جج کو خودمختار ہونا چاہیےجسٹس اطہرمن اللہ:مداخلت کیخلاف پوری عدلیہ متحد،پتہ نہیں کچھ حلقوں کو سمجھ کیوں نہیں آرہی:جسٹس منصور علی شاہ

جج کو خودمختار ہونا چاہیےجسٹس اطہرمن اللہ:مداخلت کیخلاف پوری عدلیہ متحد،پتہ نہیں کچھ حلقوں کو سمجھ کیوں نہیں آرہی:جسٹس منصور علی شاہ

لاہور (کورٹ رپورٹر،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ کے جج جسٹس سید منصور علی شاہ نے کہا مداخلت کیخلاف پوری عدلیہ متحد ہے ،پتہ نہیں کچھ حلقوں کو سمجھ کیوں نہیں آرہی ،سپریم کورٹ کو ٹھیک کرنے کیلئے اسے سسٹم کے تابع کرنا ہوگا۔

عاصمہ جہانگیر کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے جسٹس منصور علی شاہ نے کہا انصاف ہوگا تو سب چلے گا، عدلیہ کمزور ہوگی تو سب ادارے کمزور ہوں گے ، عدلیہ کیلئے فائر وال کے ہونے پر سنجیدہ ہیں،عدلیہ کی خودمختاری اور آزادی پر یقین رکھتے ہیں، مداخلت کیخلاف پوری عدلیہ متحد ہے پتہ نہیں کیوں کچھ حلقوں کو سمجھ نہیں آرہی ہے ،یہ ایک سادہ پیغام ہے ان کو سمجھ جانا چاہیے سپریم کورٹ کے دفاع میں نہیں بولوں گا ، کئی سیاہ حلقے ہیں،فخر نہیں کرسکتا ہوں کہ ہمارے یہاں متعدد برے فیصلے بھی ہیں کچھ اچھے بھی ہیں، کچھ فیصلے متنازعہ اور کچھ غلط بھی ہوئے ہیں،پہلی بار چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کیس میں اپنے اختیارات کمیٹی کے سپرد کرکے مضبوط جوڈیشل سسٹم کی بنیاد رکھی جو قابل تحسین ہے ،عدلیہ میں کرپشن کو مکمل ختم کرنا چاہیے ، ججوں کونکالنا آسان کام نہیں،گروپ بندی ہوجاتی ہے ،جو جج پرفارم نہیں کررہا اسے سسٹم سے باہر ہونا چاہیے ، کرپشن پر زیرو ٹالرنس ہونی چاہیے ۔ شخصیتوں اورافراد کے سحر سے نکل کر نظام کی جانب بڑھنا ہوگا،سپریم کورٹ کو ٹھیک کرنے کیلئے اسے سسٹم کے تابع کرنا ہوگا، ایک چیف جسٹس نظام کو ایک طرف لیجاتا ہے دوسرا چیف جسٹس دوسری طرف لیجاتا ہے ، سپریم کورٹ کو آئین کیمطابق آرڈر میں ہونا چاہیے ، سپریم کورٹ میں ایڈونچر ازم کا خاتمہ ہونا چاہیے ، خواتین ججوں کی نمائندگی میں اضافہ کرنا ہوگا۔وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے اپنے خطاب میں کہا سوشل میڈیا کے نامناسب استعمال کو روکنے کے لیے ہم پالیسی مرتب کر رہے ہیں۔ لاپتہ افراد کا مسئلہ افغان جنگ سے جڑا ہوا ہے ۔ یہ مسلہ سیاسی ڈائیلاگ سے حل ہونا چاہیے ، اس مسئلہ میں سیاسی اداروں کو شامل ہونا چاہیے ۔ پیپلز پارٹی کی رہنما نفیسہ شاہ نے کہا یہ افسوس کی بات ہے یہاں پر کسی جمہوری وزیراعظم نے پانچ سال مکمل نہیں کیے ۔

ہائبرڈ رولز کا آغاز 2014 کے دھرنے سے ہوا۔ 2018 میں جتنی دھاندلی ہوئی 2024 میں اتنی نہیں ہوئی ۔ڈائیلاگ نہ ہوں تو دوسرے دروازے کھلتے ہیں۔لیگی رہنما خرم دستگیر نے کہا ذمہ داری دے رہے ہیں، اتھارٹی نہیں ،عوامی مینڈیٹ کی عزت کرنی ہو گی، رکن اسمبلی سکول سڑکوں یا صفائی ستھرائی کا ذمہ دار نہیں ہے ، تمام شہریوں کی عزت کرنی چاہیے یہ نہیں کہ ہم صرف ووٹ ڈالنے والوں کی عزت کریں۔ پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ ن میں میثاق جمہوریت کیا تو کہا گیا یہ ملکر پاکستان کو نقصان پہنچائیں گے ۔ پی ٹی آئی کی حمایت یافتہ سنی اتحاد کونسل کے رہنما بیرسٹر علی ظفر کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی سے انتخابی نشان واپس لے لیا گیا، مگر پولنگ اسٹیشنز پر لوگوں نے ووٹ ڈالنے والوں کو ہمارے امیدواروں کے نشانوں کے بارے میں آگاہی دی۔ پچھلے کچھ عرصے سے ایسی قانون سازی ہوئی کہ پڑھنے کا موقع بھی نہیں دیا جاتا تھا۔ بل آتا تھا بس سٹیپ ہوتا تھا اور منظور ہو جاتا تھا۔ ایسے قانون سازی نہیں ہونی چاہیے ۔ صدر سپریم کورٹ بار شہزاد شوکت کا کہنا تھا کہ ججز کو عدلیہ کو ریاست کی جانب سے دئیے گئے اختیار میں محدود رہنا چاہیے ۔ ججز کو محض اپنے عدالتی فیصلوں کے ذریعے بولنا چاہیے ۔ سابق صدر سپریم کورٹ بار احسن بھون کا کہنا تھا کہ پاکستان کی انتخابی تاریخ بری طرح داغدار ہے ۔ سپریم کورٹ نے پارلیمنٹ کے بنائے قانون پریکٹس اینڈ پروسیجر ایکٹ کو برقرار رکھ کر بہت اچھا کیا۔کانفرنس کا پہلا روز مکمل ہو گیا، کانفرنس میں مجموعی طور پر 22 سیشن ہیں، کانفرنس کا دوسرا روز آج 28 اپریل کو شروع ہوگا۔

اسلام آباد(مانیٹرنگ ڈیسک،آئی این پی)سپریم کورٹ کے جج جسٹس اطہر من اللہ نے کہا جج کو خود مختار ہونا چاہیے ، امام ابو حنیفہؒ کے ضابطہ اخلاق پر عمل کریں تو یہ ہماری عدلیہ میں انقلاب برپا کر سکتا ہے ۔ ان خیالات کا اظہار انہوں نے فیڈرل جوڈیشل اکیڈمی میں دو ہفتے کے فیڈرل جوڈیشل ایجوکیشن پروگرام کے اختتام پر منعقدہ سرٹیفکیٹ تقسیم کرنے کی تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کیا،جسٹس اطہر من اللہ نے آزاد ججوں کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا ہمیں عدالتی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے آزاد سوچ رکھنے والے ججوں کی پرورش کرنی چاہیے ، جج کو خود مختار ہونا چاہیے ۔ جج کو ہمیشہ اس حقیقت کا خیال رکھنا چاہیے کہ وہ کسی کا ماتحت نہیں ہے ۔ جج کو ہمیشہ قانون کی پیروی کرنی چاہیے اور کسی سے متاثر نہیں ہونا چاہیے ۔ صرف ایک آزاد سوچ رکھنے والا جج ہی منصفانہ ٹرائل کے حق کو یقینی بنا سکتا ہے اور صرف ایک آزاد عدلیہ ہی عوام کا اعتماد حاصل کر سکتی ہے ، ہمیں ان کی تربیت اس انداز میں کرنی چاہیے کہ وہ آزاد ذہن کے جج بن جائیں،ججوں کو انفرادی اور ادارہ جاتی طور پر آزاد ہونا چاہیے ، آزاد سوچ رکھنے والے ججوں کے بغیر عدلیہ کی آزادی حقیقت نہیں بن سکتی۔ تربیتی کورس کے مواد کو سراہتے ہوئے انہوں نے کہا میرے لیے تربیت کا سب سے متاثر کن حصہ کرپٹو کرنسی، مصنوعی ذہانت جیسے مضامین کا دانشمندانہ انتخاب ہے ، جو کہ وقت کی اہم ضرورت ہے ۔ آخر میں انہوں نے 30 ایڈیشنل ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن ججز اور 30 سینئر سول ججز کو سرٹیفکیٹس سے نوازا، قبل ازیں اکیڈمی کے ڈی جی حیات علی شاہ نے کہا کہ وسائل کی کمی کے باوجودچیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی دور اندیش قیادت میں ہم نے اکیڈمی کے مشن اور وژن کے مطابق مختصر وقت میں چند مقررہ اہداف حاصل کیے ہیں اور روڈ میپ پر دوسروں کے حصول کیلئے کوشاں ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں