اسرائیلی مظالم کے خلاف امریکی جامعات میں للکارتے طلبہ

مسئلہ فلسطین اب عربوں یا مسلمانوں کا ہی نہیں عالم انسانیت کے باضمیر انسانوں کا مسئلہ ہے۔ گزشتہ چھ ہفتوں سے امریکی جامعات میں چشمِ فلک وہ مناظر دیکھ رہی ہے جو اس نے برسوں سے نہ دیکھے تھے۔
امریکی پولیس احتجاج کرتے ہوئے یا یونیورسٹیوں کے سبزہ زاروں میں آباد خیموں کے اندر دھرنا دیتے ہوئے طلبہ و طالبات کے ہاتھ پیچھے باندھ دیتی ہے اور انہیں گرفتار کر کے لے جاتی ہے تو یہ طلبہ و طالبات ایک عجیب دھج اور شانِ دلربائی کے ساتھ مسکراتے اور ''فلسطین کو آزاد کرو‘‘ کے نعرے لگاتے ہوئے پولیس بسوں کی طرف بڑھتے ہیں۔ راستے میں اُن کے ساتھی پھولوں اور تالیوں سے انہیں رخصت کرتے ہیں اور پھر سب مل کر نعرہ لگاتے ہیں '' فری فری فلسطین‘‘۔
ان طلبہ و طالبات میں گورے امریکی‘ کالے امریکی اور ہر اوریجن سے تعلق رکھنے والے امریکی بڑی تعداد میں شامل ہوتے ہیں۔ کولمبیا یونیورسٹی نیو یارک سے شروع ہونیوالا یہ احتجاج امریکہ کی 45 ریاستوں کے 140 کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پھیل چکا ہے۔ روز بروز اس میں شدت آتی چلی جا رہی ہے گزشتہ چار پانچ روز سے اسرائیل رفح پر جو وحشیانہ بمباری کر رہا ہے اس سے طلبہ و طالبات کے غم و غصے میں بھی شدت آتی جا رہی ہے۔
دنیا چیخ رہی ہے مگر اسرائیل نے ٹینکوں اور توپوں کے بل بوتے پر زمینی حملہ کر کے غزہ اور مصر کو ملانے والے واحد رفح کراسنگ پر قبضہ کر لیا ہے۔ اس وقت تک 80 ہزار اہلِ رفح اپنے گھروں کو چھوڑنے پر مجبور ہو گئے ہیں۔وہ پناہ کی تلاش میں مارے مارے پھر رہے ہیں۔ یہ سارے مظالم دنیا کی سپر پاور اور اس کی حواری حکومتیں لائیو دیکھ رہی ہیں۔ انہوں نے ویٹو کی قوت کے ذریعے ''قیامِ امن‘‘ کے لیے قائم کی گئی یو این او کو بے بس کر دیا ہے۔ اقوام متحدہ کی انسانی خدمت پر مامور شعبے کی رپورٹ کے مطابق اس وقت تک اس ادارے کے 196 اہلکار غزہ میں خدمتِ خلق کے دوران اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر چکے ہیں۔
اہلِ فلسطین کی روز بروز بڑھتی ہوئی نسل کُشی پر ان عالمی طاقتوں کی خاموشی کی وجہ سے اب صرف امریکی ہی نہیں بلکہ یورپ اور دیگر کئی ممالک کے طلبہ و طالبات کی آتشِ غضب اور بھی بھڑک رہی ہے۔ امریکی صدر جوبائیڈن کا کہنا ہے کہ ہم اپنی یونیورسٹیوں کو کسی طرح کے یہودیت مخالف‘ اسلاموفوبیا یا عرب امریکنز کے خلاف نفرت پھیلانے کی اجازت نہیں دیں گے۔
حیرت کی بات ہے کہ امریکی صدر کو یہ معلوم نہیں کہ یہ احتجاج یہودیت کے خلاف ہے اور نہ ہی اُن کی تعلیمات کے۔ احتجاج کرنے والے طلبہ میں یہودی بھی ہیں‘ اسرائیلی بھی ہیں اور مسلمان بھی ہیں۔یہ احتجاج صرف دو باتوں کے خلاف ہے‘ ایک تو اسرائیلی حملوں کے ذریعے اہلِ فلسطین کی نسل کُشی کے خلاف‘ دوسرے تباہ حال فلسطینیوں سے اظہارِ یکجہتی کے لیے۔ ان طلبہ و طالبات کا کہنا ہے کہ کہاں ہے وہ عدل و انصاف جس کا کبھی امریکہ علمبردار ہوا کرتا تھا۔ گزشتہ سات ماہ سے اسرائیل ہر اخلاقی و عالمی اصول و ضابطے کو اپنے پاؤں تلے روند رہا ہے‘ اس کی مذمت کرنے کے بجائے امریکی حکومت اب تک اسرائیل کو300 بلین ڈالرز سے زیادہ عسکری و معاشی امداد اور مہلک ہتھیار بھیج چکی ہے۔
احتجاجی طلبہ و طالبات اسرائیلی بمباری اور ٹینکوں سے گولہ باری کے ذریعے 35 ہزار شہریوں کی اموات پر سراپا احتجاج ہیں۔ شدتِ احساس سے جلتے اور سلگتے ہوئے نوجوان تقریباً پندرہ ہزار فلسطینی پھول سے بچوں کو خاک و خون میں نہلانے پر وہ اسرائیل کی وحشیانہ کارروائیوں کو ناقابلِ معافی سمجھتے ہیں۔ ان طلبہ و طالبات کا اپنی یونیورسٹیوں سے ایک ہی اصولی مطالبہ ہے کہ وہ اُن کمپنیوں سے اپنی سرمایہ کاری نکال لیں اور اُن سے خریدے گئے شیئرز واپس کر دیں جو کمپنیاں اسرائیل کو اسلحہ سپلائی کر رہی ہیں اور غزہ میں وحشت و بربریت کی کارروائیوں میں برابر کی شریک ہیں۔
ان احتجاجوں میں امریکہ کے اعلیٰ تعلیمی ادارے شامل ہیں جن میں کولمبیا یونیورسٹی‘نیو یارک‘ ایم آئی ٹی‘ ہارورڈ‘ براؤن‘ کیلیفورنیاکی برکلے اور پرنسٹن یونیورسٹی وغیرہ سرفہرست ہیں۔ یہ احتجاجی تحریک اب امریکہ سے برطانیہ اور دیگر یورپی ممالک میں وسیع پیمانے پر پھیل چکی ہے۔ برطانیہ کی 14 یونیورسٹیوں میں بھی احتجاجوں اور دھرنوں کا سلسلہ جاری ہے جبکہ فرانس کی یونیورسٹی آف پیرس اور ساربون میں طلبہ نے فلسطینی جھنڈے لہرا دیے ہیں۔ یہاں پولیس نے 85 طلبہ و طالبات کو گرفتار کیا ہے۔ ان کے علاوہ جرمنی‘ سپین‘ نیدر لینڈز‘ فن لینڈ‘ ڈنمارک‘ فرانس‘ سوئٹزر لینڈ‘ آسٹریا اور اٹلی وغیرہ کی یونیورسٹیوں اور کالجوں میں بھی احتجاجی تحریک زوروں پر ہے ۔ برلن کی فری یونیورسٹی میں بھی طلبہ و طالبات نے شدید احتجاج کیا ہے۔ ایمسٹرڈیم میں طلبہ نے ایک یونیورسٹی کی عمارت کو اپنے قبضے میں لے کر فلسطین کی حمایت میں نعرے لگائے۔ یونیورسٹی کیمپوں میں احتجاجوں اور دھرنوں کا یہ سلسلہ لبنان اور بنگلہ دیش تک پھیل چکا ہے۔
جب تک امریکہ کی طرف سے اسرائیل کو واضح اشارہ نہیں کیا جاتا کہ Enough is Enough‘ اس وقت تک اسرائیل اپنی جارحانہ و غاصبانہ کارروائیاں جاری رکھے گا۔ بدھ کے روز اسرائیل نے رفح کراسنگ پر قبضہ کر کے مصر کے راستے دنیا بھر سے غزہ میں آنے والی امداد کو بند کر دیا ہے‘ جس کے نتیجے میں محصور فلسطینی ریاست میں پانی‘ خوراک‘ ادویات اور پٹرول وغیرہ کی شدید قلت پیدا ہو گئی ہے۔
انہی دنوں امریکی ریاست اوہائیو کی یونیورسٹی آف ٹولیڈوسے اعزاز کے ساتھ ڈگری حاصل کرنے والی ایک فلسطینی نژاد امریکی طالبہ نے لاجواب تقریر کی ہے۔ اس نے کہا کہ امریکہ کے اندر ایک ملین سے زائد ریٹائرڈ پروفیسراور سائنسدان خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ طالبہ نے چونکانے والا یہ انکشاف بھی کیا کہ ہر سال ہیلتھ کیئر نہ ملنے کی بنا پر 68 ہزارامریکی لقمۂ اجل بن جاتے ہیں۔ امریکی حکومت اُن کے لیے تو کچھ نہیں کرتی جبکہ وہ اسرائیل کو عام شہریوں کے قتلِ عام ‘ گھروں کو منہدم کرنے‘ مساجد و گرجا گھروں کو زمین بوس کرنے کے لیے اسرائیل کو 320 بلین ڈالر کی رقم دے چکی ہے‘اس امریکی اسلحے اور امداد سے صہیونی ریاست نے جنگ کی ہولناکیوں میں اور بھی اضافہ کیا ہے۔ اس امریکی طالبہ نے ایک نہایت خیال افروز بات کی ہے‘ اس نے کہا کہ تاریخ اٹھا کر دیکھ لیں طلبہ ہمیشہ تاریخ کی درست سمت پر کھڑے نظر آئیں گے۔
اس جملے میں طالبہ کا بلیغ اشارہ چھ دہائیاں قبل امریکی طلبہ و طالبات کی اس احتجاجی تحریک کی طرف ہے جس نے امریکی حکومت کو ویتنام میں جنگ بند کرنے اور وہاں سے امریکی فوجیوں کو واپس بلانے پر مجبور کر دیا تھا۔ اہم سوال یہ ہے کہ کیا امریکی طلبہ کی یہ تحریک غزہ میں جنگ بند کرانے میں کامیاب ہو جائے گی؟ جس جوش و خروش سے امریکی و یورپی طلبہ و طالبات نے انسانیت کے نام پر مسئلہ فلسطین کی اونر شپ اپنے ہاتھ میں لی ہے‘ اس سے امیدِ واثق ہے کہ یہ تحریک غزہ میں جنگ بندی اور فلسطینی ریاست کی آزادی پر منتج ہو گی ۔اس وقت اہلِ فلسطین کی حمایت میں اپنے اپنے ملکوں میں احتجاج کرنے والے مرد و زن اور پیر وجواں قابلِ صد تحسین ہیں۔ بالخصوص امریکی و یورپی اور دیگر یونیورسٹیوں کے طلبہ و طالبات اُن کروڑوں لوگوں کی طرف سے زبردست شکریے کے مستحق ہیں جو اہلِ غزہ کا دکھ درد شدت سے محسوس کرتے ہیں۔
یاد رکھئے ایک بار پھر طلبہ و طالبات تاریخ کی درست سمت پر کھڑے ہیں۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں