 موجود ہیں ۔اس سلسلہ میں ایک پالیسی بھی بنی ہے پنجاب اور کے پی کے سے جن افسروں نے ڈیوٹی یہاں آ کر کرنی ہے وہ آنے پر راضی نہیں ہیں ہم نے وفاقی حکومت کو درخواست بھی دے رکھی ہے ۔کوئٹہ میں چار جگہوں پر ہزارہ کمیونٹی نے دھرنا دیا ، ایک دھرنا بلوچستان اسمبلی کے باہر ہے جس کی قیادت صوبائی وزیر کر رہے ہیں ۔ ایک پریس کلب کے باہر ہے ۔ مظاہرین کے ساتھ بات چیت چل رہی ہے امید ہے آج دو یا تین مقامات سے دھرنا ختم ہوجا ئے گا ۔ اس سال کی ابتدا سے اب تک 59 کلنگز ہوئیں جن میں 9 کے قریب ہزارہ کمیونٹی کے لوگ ہیں جب کہ 33 پولیس اہلکار ،4 ایف سی اہلکا ر شامل ہیں ۔ہزارہ متاثرین سے ہمارا نقصان زیادہ ہے ۔ڈائریکشن کوئی بھی آ کر دے کام تو ہمارے افسروں نے ہی کرنا ہے اگر موقع ملتا رہا تو کامیابی بھی ملتی رہے گی ۔ کوئٹہ بارڈر سے ایک گھنٹے کے فاصلہ پر ہے ہمارے پاس خود کش آ رہے ہیں بارڈر کی فینسنگ بھی چل رہی ہے خندقیں بھی کھودی جا رہی ہیں ، ایک ایگل سکواڈ لگانے جا رہے ہیں تمام ایجنسیوں نے اس میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔ سابق آئی جی بلوچستان چودھری یعقوب نے گفتگو کرتے ہوئے کہا سینئر پولیس افسر بلوچستان جانا ہی نہیں چاہتا یہ وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے کہ ان اسامیوں کو پر کرے جب تک تعداد پوری نہیں ہو گی کارکردگی بہتر نہیں ہو گی ایسی صورتحال کے پی کے میں بھی تھی لیکن انہوں نے اسے حل کر لیا حکومت کو سہولیات فراہم کرنا ہوں گی دہشت گرد یہاں پہاڑوں میں پناہ لے لیتے ہیں وہا ں پولیس نہیں جاتی وہ بی ایریا ہیں ایف سی کسی جگہ کارروائی کر بھی لیتی ہے لیویز بھی ان ٹرینڈ ہے افغانستان سے بھی دہشت گرد یہاں آ جاتے ہیں لشکر جھنگوی اب داعش کا حصہ بن گئی ہے وہ ان کے ساتھ مل کے کارروائی کر رہے ہیں ، دہشت گرد بھی اب فون کے بجائے نیٹ استعمال کرتے ہیں ۔