"KMK" (space) message & send to 7575

یہ سیاسی کالم ہرگز نہیں ہے

گزشتہ سے پیوستہ کالم کے لکھنے کے دوران ایک فارسی کہاوت کے بارے میں اشتباہ پیدا ہوا تو اسے دور کرنے کی غرض سے برادرِ گرامی ڈاکٹر معین نظامی کو میسج کیا۔ محبت میں گندھے ہوئے ڈاکٹر معین نظامی کی طبیعت میں عجیب قسم کی درویشی ہے۔لیکن اس عاجز کو فوری جواب سے نوازا۔ دنیا داری سے ایسی لاپروائی کہ موجودہ دورِ فتن کے آدمی ہی نہیں لگتے۔ ملک کے نامور تعلیمی ادارے‘ پنجاب یونیورسٹی اورینٹل کالج کے پرنسپل تھے۔ ابھی ریٹائرمنٹ میں سال باقی تھا کہ بقیہ ایک سالہ سروس کیلئے ایل پی آر کی درخواست رئیسِ جامعہ کو بھجوا دی۔ ان کی درخواست کو منظور کرنے سے قبل جامعہ کے ایک انتظامی افسر نے انہیں کہا کہ ان کا نام ایک اعلیٰ رتبے والی پوسٹ پر تقرر کیلئے طے ہو چکا ہے اور جلد ہی آرڈر ہو رہے ہیں اس لیے وہ اپنی قبل از وقت ریٹائرمنٹ موقوف کر دیں مگر معین نظامی نے کہا کہ آپ کی محبت کا شکریہ! تاہم نوازش ہو گی اگر میری ریٹائرمنٹ کی درخواست پر جلد منظوری ثبت کر دی جائے۔
بات کہیں سے کہیں چلی گئی۔ اب ایسے لوگ کیونکہ عنقا ہوتے جا رہے ہیں‘ سو ذکر چل نکلا۔ اس فارسی ضرب المثل کی درستی فرماتے ہوئے ڈاکٹر معین نظامی نے اصل ضرب المثل ''گندم اگر بہ ہم نرسد‘ جو غنیمت است‘‘ کو درست قرار دیتے ہوئے اس میں 'جو‘ کی جگہ 'بھس‘ کے استعمال کو جعفر زٹلی سے منسوب بتایا۔ ڈاکٹر معین نظامی کے مسیج نے لمحہ بھر میں مجھے 2024ء سے اٹھا کر 1716ء کے فرخ سیر کے دربار میں لاکھڑا کیا‘ جہاں جوتے کے تسمے کی مدد سے اُردو کے پہلے مزاحیہ شاعر کا گلا گھونٹا جا رہا تھا۔ جعفر زٹلی نہ صرف اُردو کا پہلا مزاحیہ شاعر تھا بلکہ اپنی طنزیہ شاعری کے سبب حاکمِ وقت کے عتاب کا نشانہ بن کر موت کی سزا پانے والا پہلا شاعر بھی تھا۔
جعفر زٹلی 1658ء میں دہلی کے نواحی گاؤں نرنیال میں پیدا ہوا‘ اس کا اصل نام محمد جعفر اور تخلص زٹلی تھا۔ میرے نہایت ہی عزیز دوست اور چھوٹے بھائیوں جیسے مزاحیہ شاعر محمد عارف‘ جو شاندار مزاحیہ شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ بہت عمدہ نثر نگار اور محقق و نقاد بھی ہے‘ نے جعفر زٹلی کے بارے میں لکھا کہ ''مرزا جعفر زٹلی کا کلام طنز‘ ظرافت‘ ہزل گوئی اور مختلف ہجویات کا مرقع ہے۔ گو کلام کا بیشتر حصہ فحاشی‘ عریانی اور پھکڑ پن پر مشتمل ہے لیکن اس کے باوجود زبان و بیان اور فن پر ان کی دسترس سے انکار ممکن نہیں۔ نظم و نثر ہر دو اصناف میں ان کے کلام کا غالب حصہ فارسی پر مشتمل ہے تاہم اُردو نظمیں اور ہجویات قابلِ غور ہیں۔ ماہرینِ نقد ونظر کے مطابق جعفر زٹلی ہی اردو کا پہلا باقاعدہ طنز ومزاح نگار شاعر قرار پاتا ہے‘‘۔
جیسا کہ محمد عارف نے لکھا کہ جعفر زٹلی کے کلام میں پھکڑپن بدرجہ اتم موجود تھا اور یہی بات محترمی ڈاکٹر معین نظامی نے اپنے میسج میں لکھی کہ جعفر زٹلی نے فارسی محاورے میں ''جو کی جگہ پر بھس‘‘ بھر کر اپنی خاص جودتِ طبع کا مظاہرہ کیا۔ اس نئی صورت کا محلِ استعمال زیادہ تر طنزیہ‘ مزاحیہ اور پھکڑیہ ہو گیا‘‘ اور میرا ذاتی خیال ہے کہ جعفر زٹلی کو اپنے کلام میں پھکڑ پن کا ادراک بھی تھا اور احساس بھی‘ کہ خود اپنے لیے زٹلی تخلص کا انتخاب اس کی نشاندہی کرتا ہے۔ زٹلی کا لغوی مطلب بے ربط گفتگو کرنے والا‘ جھک مارنے والا یا فضولیات بکنے والا ہے۔ زندگی کا بیشتر حصہ دہلی میں گزارنے والے جعفر زٹلی نے لکھنے کا آغاز کیا تو یہ اورنگزیب عالمگیر کا دورِ حکومت تھا اور مغلیہ سلطنت کے زوال کا آغاز ہو چکا تھا۔ اس دور میں جعفر زٹلی نے اپنی طنزیہ صلاحیتوں کو حاکم وقت اورنگزیب پر تنقید کرتے ہوئے کڑی شدت سے استعمال کیا۔ اس زمانے میں دربار کی زبان چونکہ فارسی تھی اس لیے اس کی شاعری میں فارسی الفاظ بکثرت ملتے ہیں۔ جعفر زٹلی نہ صرف یہ کہ اُردو طنزیہ اور مزاحیہ شاعری کا بلکہ ذو لسانی مزاحیہ شاعری کا بھی بانی ہے۔ اس نے اُردو اور فارسی کے امتزاج سے جس طرزِ کلام کی بنیاد رکھی تھی‘ بعد میں بہت سے شعرا نے اس کی تقلید کرتے ہوے مختلف زبانوں کے امتزاج سے مزاح کی آبیاری کی۔
اورنگزیب کے بعد مغلیہ خاندان کی باہمی ریشہ دوانیوں‘ بدانتظامی اور عیاشی نے اس زوال کی رفتار بڑھا دی۔ اورنگزیب کی وفات کے بعد اس کا بیٹا اعظم شاہ بادشاہ بن گیا۔ مرزا ابو الفیاض قطب الدین محمد اعظم شاہ 14 مارچ 1707ء سے 20 جون 1707ء تک محض تین ماہ حکمران رہا۔ اسے تین بیٹوں سمیت اسکے سوتیلے بھائی مرزا محمد معظم شاہ عالم المعروف بہادر شاہ اول نے جنگ میں شکست دینے کے بعد قتل کر دیا۔ بہادر شاہ اول کے بعد اس کا بیٹا مرزا معز الدین بیگ محمد خان المعروف جہاندار شاہ تخت نشین ہوا۔ مغلیہ حکومت جیسے جیسے سکڑ رہی تھی ویسے ویسے حکمرانوں کے نام اور خطابات بڑھتے جا رہے تھے۔ جہاندار شاہ اپنے طاقتور درباری اور میر بخشی ذوالفقار خان کی مدد سے تخت نشین ہوا مگر ایک سال سے بھی کم عرصے میں وہ اقتدار اور جان‘ دونوں سے فارغ ہو گیا۔ جہاندار شاہ کے بھتیجے معین الدین محمد فرخ سیر نے مغلیہ حکمرانوں اور دربارِ دہلی کو کٹھ پتلیوں کی طرح چلانے والے سید برادران کے نام سے مشہور دو درباریوں‘ حسین علی خان اور عبداللہ خان کی مدد سے جہاندار شاہ اور ذوالفقار خان کو قتل کر کے اقتدار سنبھالا تو اس کا سکہ مسکوک ہوا‘ جس پر کسی شاعر نے تعریفی شعر کہا:
سکہ زد از فضلِ حق بر سیم و زر
بادشاہِ بحر و بر فرخ سیر
اس شعر پر جعفر زٹلی نے لوگوں کو تسمے سے گلا گھونٹ کر مروانے‘ آنکھیں نکلوانے اور زبانیں کٹوانے میں شہرت رکھنے والے فرخ سیر کے ظلم وستم‘ رعب اور دبدبے سے بے خطر ہو کر جوابی شعر کہہ دیا
سکہ زد بر گندم و موٹھ و مٹر
بادشاہے تسمہ کش فرخ سیر
(سکے سونے چاندی سے بنتے ہیں مگر اس بے حیثیت (تسمہ کش) بادشاہ فرخ سیر نے گندم‘ موٹھ اور مٹر کے سکے چلا دیے ہیں)
شعر تو عوام میں بہت مقبول ہوا مگر اس کا عوضانہ جعفر زٹلی نے اپنی جان سے دیا۔ ڈاکٹر محمد فیروز دہلوی کے بقول ''اُردو میں جعفر زٹلی ایسے پہلے شاعر ہیں جنہوں نے سلطنت مغلیہ کی اکھڑی ہوئی مرکزیت‘ حاکموں کی بے انصافی‘ ظلم و ستم‘ معاشی بدحالی‘ ہنر مندوں کی رسوائی‘ بگڑے اخلاق و کردار کو طنزیہ اور انتہائی جارحانہ انداز میں نظم کیا۔ ایسا جارحانہ انداز جسے برہنہ گفتاری ہی کہا جا سکتا ہے‘‘۔اوپر بیان کردہ حال اور جعفر زٹلی کے یہ تین اشعار دیکھیں تو لگتا ہے کہ یہ سرا سر ہمارے موجودہ حال کا تذکرہ ہے۔
گیا اخلاص عالم سے عجب یہ دور آیا ہے
ڈرے سب خلق ظالم سے عجب یہ دور آیا ہے
نہ بولے راستی کوئی‘ عمر سب جھوٹ میں کھوئی
اتاری شرم کی لوئی عجب یہ دور آیا ہے
سپاہی حق نہیں پاویں‘ نت اٹھ اٹھ چوکیاں جاویں
قرض بنیوں سے لے کھاویں عجب یہ دور آیا ہے
ظالم و جابر فرخ سیر کے دورِ حکومت کے بارے میں اتنا واضح اور بھرپور وار کرنا صرف جعفر زٹلی کا حوصلہ تھا۔ اس کے شعر کے دوسرے مصرعے ''بادشاہے تسمہ کش فرخ سیر‘‘ کے عین مطابق اسے دربار میں تسمے سے گلا گھونٹ کر موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ آج تین سو آٹھ سال ہو گئے ہیں مگر جعفر زٹلی اُردو ادب میں حکمرانوں کے خلاف ایک استعارے کے طور پر زندہ ہے۔مجھے یقین ہے کہ اگر مرزا جعفر زٹلی اینٹی اسٹیبلشمنٹ نہ ہوتا تو فرخ سیر کے دربار میں ملک الشعرا ہوتا۔
کالم تمام ہوا۔ ہر بات میں سیاست تلاش کرنیوالوں سے گزارش ہے کہ خدا را وہ اس کالم میں سیاست تلاش نہ کریں کہ یہ سیاسی کالم ہرگز نہیں ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں