بعض روایات میں ہے: ''تُبَّع‘‘ کعبۃ اللہ کو ڈھانے کے ارادے سے آیا تھا‘ اس دوران اُسے ایک لاعلاج بیماری لاحق ہو گئی‘ پھر اُسے ایک دانا شخص نے بتایا کہ برُے ارادے کو دل سے نکال دو‘ تمہیں شفا مل جائے گی اور ایسا ہی ہوا۔ پھر اُسے نبی آخر الزماں علیہ الصلوٰۃ والسلام کی ممکنہ آمد کے بارے میں معلوم ہوا تو وہ اسلام لے آیا‘ اس نے آپﷺ کیلئے مدینہ طیبہ میں ایک دو منزلہ گھر بنایا اور آپﷺ کے نام ایک مکتوب لکھا۔ حمد وصلوٰۃ کے بعد تبع حِمیری نے لکھا: ''میں آپ اور آپ پر اُتاری گئی کتاب پر ایمان لایا‘ میں آپ کے دین اور سنّت پر ہوں‘ میں آپ کے اور سب کے ربّ پر ایمان لایا۔ آپ اپنے ربّ کی طرف سے جو احکام لے کر آئیں گے‘ میں اُن سب پر ایمان لایا۔ اگر میں نے آپ کا زمانہ پایا تو بہت اچھا ہو گا اور اگر میں نے آپ کا زمانہ نہ پایا تو آپ میری شفاعت فرمانا اور قیامت کے دن مجھے بھول نہ جانا‘ کیونکہ میں آپ کی امت کے اوّلین میں سے ہوں۔ آپ کی آمد سے پہلے میں نے آپ کی بیعت کی‘ میں آپ اور آپ کے والد ابراہیم علیہ السلام کی ملّت پر ہوں‘‘۔ پھر اس نے خط کے آخر میں اس نقش کی مہر لگائی: ''اول وآخر بادشاہت اللہ کیلئے ہے‘‘ اور خط کا عنوان یہ لکھا: ''اللہ کے نبی‘ اس کے رسول‘ خاتم النبیین رسولِ ربّ العالمین کے نام تُبَّعِ اول کی جانب سے‘‘ (تفسیر قرطبی‘ جز: 16‘ ص: 146)۔
امام ابن عساکر لکھتے ہیں: ''پھر تُبَّع مدینہ منورہ گیا اور وہاں سے ہندوستان کے کسی شہر میں چلا گیا اور وہیں فوت ہو گیا۔ تُبَّع کی وفات کے ٹھیک ایک ہزار سال بعد ہمارے نبی سیدنا محمدﷺکی ولادت ہوئی۔ ہجرت کے وقت جن اہلِ مدینہ نے نبیﷺکی نصرت کی تھی‘ وہ سب ان علما کی اولاد میں سے تھے جو مدینہ منورہ میں تُبَّع کے بنائے ہوئے گھروں میں رہتے تھے۔ جب رسول اللہﷺ مدینہ پہنچے تو وہ لوگ آپ کی اونٹنی کے گرد آکر اکٹھے ہو گئے اور ہر ایک آپﷺ کو اپنے گھر لے جانے پر اصرار کرنے لگا۔ آپﷺنے فرمایا: ''اس اونٹنی کو چھوڑ دو‘ یہ اللہ تعالیٰ کے حکم کی پابند ہے‘‘ حتیٰ کہ وہ اونٹنی حضرت ابو ایوب انصاریؓ کے گھر کے سامنے آ کر بیٹھ گئی اور نبیﷺ نے ان کے گھر پر قیام فرمایا۔ حضرت ابو ایوب انصاریؓ کا نام خالد بن زید تھا‘ آپؓ اُس عالِم کی اولاد سے تھے جس نے خیر خواہی کے جذبہ سے تُبَّع کو نصیحت کی تھی اور اس کو کعبہ منہدم کرنے کے ارادہ سے باز رکھا تھا۔ رسول اللہﷺ حضرت ابو ایوبؓ کے جس گھر میں ٹھہرے تھے‘ یہ تُبَّع ہی کا بنایا ہوا تھا‘‘ (تاریخ دمشق الکبیر‘ ج: 11‘ ص: 67 تا 77‘ خلاصہ)۔
یہ وہی تُبَّع ہے جس نے سب سے پہلے بیت اللہ کو غلاف چڑھایا اور اہلِ مکہ کو کعبہ کی حفاظت کرنے کا حکم دیا۔ ایک روایت میں ہے: ''حضرت اسماعیل علیہ السلام نے سب سے پہلے کعبہ کو غلاف چڑھایا‘ ایک روایت کی رُو سے سب سے پہلے آپﷺکے جدِّ اعلیٰ عدنان بن اُدّ نے چڑھایا۔ وَاللّٰہُ اَعْلَمُ بِالصَّوَاب۔ امام راغب اصفہانی لکھتے ہیں: ''کعب کے لفظی معنی ہیں: ''ابھری ہوئی چیز‘‘ چونکہ بیت اللہ بھی مکۂ مکرمہ میں پہاڑوں کے درمیان ہموار جگہ پر اٹھتی ہوئی عمارت تھی‘ اس لیے اسے ''کعبۃ اللہ‘‘ کہا گیا اور یہ نام قرآنِ کریم میں بھی مذکور ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''اللہ تعالیٰ نے حرمت والے گھر کعبہ کو لوگوں کیلئے قیام (امن اور بقا) کا ذریعہ بنایا ہے‘‘ (المائدہ: 97) یعنی اس کعبۃ اللہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ یہاں کے رہنے والوں کو فراخی عطا فرمائے گا‘ یہ اقوامِ عالَم کے درمیان ان کی عزت وسرفرازی کا باعث بنے گا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا بھی قرآنِ کریم میں مذکور ہے: ''اور یاد کرو جب ہم نے (مکۂ مکرمہ میں) اس گھر کو لوگوں کا مرجع اور جائے امن بنایا اور حکم دیا کہ مقامِ ابراہیم کو جائے نماز بنائو اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل (علیہما السلام) کو تاکیداً حکم دیا کہ تم دونوں میرے گھر کو طواف کرنے والوں‘ اعتکاف کرنے والوں اور رکوع وسجود کرنے والوں کیلئے پاک رکھو اور یاد کرو جب ابراہیم نے دعا کی: اے میرے پروردگار! اس (شہرِ مکہ) کو امن کا شہر بنا اور اس کے رہنے والوں میں سے جو اللہ اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتے ہوں‘ ہر طرح کے پھلوں سے روزی عطا فرما۔ اللہ نے فرمایا: (یقینا میں سب کو رزق دوں گا‘ البتہ) اور جو کفر کرے تو میں اُس کو بھی قلیل (مدت کے لیے) فائدہ دوں گا‘ پھر میں اسے آگ کے عذاب کی طرف دھکیل دوں گا اور وہ بدترین ٹھکانا ہے‘‘ (البقرہ: 125 تا 126)۔ یہاں قرآنِ کریم نے یہ بتایا: دنیاوی نعمتیں تو امتحان یا اتمامِ حجت کے طور پر سب کو عطا کی جاتی ہیں‘ لیکن دینی پیشوائی اور امامت صرف انہیں عطا کی جائے گی جو اس کے حق دار ہیں۔ قرآنِ کریم کی سورۂ الفیل میں 'اصحابِ فیل‘ کا بھی ذکر ہے۔ یمن کے بادشاہ ابرہہ نے بیت اللہ کے مقابل یمن میں ایک عبادت گاہ (کلیسا) بنائی تاکہ وہ لوگوں کی توجہات کا مرکز بنے اور بیت اللہ کی مرکزیت ختم ہو جائے‘ لیکن جب اس کی یہ مراد پوری نہ ہوئی تو اس نے ہاتھیوں کا لشکر لے کر بیت اللہ پر چڑھائی کر دی تاکہ وہ اسے العیاذ باللہ مسمار کر دے‘ لیکن وہ اپنی سازش میں ناکام رہا۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''کیا آپ نے نہیں دیکھا کہ آپ کے رب نے ہاتھی والوں کے ساتھ کیسا سلوک کیا‘ کیا اُس نے ان کے (پورے) منصوبے کو غارت نہیں کر دیا اور اس نے ان پر پرندوں کے جھنڈ کے جھنڈ بھیجے جو اُن پر پکی ہوئی مٹی کی پتھریاں مار رہے تھے‘ پس اُس نے انہیں کھائے ہوئے بھوسے کی طرح کر دیا‘‘ (الفیل: 1 تا 5)۔
الغرض انسانوں میں وحدت قائم کرنے کیلئے کئی حوالے ہوتے ہیں‘ مثلاً: نسب ونسل‘ رنگ و وطن وغیرہ۔ لیکن اصل اتحاد نظریاتی ہوتا ہے جو نسب ونسل اور رنگ ووطن کے امتیازات سے بالاتر ہوتا ہے اور سب کو ایک رنگ میں رنگ دیتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: ''(حقیقی اور پائدار) رنگ اللہ کا ہے اور اللہ سے زیادہ حسین رنگ اور کس کا ہو سکتا ہے‘‘ (البقرہ: 138)۔ اللہ کے رنگ سے مراد کوئی ایسا رنگ نہیں ہے جو حسّی طور پر نظر آئے‘ بلکہ اس سے مراد اللہ کا دین ہے‘ وہ فطرتِ سلیم ہے جس پر اللہ نے انسان کو پیدا کیا ہے یا اس سے مراد سنّتِ الٰہیہ ہے اور یہ رنگ انسان کے دل ودماغ‘ احساسات‘ رگ وپے اور روئیں روئیں میں ثبت ہوتا ہے‘ اسے مٹایا نہیں جا سکتا۔ اس کے برعکس مسیحی بچے کو کلیسا میں لے جاتے ہیں‘ پوپ اس پر رنگین پانی چھڑکتا ہے اور یہ فرض کر لیا جاتا ہے کہ اُس کا سارا پاپ دُھل گیا ہے اور وہ پاک وصاف ہو گیا ہے۔ جبکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق بچہ پاک نفس‘ پاک روح اور پاک فطرت لے کر پیدا ہوتا ہے اور پھر اُس کا ماحول اُسے بناتا یا بگاڑتا ہے۔
ایمانیات کا تعلق تو دل ودماغ سے ہے‘ اس دنیا میں وحدت کیلئے کچھ مظاہر بھی درکار ہوتے ہیں۔ پس اللہ تعالیٰ نے اپنی حکمت سے کعبہ کو مسلمانوں کیلئے وحدت اور مرکزیت کی علامت بنا دیا ہے۔ اسی لیے مسلمانوں کو 'اہلِ قبلہ‘ کہا جاتا ہے۔ قبلہ سے مراد جہتِ عبادت ہے‘ یعنی اللہ تعالیٰ کی عبادت کے وقت جس طرف رُخ کیا جائے‘ وہ قبلہ ہے۔ چنانچہ رسول اللہﷺ نے مسلمانوں کی ظاہری علامات میں قبلے کو بھی بیان فرمایا: ''جس نے ہماری طرح نماز پڑھی اور (نماز کے وقت) ہمارے قبلے کی جانب رخ کیا اور ہمارا ذبیحہ کھایا‘ تو یہ وہ مسلمان ہے کہ جس کیلئے اللہ اور اُس کے رسول کا ذمہ ہے‘ سو اللہ کے عہد کو نہ توڑو‘‘ (بخاری: 391)۔ یعنی ان ظاہری علامات کے ہوتے ہوئے اُسے اس وقت تک مسلمان تسلیم کیا جائے گا‘ جب تک کہ اس کے برعکس شواہد اور حقائق سامنے نہ آئیں۔ اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ کامل مسلمان ہونے کیلئے صرف عبادت کے وقت قبلہ رُخ ہونا کافی ہے‘ بلکہ ایمان اور اسلام ایک جامعیت اور کُلّیت کا نام ہے‘ اس لیے اسے اجزا میں تقسیم نہیں کیا جا سکتا۔ اسلام کے بنیادی عقائد اور ضروریاتِ دین میں سے کسی ایک چیز کے انکار سے بھی ایک شخص دائرۂ اسلام سے خارج ہو جاتا ہے۔ الغرض مسلمان ہونے کیلئے کل دین کو ماننا ضروری ہے‘ جبکہ اسلام سے خارج ہونے کیلئے کسی ایک بنیادی عقیدے کا انکار بھی کافی ہے۔