"KMK" (space) message & send to 7575

افریقن نیشنل کانگریس اور مسلم لیگ

کہیں تو ہر دوسرے کھمبے پر اور کہیں ہر کھمبے پر دو دو پوسٹر لگے ہوئے ہیں۔ یہ پوسٹر چھوٹے یا درمیانے سائز کے ہیں اور بڑے محتاط انداز میں اس طرح لگائے گئے ہیں کہ بس آپ ان پر لگی ہوئی پلاسٹک کی نفیس لیکن مضبوط ٹائی کو کاٹیں اور پوسٹروں سے نجات حاصل کر لیں۔ شہر میں کسی جگہ بھی یہ پوسٹر کسی دیوار پر‘ کسی عمارت پر یا دروازے پر چسپاں نہیں ہیں۔ نہ کسی عمارت کا حسن خراب کیا گیا ہے اور نہ ہی کسی دیوار کا رنگ و روغن برباد کیا گیا ہے۔ یہ پوسٹر بڑی کثرت سے لگے ہیں مگر جس روز ان کی پلاسٹک کی تنی کاٹ کر ان کو کھمبوں سے اتارا جائے گا‘ سب کچھ اسی طرح صاف و شفاف ہو جائے گا جیسا ان پوسٹروں کے لگنے سے قبل تھا۔ ہر پوسٹر پر صرف ایک عدد تصویر کے ساتھ ایکس (X) کا نشان اور دو یا تین حروف‘ جو یقینا کسی نام کی تخفیف شدہ نمائندگی کر رہے تھے۔ کہیں ANC لکھا ہوا تھا‘ کہیں DA اور کہیں EFF۔ غرض اسی طرح کے مختصر تحریروں والے پوسٹروں کی بہار تھی جو صرف کھمبوں پر دکھائی دے رہی تھی۔ جوہانسبرگ میں بھی یہی حال تھا اور ایسٹ لندن میں بھی ایسا ہی منظر تھا۔
میں نے ملک عبدالوحید سے پوچھا تو اس نے بتایا کہ جنوبی افریقہ کے قومی الیکشن اسی ماہ ‘مئی کی 29 تاریخ کو ہو رہے ہیں۔ میں نے پوچھا کہ سارے پوسٹروں پر بس چھ‘ سات لوگوں کی تصویریں دکھائی دے رہی ہیں‘ انہی لوگوں کی تصویریں جوہانسبرگ میں لگی ہوئی تھیں‘ انہی لوگوں کی تصویریں کنگ ولیمز ٹائون میں تھیں اور انہی کی تصاویر ادھر ایسٹ لندن میں لگی ہوئی ہیں اور کسی پوسٹر پر بھی امیدوار کا نام نہیں ہے۔ ملک وحید کہنے لگا: ادھر متناسب نمائندگی کے تحت الیکشن ہوتے ہیں۔ صرف اور صرف پارٹی کے سربراہ کی تصویر اس پارٹی کے پوسٹر پر ہوتی ہے۔ پارٹی کا سربراہ ان قومی انتخابات میں صدارتی امیدوار ہوتا ہے۔ نہ کوئی اور امیدوار ہوتا ہے اور نہ ہی اس کی تصویر یا نام پوسٹروں پر دکھائی دیتا ہے۔ پورے جنوبی افریقہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک‘ ہر پارٹی نے اپنے اپنے صدارتی امیدوار کی تصویر کے ساتھ ایک جیسے پوسٹر چھاپے ہوئے ہیں اور اسی صدارتی امیدوار کے گرد ساری انتخابی مہم چلتی ہے۔ ان پوسٹروں پر پارٹی کے نام کے ساتھ جو X لکھا ہوا ہے‘ اس کا مطلب ہے کہ اس پارٹی کیلئے بیلٹ پیپر پر X کی مہر لگائیں اور اسے کامیاب کریں۔ میں نے کہا: چلیں یہ تو اچھا ہے کہ ادھر لوگوں کے گھروں کی دیواریں‘ سرکاری عمارتیں‘ دکانوں کے شٹر ان پوسٹروں‘ اشتہاروں اور بینروں کی آفت سے محفوظ ہیں جن کا سامنا ہمیں پاکستان میں ہر چھوٹے بڑے الیکشن پر کرنا پڑتا ہے‘ لیکن ادھر باقی جلسے جلوسوں کا کیا حال ہے؟ ملک وحید نے بتایا کہ ادھر جلسے‘ جلوس‘ انتخابی ریلیاں اور دیگر انتخابی سرگرمیاں ہوتی ہیں لیکن خاصی ترتیب اور تہذیب کے ساتھ۔ ایسا نہیں کہ سٹرک کے عین درمیان ٹریفک روک کر انتخابی تقریر شروع کر دی جائے یا کسی علاقے میں دو عدد قناتیں لگا کر سڑک بند کر دی جائے اور اپنا انتخابی جلسہ بھگتا لیا جائے۔ سارے پوسٹر پلاسٹک کی باریک سی تار سے بندھے ہوئے ہیں‘ الیکشن کے بعد میونسپلٹی والے آئیں گے اور تار کاٹ کر پوسٹر اتاریں گے اور سارا شہر ویسے کا ویسا ہو صاف جائے گا۔ نہ ہی ان پوسٹروں کی مابعد الیکشن کوئی بدصورت باقیات بچتی ہیں اور نہ ہی کسی عمارت کے مالک کو دیواریں صاف کرانے یا سفیدی کرانے کی مصیبت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
مجھے یاد آیا کہ ملتان میں ہائیکورٹ کی اچھی بھلی دیوار تھی‘ پھر اس اچھی بھلی دیوار کو مزید اچھا کرنے کی غرض سے ساری دیوار کے باہر سرخ گٹکا لگا دیا گیا۔ ظاہر ہے قوم کے پاس پیسہ بہ افراط ہے اور جب پیسہ زیادہ ہو تو اچھل کود کرتے ہوئے کہتا ہے مجھے کہیں خرچ کرو۔ سو اس ''اُبل اُچھل‘‘ کرتے ہوئے پیسے کو خرچ کرنے کی غرض سے پہلے سے موجود دیوار کی خوبصورتی دوچند کرنے کی غرض سے اس پر گٹکا بھی لگا دیا گیا اور چھوٹی چھوٹی آرائشی ممٹیاں سی بھی بنا دی گئیں۔ پھر ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن کے الیکشن آ گئے۔ امیدواروں نے اپنے اپنے پوسٹر پہلے تو ادھر ادھر لگائے‘ پھر کسی نے اس نئی نکور دیوار پر اپنا پوسٹر لگانے کی روایت ایجاد کی۔ اس کے بعد تو پھر چل سو چل ہو گئی۔ نئی دیوار پوسٹروں سے اَٹ گئی۔ الیکشن کے بعد کئی روز تک اس دیوار کی صفائی ہوتی رہی مگر پوسٹروں کی باقیات زیادہ ثابت قدم ثابت ہوئیں۔ روزانہ کئی عدد ججز صاحبان اس دیوار کے سامنے سے گزر کر صبح اپنی عدالت میں جاتے تھے اور شام کو اسی دیوار کے ساتھ سے گزر کر واپس گھر جاتے تھے مگر کسی نے بھی اس نئی دیوار پر ہونے والی پوسٹر بازی پر نہ کوئی ایکشن لیا اور نہ آئندہ کے لیے کوئی حکم نامہ جاری کیا۔ یہ تو خود ہائیکورٹ کی عمارت کا حال ہے۔ بھلا ہم عام نام لوگوں کے لیے کس نے ایکشن لینا ہے۔
میں نے ملک وحید سے پوچھا کہ ادھر الیکشن وغیرہ میں دھاندلی کی کیا صورتحال ہے؟ ملک وحید بھی عجیب شرپسند آدمی ہے‘ کہنے لگا: یہاں الیکشن کمیشن کا نہ صرف نام ''انڈیپنڈنٹ الیکٹورل کمیشن‘‘ ہے بلکہ یہ صحیح معنوں میں ایک آزاد اور خود مختار ادارہ ہے۔ میں نے کہا: تمہارا ''صحیح معنوں‘‘ میں کہنے سے کیا مراد ہے؟ وہ کہنے لگا: آپ کو جب پوری بات سمجھ میں آ گئی ہے تو آپ اس طرح تجاہلِ عارفانہ سے کیوں کام لے رہے ہیں؟ میں نے پوچھا: ادھر کوئی فارم 45یا 47جیسی دستاویزات نہیں ہوتیں؟ وہ کہنے لگا: ادھر کے الیکشن اس قسم کے لفڑے اور گڑبڑ گھوٹالے سے یکسر پاک ہیں۔ پہلے ادھر چند جماعتیں تھیں جو الیکشن میں حصہ لیتی تھیں‘ پھر یوں ہوا کہ ANC کا ہر وہ لیڈر‘ جس کو تھوڑی سی بھی مقبولیت ملی یا اس کے کریڈٹ پر کوئی کارِ نمایاں یا کامیابی آئی‘ اس نے اپنی علیحدہ پارٹی بنا لی۔ اب صورتحال یہ ہے کہ ایک آدھ سیاسی پارٹی کو چھوڑ کر تقریباً دیگر تمام سیاسی پارٹیاں ANC یعنی افریقن نیشنل کانگریس کے بطن سے نکلی ہیں۔ آزادی سے لے کر اب تک‘ ANC حکمرانی کر رہی ہے۔ نیلسن منڈیلا کا تعلق بھی اسی پارٹی سے تھا۔ آزادی کی جنگ بھی اسی پارٹی نے لڑی اور ساری جدوجہد اور قید وبند کی صعوبتیں بھی اسی پارٹی کے لیڈروں اور کارکنوں نے برداشت کیں۔ ANC کے بعد دوسری بڑی اور منظم جماعت ڈی اے یعنی ڈیموکریٹک الائنس ہے۔ یہ گوروں کی پارٹی ہے۔ فی الوقت تیسری مقبول جماعت ای ایف ایف یعنی اکنامک فریڈم فائٹرز ہے۔ اس کا لیڈر جولیس مالیما افریقن نیشنل کانگریس یوتھ لیگ کا صدر تھا‘ جس نے 2012ء میں اے این سی سے علیحدہ ہو کر اپنی پارٹی کی بنیاد ڈالی۔ منہ پھٹ‘ بے خوف اور جارحانہ گفتگو میں مہارت تامہ رکھنے والے جولیس مالیما کے پاس چار سو کی اسمبلی میں 44 سیٹیں ہیں۔ کانگریس آف پیپلز‘ پین افریقن نیشنلسٹس اور پین افریقنسٹ کانگریس وغیرہ ایسی پارٹیاں ہیں جو ANC کے سابقہ لیڈروں نے علیحدہ ہو کر قائم کی ہیں۔ ملک وحید کہنے لگا: بالکل ویسے ہی جیسے پاکستان میں مسلم لیگ میں سے کبھی مسلم لیگ کنونشن‘ کبھی کونسل مسلم لیگ‘ کبھی جناح مسلم لیگ‘ کبھی عوامی مسلم لیگ‘ کبھی آل پاکستان مسلم لیگ‘ کبھی مسلم لیگ (ن)‘ کبھی مسلم لیگ (ق) اور کبھی مسلم لیگ (ض) نکلتی رہی ہیں۔ میں نے کہا: آپ کا موازنہ درست نہیں۔ مسلم لیگ میں سے نئی پارٹیاں تو کم ہی نکلی ہیں‘ اکثر تو خود مسلم لیگ اپنا نام تبدیل کرکے نئے روپ میں آتی رہی ہے۔ اسی لیے اب اصلی مسلم لیگ کہیں دکھائی نہیں دیتی‘ جبکہ اے این سی تو اسی طرح موجود ہے۔ اے این سی نے حکمران پیدا کیے ہیں جبکہ ہمارے ہاں حکمرانوں نے مسلم لیگیں پیدا کی ہیں۔ اسی فرق کا نتیجہ ہے کہ سائوتھ افریقہ میں نیلسن منڈیلا جیسے لیڈر اور ہمارے ہاں کرپٹ‘ پیدا گیر‘ اقتدار کے لالچی اور چُوری کھانے والے مجنوں ٹائپ نابغے سیاستدان پیدا ہوتے ہیں۔ اب کس کس کا نام لوں؟

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں