پاکستان کو درپیش دہشت گردی کا مسئلہ افغانستان سے غیرملکی افواج کے اخراج اور اگست 2021ء میں کابل پر افغان طالبان کے قبضے کے بعد ایک نئے اور پیچیدہ دور میں داخل ہو گیا ہے کیونکہ پاکستان میں دہشت گردی کے خلاف فوجی آپریشنز کے بعد کالعدم ٹی ٹی پی نے بھاگ کر افغانستان میں پناہ لی تھی۔ وہاں انہیں افغان طالبان نے اپنے صفوں میں شامل کر کے امریکہ اور نیٹو فورسز کے خلاف استعمال کیا۔ اس طرح انہوں نے دنیا کی طاقتور ترین فوج کے خلاف لڑنے اور جدید اور مہلک ترین ہتھیار استعمال کرنے کی تربیت حاصل کی۔ افغانستان میں طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر صرف کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجو ہی جنگ میں حصہ نہیں لے رہے تھے بلکہ دیگر ملکوں‘ جن میں چین‘ روس‘ وسطی ایشیا اور یورپی ممالک بھی شامل تھے‘ سے ایسی مسلح تنظیمیں‘ جنہیں اپنے ملکوں میں غیرقانونی قرار دے کر ان پر پابندی لگا دی گئی تھی‘ افغان طالبان کی صفوں میں شامل ہو کر غیرملکی اور افغانستان کی نیشنل آرمی کے خلاف لڑ رہے تھے۔جنگ ختم ہونے اور کابل پر قبضہ کرنے کے بعد افغان طالبان کی عبوری حکومت نے خود اس کا برملا اعتراف کیا۔
طالبان حکومت کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد جس اہم مسئلے کا افغان طالبان کو سامنا ہے وہ یہ ہے کہ ان غیرملکی جنگجوؤں‘ جن میں ٹی ٹی پی کے لوگ بھی شامل ہیں‘ کا مستقبل کیا ہوگا۔ ترجمان نے یہ بھی کہا تھا کہ افغان عبوری حکومت کو معلوم ہے کہ ان جنگجوؤں کا ایسی تنظیموں سے تعلق ہے جنہیں اپنے ملک میں کالعدم قرار دیا جا چکا ہے اور ان میں ایسے لوگ بھی شامل ہیں جو اپنے اپنے ملکوں میں انتہائی مطلوب ہیں‘ اس لیے افغان طالبان کی حکومت انہیں زبردستی اپنے ملکوں کو واپس نہیں بھیجے گی۔ لیکن ٹی ٹی پی کے بارے میں افغان طالبان کی عبوری حکومت نے مختلف مؤقف اختیار کیا اور ان جنگجوؤں کو ان کے اہلِ خانہ سمیت‘ جن کی تعداد تقریباً40 ہزار بنتی تھی‘ پاکستان کے شمالی علاقوں میں واپس بھیجنے کا فیصلہ کیا حالانکہ ٹی ٹی پی کو پاکستان میں کالعدم قرار دے دیا گیا تھا اور اس کے بعض رہنما‘ جنہوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی تھی‘ قتل و دہشت گردی اور پاکستان کی سکیورٹی فورسز پر حملوں میں مطلوب تھے۔ پی ٹی آئی حکومت نے بھی ان جنگجوؤں کی پاکستان واپسی کے لیے کابل میں مذاکرات کیے تھے۔ ان مذاکرات کا آغاز کابل پر افغان طالبان کے قبضہ کے فوراً بعد ہو گیا تھا جن میں طالبان کی عبوری حکومت ثالثی کا کردار ادا کر رہی تھی۔ ان مذاکرات کو تقریباً تین ماہ خفیہ رکھا گیا۔ اکتوبر 2021ء میں حکومتِ پاکستان نے اس کے بارے میں انکشاف کرتے ہوئے اعتراف کیا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ عارضی جنگ بندی کے معاہدے کے تحت کالعدم ٹی ٹی پی کے جنگجوؤں کو مرحلہ وار پاکستان کے شمالی علاقوں میں آنے اور وہاں آباد ہونے کی اجازت دی جائے گی لیکن شمالی علاقوں (سابقہ فاٹا) میں ٹی ٹی پی کے مسلح جنگجوؤں کی آمد اس سے پہلے ہی شروع ہو گئی تھی اور انہوں نے آتے ہی علاقے میں حکومت کا ساتھ دینے والے قبائلی رہنما اور امن کمیٹیوں کے اراکین کو چن چن کر قتل کرنا شروع کر دیا۔ اس کے علاوہ دیگر لوگوں جن میں تاجر‘ وکیل اور سیاسی کارکن بھی شامل تھے‘ کو ہراساں کرنا شروع کر دیا۔
کالعدم ٹی ٹی پی کے مسلح جنگجوؤں کی ان کارروائیوں کے خلاف قبائلی علاقوں کے ہر بڑے شہر اور قصبے میں زبردست احتجاجی مظاہرے ہوئے جن میں زندگی کے ہر شعبے سے تعلق رکھنے والے لوگ شامل تھے۔ مظاہرین دہشت گردوں کے خلاف حکومت سے سخت اقدامات کا مطالبہ کر رہے تھے‘ لیکن ان دہشت گردوں کی کارروائیوں کا دائرہ وسیع ہوتا گیا اور اب وہ دیگر دہشت گرد تنظیموں سے مل کر ملک کے باقی حصوں خصوصاً بلوچستان اور خیبر پختونخوا میں سرگرمِ عمل ہیں۔ دہشت گردی کا مسئلہ اب مقامی نہیں بلکہ ملک گیر نوعیت اختیار کر چکا ہے‘ موجودہ حکومت نے آپریشن عزمِ استحکام کا اعلان کرتے ہوئے اسے پوری قوم کا مسئلہ قرار دیا ہے جس میں نہ صرف طاقت کے استعمال بلکہ سیاسی‘ سماجی‘ معاشی اور سفارتی پہلوؤں کو بھی مدنظر رکھتے ہوئے مؤثر کارروائی کا منصوبہ شامل ہے۔
اپنی کارروائیوں میں وسعت پیدا کرنے کے علاوہ دہشت گردوں کے حملوں میں اب پہلے سے زیادہ ربط‘ بہتر منصوبہ بندی اور حربی تربیت دیکھنے میں آئی ہے۔ اس کی وجہ افغان طالبان کے شانہ بشانہ افغانستان میں نیٹو افواج کے خلاف لڑنے سے حاصل کردہ تجربہ ہے۔ پاکستان میں اپنی کارروائیوں میں ٹی ٹی پی کے دہشت گرد وہ ہتھیار اور جنگی آلات استعمال کر رہے ہیں جو نیٹو افواج اپنے پیچھے افغانستان میں چھوڑ گئی تھیں اور جن پر افغان طالبان نے قبضہ کر لیا تھا۔ اس کی وجہ سے خیبرپختونخوا اور بلوچستان میں ٹی ٹی پی کی کارروائیاں زیادہ منظم ہو چکی ہیں۔ اس صورتحال کا مقابلہ کرنے کے لیے پاکستان کو اپنی عسکری استعداد بڑھانا پڑے گی اور ہمسایہ ممالک خصوصاً ایران اور وسطی ایشیائی ممالک کے ساتھ رابطہ اور تعاون بڑھانے کے علاوہ دوست ملکوں سے امداد بھی لینی پڑسکتی ہے۔
پاکستان میں دہشت گردی کا مسئلہ نہ صرف ہماری معیشت اور امن و امان کے لیے خطرہ بن چکا ہے بلکہ یہ علاقائی سالمیت‘ آزادی اور خود مختاری کے لیے بھی ایک سنگین چیلنج کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ علاقائی ممالک کو دہشت گردی کو صرف پاکستان کے تناظر میں نہیں بلکہ علاقائی اور بین الاقوامی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔ حکومت کو یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ نہ صرف قومی بلکہ علاقائی سطح پر بھی وہ کون سے اقدامات کیے جائیں جن کے ذریعے دہشت گردوں کو ملک کے اندر اور ہمسایہ ممالک میں موجود ان کے سہولت کاروں اور مددگاروں کی نظریاتی اور مادی امداد سے محروم کر کے الگ تھلگ کیا جا سکتا ہے۔ ہمیں تسلیم کرنا پڑے گا کہ طالبان کی گولیوں سے زیادہ طالبان کا مائنڈ سیٹ ملک اور قوم کو نقصان پہنچا رہا ہے۔ گولی کا جواب گولی سے دینے سے حملہ آور کو وقتی طور پر غیر مؤثر کیا جا سکتا ہے لیکن اگر دہشت گردوں کا مائنڈ سیٹ برقرار رہا تو ایک وقت ایسا آئے گا کہ جب گولی بھی غیر مؤثر ہو جائے گی۔ ہمیں یہ تلخ حقیقت تسلیم کر لینی چاہیے کہ گزشتہ چار دہائیوں میں انتہا پسندی کے بڑھتے ہوئے رجحان کی طرف سے آنکھیں بند کرنے سے طالبان مائنڈ سیٹ کو ملک کے ہر کونے اور معاشرے کی ہر حصے میں سرایت کرنے کا موقع ملا ہے۔ اس وقت دہشت گردوں کے ہاتھ میں سب سے زیادہ مہلک ہتھیار نیٹو کا چھوڑا ہوا جدید اسلحہ نہیں بلکہ ان کا بیانیہ ہے جس کے مقابلے میں آج تک کوئی مؤثر بیانیہ پیش نہیں کیا جا سکا۔ اس کے نتیجے میں طالبان سے زیادہ طالبان سوچ کے حامی لوگ کہیں زیادہ معاشرے کے ہر حصے میں موجود ہیں۔ جن حلقوں کا فرض ہے کہ وہ امن اور بھائی چارے کے داعی دین اسلام کی یکطرفہ اور گمراہ کن تشریح پر مبنی طالبان کے بیانیہ کے مقابلے میں اسلام کا صحیح اور سچا بیانیہ سامنے لائیں انہیں اس کے بجائے افغان طالبان سے اپنے اداراتی تعلقات کے قیام میں زیادہ دلچسپی ہے۔ ایک مؤثر کائونٹر طالبان بیانیے کی عدم موجودگی میں دہشت گردی پر مکمل طور پر قابو نہیں پایا جا سکتا کیونکہ یہ دہشت گردوں کا جسمانی طور پر قلع قمع کرنے سے زیادہ عوام کے دل و دماغ جیتنے کی جنگ ہے۔ اس جنگ میں طاقت کے استعمال سے زیادہ عوام کی حمایت اور تعاون اہم ہے۔ عوام کی حمایت اور تعاون کا حصول اس وقت تک ممکن نہیں جب تک حکومت انہیں یہ یقین نہ دلا دے اور عوام اس پر قائل نہ ہو جائیں کہ دہشت گردوں کے خلاف جو اقدامات کیے جا رہے ہیں‘ جن میں طاقت کا استعمال بھی شامل ہے‘ ان کے مفاد میں اور ان کو تحفظ دینے کے لیے ہیں۔