’’عوامیّت‘‘ کی موجِ بلاخیز اور جمہوریت!

امریکی اور یوکرینی صدور‘ ڈونلڈ ٹرمپ اور ولودیمیر زیلنسکی کے درمیان حالیہ مکالمہ چند منٹوں پر مشتمل تھا لیکن اس مکالمے سے شروع ہونے والا ''مکالمہ‘‘ ختم ہونے میں نہیں آ رہا۔ شرکائے نشست کی گفتگو‘ الفاظ اور لب ولہجہ ہی نہیں 'بدن بولی‘ (Body Language) بھی دیدنی تھی۔ یہ اُس عوامیّت (Populism) کا عریاں مظاہرہ تھا جس کی کرشمہ سازیاں اب یورپ‘ امریکہ اور لاطینی امریکہ تک ہی محدود نہیں رہیں‘ ایشیا تک آن پہنچی ہیں۔ کوئی آٹھ دہائیاں قبل ہٹلر کے مشیر گوئبلز کے پاس صرف ریڈیو تھا جس کے ذریعے اُس نے ہٹلر کا ایک مسیحاصفت بت تراشا اور خلقِ خد کو اُس کے سحر میں مبتلا کر دیا۔ آج بھی 'سامری کے بچھڑے‘ تخلیق کرنے کا فن‘ تشہیر کی جدید ترین ٹیکنالوجی کی کوکھ سے پھوٹتا ہے جس نے گوئبلز کے ریڈیو کو صدیوں پیچھے دھکیل دیا ہے۔
یوکرین کے زیلنسکی اور امریکہ کے ٹرمپ کی زندگی میں سب سے بڑی مماثلت یہ ہے کہ دونوں کا تعلق شوبز سے رہا۔ دونوں مختلف ٹی وی شوز‘ ڈراموں اور فلموں کے ذریعے عوام کو تفریح فراہم کرتے رہے۔ ٹرمپ برسوں ایک مقبول ٹی وی ریلیٹی شو کے میزبان اور ایگزیکٹو پروڈیوسر رہے۔ کئی فلموں اور ٹیلی ویژن ڈراموں میں اداکاری کی۔ سیاست میں بڑا نام پانے سے بہت پہلے وہ امریکیوں کی جانی پہچانی‘ مانوس شخصیت بن چکے تھے۔ 2017ء اور اب 2025ء میں انہیں ووٹ دینے والوں کی اچھی خاصی تعداد کو ٹرمپ کے کسی فلسفے‘ وژن‘ نظریے یا منشورِ سیاست سے کوئی تعلق واسطہ نہ تھا۔ یہ ایک اندھا گونگا بہرہ‘ قبیلۂ عشاق تھا جسے 'فین کلب‘ (Fan Club) کہا جاتا ہے۔ زیلنسکی کا پس منظر بھی یہی تھا۔ وہ برسوں شوبز میں ایک قہقہہ بار مسخرے کے طورپر اپنے فن کا مظاہرہ کرتے رہے۔ کم وبیش ایک چوتھائی صدی تک ٹی وی‘ ڈراموں‘ فلموں اور شوبز میں لوگوں کو ہنستے ہنساتے رہے۔ دس بڑی اور کامیاب کامیڈی فلموں میں اداکاری کی۔ زیلنسکی نے اپنے ایک انتہائی مقبول ٹی وی سیریل ''عوام کا خادم‘‘ (Servant of the people) میں ایسے سکول ٹیچر کا کردار ادا کیا جس کے دل میں ملک کا صدر بننے کی آرزو کا کنول کھلا اور پھر وہ سکول ٹیچر اپنی کرتب کاریوں کے بل پر ایک دن واقعی ملک کا صدر بن گیا۔ شاید یہ سیریل کرتے ہوئے زیلنسکی کو اپنی بے پناہ مقبولیت کا اندازہ ہوا اور اُس نے یوکرین کا صدر بننے کی ٹھان لی۔ 2019ء میں جب اُس نے یکایک اعلان کیا کہ وہ صدارتی الیکشن لڑنے جا رہا ہے تو بہت سے لوگوں نے اُسے معروف 'جگت باز‘ کی ایک جگت جانا۔ اُس نے اپنے مقبول ڈرامہ سیریل کے نام پر اپنی سیاسی پارٹی کا نام بھی 'خادمِ عوام‘ (Servant of the People) رکھا۔ یوکرین میں خواندگی کی شرح سو فیصد بتائی جاتی ہے۔ ساڑھے تین کروڑ افراد میں سے ایک بھی ناخواندہ نہیں۔ لیکن جب اُن کے ہونٹوں پرمسکراہٹیں بکھیرنے‘ اُن کے دلوں کو گرمانے اور اُن کی شامیں دھنک رنگ بنانے والا مقبول اداکار‘ سیاست کے میدان میں اُترا تو پڑھے لکھے لوگوں میں سے بہت کم نے سوچا کہ کیا ایک عمر نگار خانوں کی نذر کر دینے والا اداکار سیاست وقیادت کے معیار پر بھی پورا اُترے گا یا نہیں؟ بس ایک لہر سی اٹھی اور یوکرین اس موجِ تند خو میں بہتا چلا گیا۔
زیلنسکی نے ''عظیم تر یوکرین‘‘ کا نعرہ لگایا۔ کرپشن کے خلاف جہاد کا پیغام دیا۔ روس کی بالا دستی کے تناظر میں ''غلامی نامنظور‘‘ اور ''حقیقی آزادی‘‘ کا بیانیہ تراشا۔ سوشل میڈیا کا رنگ جمایا اور 73 فیصد سے زائد ووٹ لے کر یوکرین کا صدر منتخب ہو گیا۔ یہ دنیا میں 'عوامیّت‘ کی ایک اور بڑی فتح تھی۔ مقبول مزاحیہ اداکار نے یوکرین کو کچھ دیا یا نہیں‘ اپنی بے ڈھب پالیسیوں اور غیر سنجیدہ اقدامات سے روس کے ساتھ تنائو کو ہوا دی جس کا نتیجہ فروری 2022ء میں روسی حملے کی صورت میں نکلا۔ تین برس سے یہ جنگ جاری ہے۔ ایک لاکھ کے لگ بھگ افراد اس کا لقمہ تر بن چکے ہیں۔ لاکھوں نقل مکانی کر گئے ہیں۔ لاتعداد بے گھر ہو گئے ہیں۔ اَن گنت معاشی‘ سماجی اور سیاسی مشکلات کا جنگل گھنا ہوتا جا رہا ہے۔ امداد کا امریکی سرچشمہ خشک ہو گیا ہے اور عوامیّت کے بجرے پر سوار اداکار‘ اپنے سے بڑے اور طاقتور‘ شاہسوارِ 'عوامیّت‘ کے حضور بیٹھا تحقیر وتذلیل کے تازیانے کھا رہا ہے۔ ٹرمپ کا مطالبہ ہے کہ ہم نے تمہیں اربوں ڈالر دیے‘ اب تم بدلے میں ہمیں اپنی قیمتی معدنیات کی کانوں تک رسائی دو تاکہ ہم اپنی رقم مع سود مرکب وصول کر سکیں۔ زیلنسکی ہزار پیچ وتاب کھائے‘ اُسے اپنے سے بڑے ''پاپولسٹ‘‘ کے سامنے جھکنا ہوگا۔ تین برس قبل جنگ چھڑی تو زیلنسکی نے سوشل میڈیا پر دھوم مچا دی۔ وڈیو خطابات کی برکھا برسنے لگی۔ رنگا رنگ بیانیے تراشے جانے لگے۔ بیوی بچوں کو کسی نامعلوم مقام پر پہنچا کر خود فوجی وردی پہن لی اور ''ٹک ٹاک‘‘ کا نمونہ بن گیا۔ اُس کی شہرت 90 فیصد سے آگے نکل گئی لیکن برسرِ زمین حقیقت یہ ہے کہ آج یوکرین جغرافیائی‘ سیاسی اور معاشی حوالے سے وہ نہیں رہا‘ جو چھ برس پہلے تھا۔
2019ء سے اب تک انتخابات نہیں ہوئے۔ مارشل لاء نافذ ہے اور گھر گھر بے یقینی بال بکھیرے ماتم کر رہی ہے۔ اگلے چند دنوں میں چھوٹا 'شعبدہ باز‘ اپنے ملک کی بیش قیمت معدنیات کا خزانہ‘ طشتری میں رکھ کر بڑے 'شعبدہ باز‘ کو پیش کرنے جا رہا ہے۔ بڑا شعبدہ باز‘ امریکہ کو کس حال میں چھوڑ جائے گا؟ اس کیلئے چار سال انتظار کرنا ہوگا۔امریکہ اور یوکرین میں عوامیّت کے مظاہروں نے جہاں تاریخِ عالم کے بہت بڑے عوامی پرستار‘ ہٹلر کی یاد تازہ کر دی ہے وہاں یہ نہایت ہی سنجیدہ سوال بھی اٹھایا ہے کہ اگر ''عوامیّت‘‘ کی لہر پھیلتی چلی گئی اور سیاسی قیادت جمی جمائی‘ پختہ کار اور سنجیدہ جماعتوں کے بجائے ٹیلی ویژن کی سکرینوں‘ فلمی نگار خانوں‘ کھیل کود کے میدانوں اور تماشا گر سرکسوں سے جنم لیتی رہی تو حقیقی جمہوریت پر کیا گزرے گی؟ اور ہتھ چھٹ مسخرے دنیا کو کن خطرات سے دوچار کر دیں گے؟سیاست پر نگاہ رکھنے اور انسانوں کے نظم اجتماعی کے خدوخال تراشنے والے مفکرین کو سوچنا ہو گا کہ کیا ایسی غارت گر ''عوامیّت‘‘ کو لگام ڈالنے کا کوئی طریقہ ہے یا نہیں جو حقیقت سے بعید‘ جھوٹ پر مبنی اور جذبات انگیز نعروں سے تلاطم اُٹھاتی‘ اور ہر شعبہ زندگی کو زوال‘ انحطاط اور تباہی سے ہم کنار کر کے ایک دن ہٹلر کی طرح‘ کسی تہہ خانے میں خود کشی کر لیتی ہے۔ خودکشی تو کر لیتی ہے لیکن ساری دنیا میں جنگ کا الائو بھڑکا کر انسانیت کو سیلِ خوں کی نذر کر دیتی اور خود اپنے ملک کو کھنڈر بنا جاتی ہے۔
''عوامیّت‘‘ کا زہر تہذیبی اقدار‘ سماجی رویوں‘ مسلّمہ اخلاقیات اور معاشرتی آداب و روایات کی رگوں میں بھی سرطان بو رہا ہے۔ 'عوامیّت‘ کے موضوع پر گرفت رکھنے والے آسٹریلوی پروفیسر‘ بنجمن موفٹ (Benjamin Moffitt) کا کہنا ہے کہ
"There are other traits associated with the typical populist leader. One is "Bad Manners" or behaving in a way that is not typical of a politician."
''معروف معنوں میں 'عوامیّت‘ زدہ لیڈر سے کچھ اور خصوصیات بھی جڑی ہوتی ہیں‘ ان میں سے ایک ہے ''بُرے آداب واطوار‘‘ (Bad Manners) یا پھر ایسا طرزِ عمل اختیار کرنا جو ایک سیاستدان کے طرزِ عمل کے منافی ہو‘‘۔ ''بُرے آداب واطوار‘‘ کھوکھلے نعروں اور بے سروپا بیانیوں میں گندھی ''عوامیّت‘‘ کا ایک تلخ تجربہ ہمارے ہاں بھی ہوا ہے جس کے اثرات ونتائج‘ جانے کب تک ہماری سیاست‘ معیشت‘ اخلاقیات‘ تہذیبی رویوں اور جمہوری اقدار کو متاعِ کوچہ وبازار بنائے رکھیں گے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں