’’سیاسی عدمِ استحکام‘‘ کا تصوراتی بیانیہ!

اپریل 2022ء سے اب تک‘ پی ٹی آئی کی سرتوڑ کوششوں کے باوجود پاکستان کسی سیاسی بحران کا شکار ہوا نہ روایتی عدمِ استحکام کا کوئی ایسا بھونچال آیا کہ درو دیوار لرز اٹھتے اور نظمِ حکومت کو سنبھالے رکھنا مشکل ہو جاتا۔ البتہ پی ٹی آئی کی اپنی کشتی برمودا تکون کے خونیں جبڑوں تک آن پہنچی ہے۔ چوبی تختے چرچرا رہے ہیں‘ بادبان دھجیاں ہو رہے ہیں‘ کشتی کو سنبھالا دینے کے بجائے مسافر ایک دوسرے کو سمندر میں دھکیل رہے ہیں اور شام گہری ہو رہی ہے۔
عمران خان نے 'عدمِ اعتماد‘ کے ذریعے اقتدار بدر ہونے سے پہلے ہی سائفر کا ناقوس بجایا۔ اسے پاکستانی جرنیلوں اور امریکیوں کی سازش کا نام دیا۔ ہمدردی کی انقلاب آفریں عوامی لہر اُٹھانے کی کوشش کی۔ کوئی حربہ کارگر نہ ہوا۔ یہاں تک کہ صرف دو ووٹوں کی اکثریت سے قائم پی ڈی ایم حکومت کو بھی دھکا نہ دیا جا سکا۔ فوج کے اندر بغاوت بپا کرنے کی منصوبہ بندی کی۔ اڑھائی سو سے زائد عسکری تنصیبات پر حملے کیے۔ شہدا کی یادگاروں کو قہر وغضب کا نشانہ بنایا۔ طیارے نذرِ آتش کیے۔ فتنہ پرور سوشل میڈیا کے ذریعے قومی سلامتی کے اداروں کو منہ بھر بھر کے گالیاں دیں۔ ملکی سلامتی کے انتہائی حساس معاملات کو بازیچۂ اطفال بنا دیا۔ اپنے عشق میں ہلکان عدلیہ سے عجوبۂ روزگار فیصلے حاصل کیے لیکن پاکستان کے کسی گوشے میں ایسے بحران یا سیاسی عدمِ استحکام نے انگڑائی نہ لی جو نظمِ اجتماعی کو مفلوج کر دیتا۔
انتخابات کے بعد‘ گزشتہ ایک برس میں بھی پی ٹی آئی مسلسل جتن کرتی رہی کہ ملکی اداروں کو متنازع بنا کر ہموار پانیوں میں تلاطم اُٹھایا جائے۔ 24 نومبر 2024ء کو اسلام آباد پر لشکر کشی کو ''فائنل کال‘‘ کا نام دیا گیا۔ یہ حملہ بھی شرمناک ہزیمت کا سیاہ داغ چھوڑ گیا۔ نیم دلی سے مذاکرات کا ڈول ڈالا لیکن دو تین ملاقاتوں کے بعد ہی اُکتاہٹ اور بیزاری کا شکار ہو کر گھر لوٹ گئی۔ کبھی یورپی یونین کو درسِ جمہوریت دیتے ہوئے باور کرانے کی کوشش کی کہ پاکستان 'جی ایس پی پلس‘ کی رعایت کا حق دار نہیں رہا۔ کبھی آئی ایم ایف کو خطوط لکھے کہ پاکستان کو پھوٹی کوڑی تک نہ دو۔ کبھی امریکی ارکانِ کانگرس کی مٹھی گرم کرتے ہوئے مرضی کے بیانات دلوائے۔ کبھی برطانوی پارلیمنٹ میں سرنگیں لگائیں اور پاکستان کو مغلظات سنوائیں۔ دہائی دی کہ ''پاکستان کی صورتِ حال غزہ اور مقبوضہ کشمیر سے بھی بدتر ہو چلی ہے‘‘۔ سفارت کاروں کو جمع کر کے پاکستان کے چہرے پر کالک تھوپنے کی کوشش کی۔ حال ہی میں ایک بھاری بھرکم 'ڈوزیئر‘ آئی ایم ایف کے حوالے کیا گیا ہے جس میں پاکستان کو ایک سفاک اور انسانیت کُش ریاست باور کرانے کی ''سعیٔ جمیل‘‘ کی گئی ہے۔ الحمدللہ! کھلی ملک دشمنی کی حدوں کو چھوتی ایک بھی مکروہ کوشش کامیاب نہیں ہوئی۔ کوئی بحران پیدا ہوا نہ سیاسی عدمِ استحکام جو ملک کی چولیں ہلا دیتا۔
نومبر2024ء کے اواخر میں عمران خان نے سمندر پار پاکستانیوں سے اپیل کی کہ وہ اپنی کمائی پاکستان نہ بھیجیں تا کہ ملکی خزانہ خالی ہو جائے۔ ادائیگیاں ممکن نہ رہیں اور ملک دیوالیہ ہو جائے۔ اس سے ایک بڑے اقتصادی بحران کا سونامی جنم لے گا جو ریاست کی بھُربھری دیواروں سے ٹکرائے گا اور شدید نوعیت کے سیاسی عدمِ استحکام کا سیل بلا حکومت کو بہا لے جائے گا۔ پچھلے تین ماہ سے یہ اپیل دیارِ غیر میں رسوا ہو رہی ہے لیکن پاکستانی کان نہیں دھر رہے۔ 'الجزیرہ‘ نے 12 فروری کو اس داستان کا نوحہ پڑھتے ہوئے سُرخی جمائی:
"How Pakistan's Imran is losing remittances war against the Government"
''عمران کیونکر حکومت کے خلاف ترسیلاتِ زر کی جنگ ہار رہا ہے‘‘
پاکستانیوں نے دسمبر میں تین ارب ڈالر پہلے سے زیادہ پاکستان بھیجے۔ جنوری کے آخر میں ترسیلاتِ زر میں مزید تین ارب ڈالر کا اضافہ ہوا۔ سیاسی بحران اور سیاسی عدمِ استحکام کی آرزو‘ اڈیالہ جیل کی راہداریوں کا رزق ہو گئی۔
چار مرتبہ تحریکوں کے نتیجے میں پاکستان انتشار‘ سیاسی عدمِ استحکام یا ہمہ جہتی بحران کا نشانہ بنا۔ ساٹھ کی دہائی کے اواخر میں‘ ایوب خان کے خلاف اُٹھنے والی تحریک نے معمولاتِ حیات درہم برہم کر دیے۔ سب تدبیریں الٹی ہو گئیں تو فیلڈ مارشل نے اپنا آئین‘ کوڑے دان میں پھینکا اور جان کی امان کی خاطر کمان جنرل یحییٰ خان کے سپرد کرکے گھر چلا گیا۔ سیاسی عدمِ استحکام اور منہ زور بحران کی دوسری واضح مثال 1970ء کے انتخابات کے بعد مشرقی پاکستان میں سر اُٹھانے والی منہ زور تحریک تھی جس نے نصف پاکستان کی رگِ جاں دبوچ لی اور پھر اُس کی فصیل پر بنگلہ دیش کا پرچم لہرا دیا۔ تیسری بڑی تحریک 1977ء کے انتخابات میں دھاندلی کے عنوان سے اٹھی اور ملک کے طول وعرض کو اپنی لپیٹ میں لیتی ہوئی 'تحریک نظام مصطفیؐ‘ کے سانچے میں ڈھل گئی۔ حکومت کے اعصاب جواب دینے لگے۔ چار شہروں میں مارشل لا نافذ کرنے کے باوجود ملک گیر احتجاج کو نکیل نہ ڈالی جا سکی۔ اس ہمہ جہتی سیاسی عدمِ استحکام کا نتیجہ یہ نکلا کہ بھٹو حکومت کا خاتمہ ہو گیا اور ملک پر فوجی حکمرانی کی طویل شبِ سیاہ مسلط ہو گئی۔ چوتھی بڑی تحریک نے آزادیٔ عدلیہ کے پرچم تلے بال وپر نکالے جب طاقت کے نشے میں چور جنرل مشرف نے اُس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کو معزول کرکے عدلیہ کو غلام بنانے کی کوشش کی۔
اس تحریک نے مشرف کو ناتواں کرکے رکھ دیا اور پھر وہ کبھی اپنے قدموں پر کھڑا نہ ہو سکا۔ قابلِ ذکر پہلو یہ ہے کہ بالعموم یہ تحریکیں بے ثمر رہیں۔ ایوب خان کے خلاف تحریک 1970ء کے انتخابات کے بعد نئے انداز سے اُبھری تو پاکستان ٹوٹ گیا۔ 1977ء کی تحریک طویل مارشل لا پر منتج ہوئی۔ ''تحریکِ آزادیٔ عدلیہ‘‘ نے مشرف کی وردی تو اتاردی لیکن خود عدلیہ کی کلغی میں اتنے مور پنکھ ٹانک گئی کہ وہ آج تک ریاست کے دو دیگر ستونوں‘ مقننہ اور انتظامیہ کو برتن مانجھنے اور پوچا لگانیوالی کنیزیں سمجھتی ہے۔
الحمدللہ! پاکستان نہ عدم استحکام کا شکار ہے نہ مسلمہ سیاسی لغت کے مطابق یہاں کوئی سیاسی بحران ہے۔ معمولاتِ ریاست‘ مضبوط ادارہ جاتی نظم کیساتھ مستقیم راہوں پر چل رہے ہیں۔ اقتصادی اشاریوں میں مسلسل بہتری آ رہی ہے۔ بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں دہشتگردی کی وارداتیں مخصوص پس منظر رکھتی ہیں۔ شورش اور بدامنی کی اس لہر پر قابو پانے کے لیے مؤثر کردار متعلقہ صوبائی حکومتوں کا بھی ہے۔ اسے سیاسی عدمِ استحکام کے زمرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔ چھبیسویں آئینی ترمیم کا سیاپا کرنے والوں کا 'آزادیٔ عدلیہ‘ سے کچھ لینا دینا نہیں۔ اُن کا اصل دُکھ یہ ہے کہ اس سو فیصد آئینی پیش رفت نے‘ کونوں کھُدروں میں چھپے اُن مہم جوئوں کو بے بس کردیا ہے جو ' عدمِ استحکام‘ کی فصل کاشت کرنے جا رہے تھے۔
پی ٹی آئی کی آنکھوں میں سجے 'عدمِ استحکام‘ کے خوابِ خوش رنگ کو تعبیر میں ڈھالنے کیلئے راستہ فقط ایک ہی تھا کہ وہ 1977ء والے قومی اتحاد کی طرح‘ اسمبلیوں میں بیٹھنے سے انکار کر دیتی۔ اب وہ گئے وقت کو واپس نہیں لا سکتی اور آنے والے وقت کا ہر لمحہ‘ حسرتِ ناتمام کے نوحے کے سوا کچھ نہیں۔ سرخ چونچوں میں نیلگوں لفافے لیے‘ سفید وسرمئی کبوتروں کی ڈاریں‘ کوئی معجزہ رقم کر سکتی ہیں نہ سینکڑوں صفحات پر مشتمل کوئی''ڈوزیئر‘‘ عدمِ استحکام کا صُور پھونک سکتا ہے۔رہا مسیحائے شرق وغرب 'ڈونلڈ ٹرمپ‘‘ تو فی الحال غزہ کے آتشکدے کی راکھ سے اپنے بچوں کی ہڈیاں چننے والے فلسطینیوں کو اپنے آبائو اجداد کی سرزمین سے نکالنا اُس کی ترجیح اوّل ہے۔ اس سے فارغ ہوکر شاید اُسے اڈیالہ جیل سے کسی کو نکالنے کا خیال بھی آ جائے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں