"KDC" (space) message & send to 7575

ریاستی مفادات کا تحفظ ضروری

چیف آف آرمی سٹاف جنرل سید عاصم منیر نے کہا ہے کہ نو مئی کا سیاہ باب رقم کرنے والوں سے کوئی سمجھوتا ہوگا نہ ڈیل‘ وہ معصوم لوگ جو ان مجرمانہ عناصر کے مذموم سیاسی مقاصد کو نہیں سمجھ سکے‘ ان ورغلائے ہوئے لوگوں کو پہلے ہی شک کا فائدہ دیا جا چکا‘ تاہم اپنے آپ کو معصوم ظاہر کرنے والے اصل رہنماؤں کو اپنے جرائم کا حساب دینا پڑے گا۔اس سے قبل آرمی چیف ریاستی مفاد کے پیشِ نظر یہ اہم قومی پیغام بھی دے چکے ہیں کہ ہم اپنی آئینی حدود کو بخوبی جانتے ہیں اور دوسروں سے بھی آئین کی پاسداری کو مقدم رکھنے کی توقع رکھتے ہیں۔ آئین کے آرٹیکل 19 میں واضح طور پر آزادیٔ اظہار رائے کی حدود متعین کی گئی ہیں‘ جو لوگ آئین میں دی گئی آزادیٔ اظہارِ رائے پر عائد کی گئی واضح قیود کی برملا پامالی کرتے ہیں وہ دوسروں پر انگلیاں نہیں اٹھا سکتے۔ قارئین! اگر جدید اور ترقی یافتہ ملکوں کے میڈیا کا بغور جائزہ لیا جائے تو آپ کو دو باتیں واضح نظر آئیں گی؛ ایک یہ کہ وہاں میڈیا ریاستی مفادات کا پوری طرح خیال رکھتا ہے۔ ان ملکوں میں کبھی بھی ریاست پر تنقید نہیں ہوتی‘ ہاں حکومتوں پر تنقید ضرور ہوتی ہے۔ حکومتی پالیسیوں سے اختلاف کیا جاتا ہے مگر ریاستی پالیسیوں پر میڈیا ریاست کا ہم آواز ہوتا ہے۔ پاکستان میں بھی یہی روش اپنانے کی ضرورت ہے۔ ذاتی مفادات کی خاطر ملکی مفادات کو زک پہنچانا درست عمل نہیں ہے۔
دوسری طرف یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ لیفٹیننٹ جنرل (ر) نعیم لودھی تحریک انصاف کے بانی رہنما کے مقتدر حلقوں سے مذاکرات کرانے کے لیے کوشاں ہیں۔ شنید ہے کہ فریقین کے درمیان موجود اختلافی خلیج کو ختم کرنے کے لیے انہوں نے اپنی ماہرانہ تجاویز بھی مقتدر حلقوں تک پہنچائی ہیں۔ جنرل (ر) نعیم لودھی وزارتِ دفاع کے سیکرٹری بھی رہ چکے ہیں۔ 2018ء میں نگران حکومت کے وزیرِ دفاع بھی تھے۔ سیاسی و غیرسیاسی حلقوں اور میڈیا میں اُن کے لیے احترام پایا جاتا ہے۔ ان کی ٹیم میں مشاہد حسین سید‘ محمد علی درانی اور ایک ریٹائرڈ فور سٹار جنرل بھی شامل ہیں۔ گمان ہے کہ یہ فور سٹار جنرل‘ جنرل (ر)احسان الحق ہو سکتے ہیں۔ جنرل (ر)احسان الحق مقتدر حلقوں میں نمایاں مقام رکھتے ہیں۔ اکتوبر 2022ء میں خبریں سامنے آئی تھیں کہ تب قمر جاوید باجوہ نے جنرل (ر)احسان الحق کی وساطت ہی سے ایوانِ صدر میں ڈاکٹر عارف علوی کی موجودگی میں عمران خان سے ان کی خواہش پر مذاکرات کیے تھے لیکن دونوں کے مابین کوئی مفاہمت نہیں ہو سکی تھی۔ اس وقت مفاہمت کی کوئی بھی کوشش اُسی صورت کامیاب ہو سکتی ہے جب بانی چیئرمین پی ٹی آئی کے اعتراضات دور کیے جائیں جو موجودہ حالات میں ہوتے ہوئے نظر نہیں آ رہے۔ ایک طرف مفاہمت کی راہ ہموار کرنے کی کوششیں جاری ہیں تو دوسری طرف تحریک انصاف کا سیاسی مستقبل ایک بار پھر خطرے میں پڑتا دکھائی دیتا ہے کیونکہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے پی ٹی آئی کے تیسرے انٹرا پارٹی انتخابات پر بھی اعتراضات عائد کردیے ہیں۔30 اپریل کو چیف الیکشن کمشنر کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے اس کیس کی سماعت کے دوران پی ٹی آئی کے انٹراپارٹی انتخابات پر عائد اعتراضات کی تفصیلات فراہم کرنے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت ملتوی کر دی تھی۔ اگر پانچ سال میں پی ٹی آئی میں شفاف انٹرا پارٹی انتخابات ہی نہیں ہو سکے تو مختلف پارٹی تنظیمیں کیسے کام کر رہی ہیں۔ دیکھا جائے تو الیکشن کمیشن کے 22 نومبر 2023ء کے فیصلے کے بعد ہی پی ٹی آئی کا وجود قانونی طور پر خطرے کی زد میں آ چکا تھا جب الیکشن کمیشن نے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو کالعدم قرار دیتے ہوئے انتخابی نشان واپس لے لیا تھا۔ اس فیصلے کے بعد ہونے والے پی ٹی آئی کے انٹرا پارٹی الیکشن کو بھی الیکشن کمیشن نے مسترد کر دیا جبکہ سپریم کورٹ نے بھی الیکشن کمیشن کے فیصلے کی توثیق کی تھی جس کی وجہ سے تحریک انصاف کے امیدواروں نے آٹھ فروری کے انتخابات میں آزاد حیثیت سے حصہ لیا۔ کاغذاتِ نامزدگی داخل کراتے وقت بھی پی ٹی آئی امیدواروں کو مشکلات کا سامنا کرنا پڑا تھا۔ ان تمام رکاوٹوں کے باوجود تحریک انصاف کے حمایت یافتہ اراکین بھاری تعداد میں کامیاب ہو گئے۔ اب عمر ایوب خان قائدِ حزبِ اختلاف ہیں اور شنید ہے کہ پبلک اکاونٹس کمیٹی کی چیئرمین شپ بھی سنی اتحاد کونسل کے کسی رکنِ اسمبلی کو دی جا رہی ہے۔ موجودہ حالات میں مصالحت یا مفاہمت کے لیے پارلیمنٹ سے بہتر کوئی جگہ نہیں ہے‘ لہٰذا اس پلیٹ فارم کو اچھے طریقے سے استعمال کیا جانا چاہیے۔
سیاسی حالات سے ہٹ کر بات کریں تو حالیہ دنوں درآمدی گندم کا سکینڈل قومی منظر نامے پر چھایہ ہوا ہے ۔نگران حکومت کے دور میں ملکی ضرورت سے زائد گندم درآمد کرکے ملکی خزانے کو نقصان پہنچایا گیا اور بلاوجہ ایک ارب ڈالر سے زائد کا قیمتی زرِ مبادلہ ضائع کیا گیا۔ اس فیصلے سے ملک کے غریب کسانوں کو بھی زک پہنچی ہے۔ یہ معاملہ کافی سنگین ہے۔ محض فوڈ سیکرٹری یا کسی بھی اور سرکاری عہدیدار کو معطل کرنے سے یہ مسئلہ حل نہیں ہو گا۔ وفاقی حکومت کسانوں کے دباؤ کے پیشِ نظر ایک تحقیقاتی کمیٹی تو قائم کر چکی ہے‘ یہ کمیٹی گندم سکینڈل کی جو بھی وجوہات سامنے لائے‘ ملکی خزانے اور کسانوں کو پہنچنے والا مالی نقصان تو پورا نہیں ہو سکتا۔ جب نگران وفاقی وزیر تجارت گوہر اعجاز نے گندم درآمد کرانے کی تجویز مسترد کی تھی تو پھر ایک ارب ڈالر سے زائد مالیت کی گندم ملک میں کیسے پہنچ گئی؟ چیف جسٹس آف پاکستان کو اس سکینڈل پر ازخود نوٹس لینا چاہیے۔ پنجاب میں گندم کی سرکاری خریداری تاحال شروع نہ ہونے کی وجہ سے کسان صوبائی حکومت سے نالاں نظر آتے ہیں۔ ہر روز کسی نہ کسی شہر میں کسان سراپا احتجاج ہوتے ہیں۔ کسان تنظیمیں اس حوالے سے کافی فعال نظر آتی ہیں۔ بیورو کریسی میں اتنا دم خم نہیں ہے کہ وہ پنجاب کے غریب کسانوں کو دبا سکے۔ دیکھا جائے تو حکومتی اراکین بھی اس گندم سکینڈل کے متاثرین میں شامل ہیں۔عبوری دورِ حکومت میں گندم کی درآمد کا فیصلہ موجودہ حکومت کے لیے کسی بارودی سرنگ سے کم نہیں ہے۔ ملکی خزانے کو نقصان پہنچانے والوں کے خلاف کارروائی ضرور عمل میں لائی جانی چاہیے۔ کسانوں کے لیے یہ صورتحال کافی اذیت ناک ہے۔ حکومت کسانوں کی مشکلات حل کرنے کے لیے فوری طور پر یہ قدم اٹھا سکتی ہے کہ ملکی ضروریات سے زائد گندم کو برآمد کرنے کی اجازت دیدے۔ اس سے زرِمبادلہ میں بھی اضافہ ہو گا اور سرکاری گودام بھی خالی ہو جائیں گے۔ اس صورت میں کسانوں کی بھی کسی حد تک داد رسی ممکن ہے۔ حالیہ دنوں میں گندم سکینڈل پر سابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ اور لیگی رہنما حنیف عباسی کے درمیان ہونے والی تکرار عوام کی توجہ کا مرکز بنی رہی۔ حنیف عباسی نے ایک ٹی وی پروگرام میں گندم معاملے پر سابق نگران وزیراعظم کو موردِ الزام ٹھہرایا جس پر انوار الحق کاکڑ نے حنیف عباسی کو کہا کہ اگر انہوں نے فارم 47 کی بات کی تو (ن) لیگ والے منہ چھپاتے پھریں گے۔پی ٹی آئی کے حامیوں نے سابق نگران وزیراعظم کے اس جملے کو اعترافِ جرم قرار دیا۔بین السطور میں سابق نگران وزیراعظم نے آٹھ فروری کے انتخابات کے متنازع ہونے پر مہرِ تصدیق ثبت کر دی۔ اس صورتحال میں الیکشن کمیشن کو انوار الحق کاکڑ سے جواب طلبی کرنا چاہیے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں