بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو مشکلات ہیں تو آگاہ کریں،کینسر کا مریض ہونے کے باوجود میں تو جیل میں نہیں رویا:وزیراعظم کی اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت

بانی چیئرمین پی ٹی آئی کو مشکلات ہیں تو آگاہ کریں،کینسر کا مریض ہونے کے باوجود میں تو جیل میں نہیں رویا:وزیراعظم کی اپوزیشن کو مذاکرات کی دعوت

اسلام آباد (نامہ نگار،سٹاف رپورٹر)وزیراعظم شہباز شریف نے ایک بار پھر پاکستان تحریک انصاف کو مذاکرات کی پیشکش کردی جس کے جواب میں پاکستان تحریک انصاف نے بانی پی ٹی آئی عمران خان سمیت پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی کی شرط رکھ دی۔

جبکہ مولانافضل الرحمن کا کہناتھاکہ اسٹیبلشمنٹ سیاست سے باہر ہو جائے تو سب خیر ہو جائیگی،ملٹری آپریشنز مسائل کا حل نہیں ،عوام کو تحفظ اور معاش نہیں دے سکتے توٹیکس مانگنے کا کوئی حق نہیں۔قومی اسمبلی میں سنی اتحاد کونسل کے رکن اسمبلی علی محمد خان کی طرف سے اٹھائے نکات کے جواب میں وزیراعظم  شہباز شریف نے کہا کہ اگر بانی پی ٹی آئی کو مشکلات ہیں تو بیٹھ کر بات کریں، اگر کسی کے ساتھ زیادتی ہوتی ہے تو انصاف کا پلڑا ہمیشہ بھاری رہنا چاہئے ۔ میں آج بھی کہتا ہوں ملک کی ترقی اور خوشحالی کیلئے مل بیٹھ کر بات کریں،معاملات طے کریں ، میں یہاں اپنی ذاتی تکالیف بیان کرنا نہیں چاہتا، میں بھی کینسر کا مریض ہوں میں بھی جیل میں رہا ہوں، میں نے کبھی بھی اپنا رونا جیل میں نہیں رویا۔شہبازشریف نے کہاکہ ہم نے 2018 کے جھرلو انتخابات کے باوجود نہ صرف اس کے نتائج قبول کئے بلکہ اس ایوان میں بھی آئے ،اس وقت میثاقِ معیشت کی پیشکش کو حقارت سے ٹھکرادیاگیا، جو نعرے لگائے گئے وہ ہماری تاریخ کا ایک سیاہ ترین باب ہے ، آج تلخیوں کا ذمہ دار کون ہے ؟ ،76 سال بعد ہم ایک دوسرے سے ہاتھ ملانے سے بھی جھجکتے ہیں، اسی ایوان میں تنقید کے باوجود سیاستدان ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوتے تھے ۔وزیراعظم نے کہا کہ علی محمد خان نے بہت جذباتی تقریر کی، کاش وہ میری والدہ کے انتقال کا حوالہ بھی دیتے ، جیل سپرنٹنڈنٹ کو والدہ کے انتقال کے دن چھٹی کی درخواست دی لیکن نہیں ملی، میں یہاں اپنی ذاتی تکالیف کا رونا رونا نہیں چاہتا۔ میں بھی کینسر کا مریض ہوں اور میں بھی جیل میں رہا ہوں، مجھے قیدیوں کی وین میں لایا جاتا تھا تاکہ میری کمر میں مزید تکلیف ہو، ہمیں کھانا گھر سے نہیں لانے دیا جاتا تھا، دوائیاں بند کی گئیں، ہم نہیں چاہتے کہ ان کے ساتھ اس طرح کی زیادتیاں ہوں۔ تحریک انصاف نے مذاکرات کیلئے وزیراعظم کی پیشکش پر شرائط بتادیں جس میں بانی پی ٹی آئی سمیت پارٹی رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی کو شامل کیا گیا۔اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے وزیراعظم کی پیشکش پر اپنے خطاب میں شرائط دہرائیں۔انہوں نے قومی اسمبلی میں اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ میں فارم 47 کے وزیراعظم کو کہنا چاہتا ہوں کہ بات تب ہوگی جب میرا وزیراعظم باہر آئے گا، بات تب ہوگی ،جب میرے قیدی باہر آئیں گے ۔

یہ ہاؤس اس وقت چل سکے گا جب ہمارا احترام ہوگا، انہوں نے والدہ محترمہ کے جنازے کا ذکر کیا، ہم کلثوم نواز کے جنازے میں شریک ہوئے ، میں اپنے والد کے جنازے میں شریک نہیں ہوسکا۔عمر ایوب بولے کہ مفاہمت تب ہوگی جب آپ یاسمین راشد، محمود الرشید اورحسان نیازی کیساتھ زیادتی کا احساس کریں گے ۔سپیکر ایاز صادق بولے ایسی گفتگو نہ کریں ،ماحول بہتر ہورہا تھا،عمر ایوب نے کہا کہ مجھے جواب دینے کا حق ہے ،بعدازاں سپیکر قومی اسمبلی نے کہا کہ آپ بیٹھ جائیں آپ کی بات ہوگئی ہے ، آپ کو موقع دے دیا ہے ، آپ کا جواب آگیا ہے ، آپ کے نام پر کوئی کٹ موشن نہیں ہے ۔ عمر ایوب نے اپنی تقریر جاری رکھی اور کہا کہ میرے لیڈر کو ڈیتھ سیل میں رکھا گیا جب کہ انہیں تو ایئرکنڈیشنر ملے ہوئے تھے ، استحکام اس وقت آئے گا جب بانی پی ٹی آئی وزیر اعظم ہوگا،آرمی چیف سے ملاقات میں کور کمانڈر کانفرنس بلانے کا کہا تھا، مطالبہ کیا تھا انٹیلی جنس ناکامی کا ذمہ دار کون ہے بتایا جائے ؟،عمر ایوب نے کہا کہ ملک میں عدم استحکام کی وجہ قانون کی حکمرانی نہ ہونا ہے ۔جمعیت علما اسلام (ف)کے سربراہ مولانا فضل الرحمن نے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم آپریشن کے نام پر 2010 سے مار کھا رہے ہیں،قبائلی علاقوں کو آپریشن کیلئے خالی کرایا گیا ، سوات اور قبائلی اضلاع کے عوام کے نقصانات کا ازالہ نہیں کیا گیا،انہیں مکان بنانے کیلئے 4لاکھ دئیے جارہے جس سے غسل خانہ نہیں بنتا ،ہم آپریشن عدم استحکام کی طرف جا رہے ہیں، عزم استحکام کے نام پر پتا نہیں کیا چیز شروع کردی گئی ہے ، اس سے استحکام نہیں عدم استحکام آئے گا۔ استحکام پاکستان آپریشن کے ذریعے چین کی بات پوری کی جا رہی ہے ، اس پراسٹیبلشمنٹ کا موقف واضح نہیں ہے پنگانہ لیں ۔ آپ ہزار ٹیکس لگائیں میں نے چالیس سال سیاست کی ہے ملک کے عوام کسی صورت بھی ٹیکس نہیں دیں گے کیونکہ عوام کو آپ پر اعتماد نہیں ہے ۔

حکومت کوئی بھی ہو ،حالات یہی رہیں گے ، خیبر پختونخوا میں عسکریت پسندی میں اضافہ ہورہا ہے حکومت درپیش مسائل پر توجہ دے ۔ فضل الرحمن نے کہا کہ میں 1988سے اس ایوان میں بجٹ منظور ہوتے دیکھ رہا ہوں، ہر حکومت بجٹ کو عوام دوست کہتی ہے ،اس بات کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے کہ ان تمام دعوؤں کے باوجود ملک 75 سال کے بعد معاشی طور پر کہاں کھڑا ہے ۔ ہم قوم سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ آپ ٹیکس دیں تاکہ ملک کا خزانہ اور ملکی معیشت مضبوط ہو، لیکن قوم کے بھی کچھ حقوق ہوتے ہیں جو ہمیں دینا ہوں گے ۔قوم امن، اپنی جان و مال، عزت و آبرو، انسانی حقوق کا تحفظ اور معاشی خوشحالی مانگتی ہے لیکن ا ب نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے کہ گھروں کے اندر ہماری ماں بہنوں نے اپنے زیورات بیچ دئیے ،لوگ دروازے اور کھڑکیاں بیچنے پر مجبور ہیں اور ریاست اس حد تک شقی القلب ہوچکی ہے کہ ان کو احساس تک نہیں ہے کہ یہ کیا کریں گے ،حکومت سے اختلاف رائے کرنے والے کو ملک دشمن قرار دیا جاتا ہے ۔ پاک پی ڈبلیو ڈی کو ختم کرنے سے ہزاروں ملازمین بے روزگار ہوں گے ۔ قبل ازیں وزیراعظم شہباز شریف نے اجلاس کے دوران قائد حزب اختلاف عمر ایوب خان اور مولانا فضل الرحمن سے ان کی نشست پر جا کر ملاقات کی اور ان کی خیریت دریافت کی۔ وزیر اعظم نے سابق سپیکر اسد قیصر، عامر ڈوگراور زین قریشی سے بھی ان کی نشستوں پر جاکر مصافحہ کیا۔ وزیر اعظم نے ایوان میں مصروف دن گزارا،بلوچستان سے ارکان نے خالد مگسی کی قیادت میں ان سے ملاقات کی۔ مسلم لیگ ن اور پیپلز پارٹی کی خواتین ارکان نے بھی گروپس کی شکل میں وزیر اعظم سے ملاقات کی اور تبادلہ خیال کیا۔ وزیر اعظم سے بیرسٹر عقیل ملک ،اسحاق ڈار ،طارق فضل چودھری ،اویس لغاری،اعجاز جاکھرانی ،شازیہ مری ،رانا قاسم نون اتحادی جماعتوں کے ارکان بھی ملاقاتیں کرتے رہے ۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں