5 مئی کو دنیا بھر میں کارل مارکس کی سالگرہ منائی گئی‘ اس حوالے سے دنیا کے بیشتر ممالک میں تقریبات منعقد ہوئیں اور تقاریر کی گئیں۔ لوگوں نے اپنی اپنی سمجھ بوجھ کے مطابق کارل مارکس کے نظریات کے حوالے سے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ موقع کی مناسبت سے کسی نے مارکس کی شخصیت کو خراجِ تحسین پیش کیا تو کسی نے مارکس کے خیالات‘ نظریات اور تخلیقات پر روشنی ڈالی۔ سنجیدہ لوگوں نے مقالات اور مضامین کے ذریعے مارکس اور اس کے کام کو اجاگر کیا۔ ان تقاریر اور تحریروں میں زیادہ تر کارل مارکس کی تعریف و توصیف ہی کی گئی۔ میں نے دنیا بھر کے پریس پر نظر ڈالی‘ مگر کوشش کے بعد بھی ایسی کوئی تحریر یا تقریر نہیں مل سکی جس میں مارکس پر تنقید کی گئی ہو۔ البتہ پاکستان کا معاملہ مختلف ہے۔ جب پاکستان کے سوشل میڈیا اور اردو ویب سا ئٹس کو دیکھا تو یہاں مارکس کے نام نہاد ہمدردوں اور پیروکاروں نے اس کے خیالات اور کام کو جس انداز میں پیش کیا‘ اس سے مارکسزم کو جتنا نقصان ہوا ہو گا‘ اتنا شاید اس کے کھلے مخالفین کی تنقید سے بھی نہیں ہو سکتا۔ ان لوگوں نے مارکس کے نظریے اور فلسفے کو جس رنگ میں پیش کیا‘ اس کا مارکسزم سے دور پرے کا بھی کوئی تعلق نہیں ہے۔ کئی ایسے اقوال و خیالات کو مارکس سے منسوب کیا گیا جو غیر مارکسی اور رجعتی ہیں۔ کچھ لوگوں نے مارکس کی معرکہ آرا کتاب ''داس کیپٹل ‘‘ کی تشریح اپنے محدود علم و تفیہم کی روشنی میں کرنا چاہی۔ یہ تشریح ان لوگوں کے لیے شدید حیرت کا باعث بنی جنہوں نے سنجیدگی اور توجہ سے داس کیپٹل پڑھ رکھی ہے۔
داس کیپٹل دنیا کی مشکل ترین کتابوں میں سے ایک ہے جس میں سیاسی معیشت اور فلسفے پر بحث کی گئی ہے۔ اس طرح کی کتاب پڑھنے اور سمجھنے کے لیے ذہنی استعداد اور علمی قابلیت کا ایک خاص سطح تک بلند ہونا ضروری ہے۔ اس کے لیے دو سو سال پہلے کے حالات اور واقعات کی کچھ واقفیت ضروری ہے‘ جو اُس وقت یورپ کی سیاست‘ معیشت اور فلسفے کی بنیاد تھے۔ تھوڑا بہت تاریخ کا علم اور تاریخ کے بارے میں پائے جانے والے مختلف نظریات اور رجحانات کا علم ہونا بھی ضروری ہے تاکہ مارکس کے نظریات کی تاریخ اور تاریخی مادیت کو سمجھا جا سکے۔ تھوڑا بہت فلسفے کا علم اُن فلسفیانہ روایات سے آشنائی کے لیے ضروری ہے جن کو سامنے رکھتے ہوئے مارکس نے فلسفے کو درست تناظر میں سمجھنے اور پیش کرنے کی کوشش کی۔ اُس وقت کی پولیٹیکل اکانومی اور مختلف معاشی نظریات کا تھوڑا بہت علم بھی ضروری ہے جن کی بنیاد پر داس کیپٹل لکھی گئی۔ اب ظاہر ہے کہ ان سب چیزوں کا علم ہر آدمی کو نہیں ہو سکتا‘ اور نہ ہی ایسا ممکن ہے۔ یہ علم معدودے چند دانشوروں‘ محققین اور نہایت محدود تعداد میں غیر معمولی ذہانت کے حامل لوگوں ہی کو ہو سکتا ہے۔ لیکن مارکس کی سالگرہ کے موقع ان پر تنقید کے تیر یا تعریف کے ڈونگرے ان لوگوں نے برسائے جن کی اپنی تعلیمی قابلیت پر سوالیہ نشان ہے۔ زیادہ تر افراد نے ایسے سرکاری اداروں سے تعلیم حاصل کر رکھی ہے‘ جہاں معاشیات یا سیاسیات کے اساتذہ اپنا زیادہ تر وقت دیگر موضوعات پر گفتگو کرتے ہوئے صرف کرتے ہیں۔ اکثر تعلیمی اداروں میں تو مارکس جیسے دانشوروں کا نام لینا ہی گوارا نہیں کیا جاتا لیکن اگر کبھی ایسا ہوا بھی تو منفی انداز میں اور نہایت متعصبانہ پروپیگنڈے کے لیے۔ ایسے تعلیمی ماحول سے نکلے ہوئے افراد اگر داس کیپٹل میں غلطیاں نکالیں اور مارکس پر ایسے تنقید کریں جیسے وہ ان کا ہم عصرطالبعلم ہے تو یہ بڑی ستم ظریفی کی بات ہے۔
مارکس کے نقادوں میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جن کے علم کی ابتدا اور انتہا ہی سوشل میڈیا سے ہوتی ہے اور ان کے سارے علم و فضل کا منبع ''گوگل‘‘ ہے۔ ایسے بیشتر لوگوں کا نہ تو کوئی ٹھوس علمی و تحقیقی پس منظر ہوتا ہے اور نہ ہی انہوں نے معیشت اور فلسفے کی کوئی باقاعدہ تعلیم حاصل کی ہوتی ہے‘ تاہم یہ گوگل پر تکیہ کر کے سیدھا کارل مارکس کے دامن پر ہاتھ ڈالتے ہیں۔ اگر اس طرح کے لوگ مارکس کا نام لیں یا اس کی تخلیقات اور نظریات پر تنقید کریں تو ظاہر ہے کہ اس کام کا معیار لوئر کلاس جگت بازی سے بھی گرا ہوا ہوتا ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جب اس طرح کی چیزوں کو سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا جاتا ہے تو کچھ لوگ نہ صرف آنکھیں بند کر کے اسے ''لائک‘‘ کرتے ہیں بلکہ اس میں اپنے قیمتی خیالات کا اضافہ کرتے ہوئے مارکس کو بے نقط سنانا بھی اپنا حق سمجھتے ہیں۔ اس صورتحال کو دیکھ کر ہمارے تعلیم معیار کی گراوٹ کا اندازہ ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں کارل مارکس کے بارے میں مباحثے علمی اور ادبی سطح سے زیادہ سیاسی سطح پر ہوتے ہیں۔ مارکس کے بارے میں گفتگو زیادہ تر ایسی تقریبات میں ہوتی ہے جن کا اہتمام سیاسی گروپوں کی جانب سے کیا جاتا ہے۔ ان تقریبات میں صرف ایسی شخصیات کو دعوتِ خطاب دی جاتی ہے جو پارٹی یا کسی سیاسی فورم کا حصہ ہوتی ہیں۔ انیسویں صدی کے اس یورپی لکھاری کے خیالات اور فلسفے کے بارے میں ان افراد کی معلومات نہایت واجبی اور پارٹی پالیسیوں کے ماتحت ہوتی ہیں۔ یہ لوگ جب اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہیں تو اس موضوع پر علم رکھنے والے لوگ ششدر رہ جاتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ پاکستان میں دائیں بازو کے ہر گروپ یا فورم کا اپنا ایک الگ کارل مارکس ہے اور وہ اپنے اس کارل مارکس کا حوالہ اس طرح دیتے ہیں جس طرح برگزیدہ ہستیوں کے اقوالِ زریں بیان کرتے ہیں۔ جس طرح مذہبی نظریات میں کسی قسم کی ترمیم یا رد وبدل کی گنجائش نہیں ہوتی‘ اسی طرح ان کے پیش کردہ مارکسی خیالات میں بھی کسی ترمیم و تبدیلی کی گنجائش نہیں ہوتی۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر ان کے پیش کردہ اقوال کا عمیق جائزہ لیا جائے تو اکثر اقوال و نظریات ایسے ہوتے ہیں جن کا مارکس اور اس کے فلسفے سے دور پرے کا بھی تعلق نہیں ہوتا۔ یہ اقوال اپنی اپنی سیاسی ضروریات کے تحت گھڑے جاتے ہیں اور ان کو مارکس کے سر منڈھ دیا جاتا ہے۔ مارکس کو لے کر یہ جو طوفان برپا ہے‘ یہ صرف ہمارے حصے میں آتا ہے‘ مغرب میں صورتحال یکسر مختلف ہے۔
دنیا میں مارکسزم کے خلاف سب سے طاقتور محاذ مغرب میں کھڑا کیا گیا۔ مارکسزم کا مقابلہ کرنے کے لیے اربوں ڈالر خرچ کیے گئے۔ ہنری ٹرومین ڈاکٹرائن سے لے کر جو بائیڈن کی پالیسیوں تک کو مارکسزم کو سامنے رکھ کر ترتیب دیا گیا۔ لیکن سیاسی ایوانوں سے ہٹ کر مغرب میں علمی اور فکری سطح پر مارکسزم کو بہت سنجیدگی سے لیا گیا اور اس کو ہر سطح پر ہونے والے مباحثوں کا حصہ بنایا گیا۔ مغربی یونیورسٹیوں میں مارکسزم کو بطور مضمون پڑھایا جاتا ہے۔ سکولوں اور کالجوں میں مارکسزم پر کھل کر بات ہوتی ہے۔ مارکسزم سے مغرب کا اختلاف اپنی جگہ مگر اس کو کھلے دل سے انیسویں صدی کا اہم ترین سیاسی اورمعاشی فلسفی تسلیم کیا جاتا ہے اور اس کے بعد ہی اس سے اختلاف یا اتفاق کی بات کی جاتی ہے۔ مغرب میں کوئی یہ نہیں کہتا کہ مارکس نے یہ غلط کہا یا وہ صیح کہا بلکہ اسے اُس کے عہد کے عظیم ترین فلسفیوں کی صف میں کھڑا کر کے اس کی شخصیت اور نظریات پر لب کشائی کی جاتی ہے۔
کسی معاشرے میں جب زوال آتا ہے تو اس کا اظہار کسی ایک طبقے یا مکتبِ فکر میں نہیں ہوتا بلکہ زندگی کے ہر شعبے میں اس کا اظہار ہوتا ہے۔ مارکس کے حوالے سے پاکستان کے دم توڑتے بائیں بازو کے خیالات اور نظریات میں بھی زوال کا اظہار ہو رہا ہے جو فرسودگی اور رجعت پسندی کے شکار چند گروپوں کے لیڈروں کی گرفت میں ہے۔ یہ گروپس مارکسزم کے نام پر خود بھی ایک دوسرے سے الجھتے رہتے ہیں۔ دیکھا جائے تو مجموعی طور پر بایاں بازو پسپائی کا شکار ہے اور سیاست میں اس کا کردار رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے۔