مخصوص نشستیں: الیکشن کمیشن نے غیر آئینی کام کیا تو اڑا دینگے: چیف جسٹس

مخصوص نشستیں: الیکشن کمیشن نے غیر آئینی کام کیا تو اڑا دینگے: چیف جسٹس

اسلام آباد(دنیا نیوز،مانیٹرنگ ڈیسک)سپریم کورٹ میں سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں سے متعلق کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے ریمارکس دئیے کہ الیکشن کمیشن نے کچھ غیر آئینی کیا ہے تو بالکل اڑا دیں گے، الیکشن کمیشن حقیر ادارہ نہیں نہ ہی سپریم کورٹ کے ماتحت ہے۔

جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا 2019 کو بی اے پی کو مخصوص نشستیں کیسے دیں جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے جواب دیتے کہا وہ فیصلہ قانون کے مطابق نہیں تھا۔ سپریم کورٹ نے 2018 میں مخصوص نشستوں کی الاٹمنٹ سے متعلق الیکشن کمیشن سے فارمولا اور دستاویزات طلب کرلیں۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں جسٹس منصور علی شاہ، جسٹس منیب اختر، جسٹس یحیی آفریدی، جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس عائشہ ملک، جسٹس اطہر من اللہ، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس عرفان سعادت خان اور جسٹس نعیم اختر افغان پرمشتمل 13 رکنی فل کورٹ نے کیس کی سماعت کی، سنی اتحاد کونسل اور الیکشن کمیشن کے وکلا نے دلائل دئیے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے وکیل الیکشن کمیشن سکندر بشیر سے استفسار کیا کہ بتائیں غلطی کہاں اور کس نے کی؟وکیل نے بتایا کہ کاغذات نامزدگی میں بلینک کا مطلب آزاد امیدوار ہے، پی ٹی آئی نے فارم 66 بائیس دسمبر اور پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ 13 جنوری کو جاری کئے، پی ٹی آئی کو پارٹی سے وابستگی سرٹیفکیٹ تو کاغذات نامزدگی کے ساتھ لگانا چاہیے تھے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ بتا دیں پی ٹی آئی کے کاغذات نامزدگی میں لکھا ہے کہ سرٹیفکیٹ منسلک ہیں، وکیل سکندر بشیر نے کہا الیکشن کمیشن نے 23 دسمبر کو فیصلہ کیا جو پہلے آیا، اس کے بعد پشاور ہائی کورٹ نے فیصلہ دیا۔جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا کہ آپ کہہ رہے کہ سرٹیفکیٹ غلط ہیں کیونکہ تب تک چیئرمین تحریک انصاف کا انتخاب نہیں ہوا تھا؟وکیل سکندر بشیر نے کہا سرٹیفکیٹ جمع کراتے وقت جب چیئرمین پی ٹی آئی منتخب نہیں ہوئے تو کاغذات نامزدگی درست نہیں، کاغذات نامزدگی میں حامد رضا نے سنی اتحاد کونسل سے وابستگی ظاہر کی، حامد رضا کو بطور چیئرمین سنی اتحاد کونسل خودکو ٹکٹ جاری کرنا چاہیے تھا۔الیکشن کمیشن کے وکیل کا مزید کہنا تھا کہ حامد رضا نے 22 دسمبر کو کاغذات نامزدگی جمع کرائے اور خود کو سنی اتحاد کونسل کا امیدوار کہا، حامد رضا نے کاغذات نامزدگی میں بریکٹ میں لکھا کہ اتحاد تحریک انصاف سے ہے ، حامد رضا نے پارٹی سے وابستگی 13 جنوری کو جمع کرائی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا الیکشن کمیشن کی تاریخ سے قبل پارٹی سے ڈیکلریشن دینی چاہیے، نشان بعد کی بات ہے، وکیل سکندر بشیر نے بتایا حامد رضا کی ہر دستاویز انکی پچھلی دستاویز سے مختلف ہے۔

جسٹس جمال مندوخیل نے کہا حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفکیٹ دینا چاہیے تھا یا آزادامیدوار کا؟ وکیل نے کہا حامد رضا کو سنی اتحاد کونسل کا سرٹیفکیٹ جمع کرانا چاہیے تھا۔جسٹس علی مظہر نے کہا ڈیکلریشن میں تو حامد رضا نے خود کو تحریک انصاف کا ظاہر کیا نہ کہ آزاد امیدوار۔وکیل نے مزید بتایا کہ الیکشن کمیشن کا فیصلہ 22 دسمبر کو آیا، 10 جنوری کو پشاور ہائی کورٹ کا فیصلہ آیا اور 13 جنوری کو سپریم کورٹ نے فیصلہ سنایا، 8 فروری کو تحریک انصاف نے انٹراپارٹی انتخابات بارے الیکشن کمیشن کو بتایا، اگر 7 فروری کو بھی تحریک انصاف انٹراپارٹی انتخابات کا بتا دیتی تو کچھ ہو سکتا تھا۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا اگر ایسا تحریک انصاف کرتی تو الیکشن کمیشن کا اپنا شیڈول متاثر ہو جاتا۔چیف جسٹس نے کہا پی ٹی آئی انٹرا پارٹی انتخابات کا معاملہ تو کئی سال قبل سے آ رہا تھا، تحریک انصاف بار بار انٹرا پارٹی انتخابات کیلئے وقت مانگ رہی تھی، سپریم کورٹ پر مت ڈالیں، الیکشن کمیشن پہلے دیکھ سکتا تھا، فٹبال کی طرح ایکسٹرا ٹائم کو دیکھ رہے ، اصل گیم 90 منٹ کی ہوتی ہے۔جسٹس منیب اختر نے کہا سوال تھا انتخابات جائز ہوئے یا نہیں، 22 دسمبر کو جب نشان لے لیا تو مطلب انتخابات کیلئے پارٹی ہے ۔

چیف جسٹس نے کہا تسلیم شدہ بات ہے کہ تحریک انصاف سال کا وقت لینے کے باوجود انٹراپارٹی انتخابات نہیں کرا سکی، بطور وزیراعظم درخواست دی کہ انٹراپارٹی انتخابات کیلئے سال دے دو۔الیکشن کمیشن نے فراخدلی کا مظاہرہ کیا ،جسٹس جمال مندوخیل نے کہا اصل چیزپارٹی ٹکٹ ہے جونہ ہونے پرامیدوارآزاد تصورہوگا،وکیل سکندربشیرنے کہا اس معاملے پرمیں اورآپ ایک پیج پرہیں ، جس پرجسٹس جمال مندوخیل نے کہا پیج پھاڑ دیں مجھے ایک پیج پرنہیں رہنا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا امیدوار علی محمد خان نے سرٹیفکیٹ نہ ڈیکلریشن میں کچھ لکھا ، ایسے بے شمار ہیں جو کاغذات نامزدگی میں بلینک ہیں۔دوران سماعت وکیل سکندر بشیر کو پی ٹی آئی رہنما کنول شوذب کا صحیح نام لینے میں دشواری پیش آئی، وکیل الیکشن کمیشن نے عدالت کو بتایا میری اردو کچھ کمزور ہے ، صاحبزادہ کو شہزادہ کہہ دیتاہوں۔وکیل نے بتایا کنول شوذب کی درخواست پر سماعت نہیں ہونی چاہیے ، وہ فیصلے سے متاثر نہیں ہوئیں، کنول شوذب تحریک انصاف میں ہیں، خواتین ورکرز ونگ کی سربراہ ہیں۔4 لوگ ممبر قومی اسمبلی بطور آزاد امیدوار منتخب ہوئے لیکن سنی اتحاد کونسل میں ضم نہیں ہوئے ۔

جسٹس یحیی آفریدی نے استفسار کیا الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق 6 امیدواروں نے پی ٹی آئی کا سرٹیفکیٹ دیا لیکن وہ آزاد امیدوار کیسے قرار پائے ؟جسٹس منیب اختر نے دریافت کیا الیکشن کمیشن کے مطابق کتنے امیدواروں کا سرٹیفکیٹ اور ڈیکلریشن منظور ہوا؟ جس پر وکیل الیکشن کمیشن نے بتایا سب آزاد امیدوار ہی رہے ۔جسٹس منیب اختر نے کہا آزاد امیدواروں کے پاس اختیار ہے کہ تین روز میں کسی سے منسلک ہو جائیں، سب معاملہ حل ہوجائے گا۔جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا بی اے پی کو2019 میں الیکشن لڑے اور فہرست جمع کرائے بغیرکے پی میں مخصوص نشست کیسے ملی؟ وکیل نے جواب دیا موجودہ الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ وہ فیصلہ قانون کے مطابق نہیں تھا۔بی اے پی کو نشستیں دینے کے معاملے پر کوئی سماعت نہیں ہوئی تھی۔جسٹس عائشہ ملک نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن ایک معاملے پر دو مختلف موقف کیسے لے سکتا ہے ؟ وکیل نے بتایا موجودہ الیکشن کمیشن نے تمام فریقین کو سن کر فیصلہ کیا۔جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا بلوچستان عوامی پارٹی کو مخصوص نشستیں ملیں تو انتخابات میں سیٹیں جیتی تھیں؟ کوئی ایسا قانون ہے کہ ایک صوبے میں سیٹیں جیتی ہوں تو دوسرے صوبے میں نہیں مل سکتیں؟جسٹس منصور شاہ نے کہا ہر انتخابات الگ ہوتے ہیں، اگر کہا جائے کہ 8 فروری کو 5 انتخابات ہوئے تو کیا درست ہے ؟ وفاق اور صوبائی انتخابات الگ الگ ہوتے ہیں۔اسی کے ساتھ الیکشن کمیشن کے وکیل سکندر بشیر مہمند نے اپنے دلائل مکمل کر لئے ۔

جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ کیا بیرسٹر گوہرموجود ہیں؟ سوال پر گوہر خان روسٹرم پر آگئے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے دریافت کیا کہ آپ سے پہلی سماعت پر پوچھا کیا پی ٹی آئی کے ڈیکلریشن، سرٹیفکیٹ جمع کرائے تو آپ نے ہاں کہا، لیکن الیکشن کمیشن کے ریکارڈ کے مطابق چند کاغذات نامزدگی میں جمع ہیں چند میں نہیں، کون سا بیان آپ کا درست ہے ؟اس پر گوہر خان نے جواب دیا کہ ہر امیدوار دو، دو فارم جمع کرا سکتا ہے ، میں نے آزاد امیدوار اور تحریک انصاف کے جمع کرائے ، الیکشن کمیشن ایک فارم لایا، تحریک انصاف کے فارم بھی منگوائیں۔جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ انتخابات تو ایک پر لڑنا ہے ، دو کیسے لکھ لئے آپ نے ؟گوہر خان نے کہا ایک حلقے کیلئے چار کاغذات نامزدگی جمع ہوتے ، کوورنگ امیدوار بھی ہوتا، میں نے الگ الگ پارٹیوں سے کاغذات نامزدگی جمع نہیں کرائے ، 22 دسمبر 4 بجے سرٹیفکیٹ پہنچا دئیے تھے ، الیکشن کمیشن کا فیصلہ رات 9 بجے آیا، الیکشن کمیشن نے زیادہ تر ریکارڈ سپریم کورٹ کو دیا نہیں۔معاون وکیل نے کہا فاروق نائیک عدالت نہیں پہنچ سکے ، پیپلزپارٹی کے وکیل اور شہزاد شوکت نے مخدوم علی خان کے دلائل اپنا لئے ۔کامران مرتضیٰ ایڈووکیٹ نے کہا جے یو آئی ف الیکشن کمیشن کے دلائل اپنا رہی ہے ، اقلیتوں کی پارٹی میں شمولیت بارے مس پرنٹ ہوا تھا جس سے غلط فہمی پیدا ہوئی، اقلیتوں بارے الگ سیکشن موجود ہے ۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ کیا الیکشن کمیشن نے درست کام کیا ہے ؟ کامران مرتضیٰ نے ہنستے ہوئے جواب دیا کہ جی ہاں، الیکشن کمیشن نے بالکل ٹھیک کام کیا ہے ۔

جسٹس منیب اختر نے مولانا فضل الرحمان کی نیوز کانفرنس کی طرف اشارہ کرتے کہا کہ کل ٹی وی پر پریس کانفرنس چل رہی تھی، آپ کا موقف تو اس سے بالکل مختلف ہے ۔مسلم لیگ (ن) کے بیرسٹر حارث عظمت نے تحریری دلائل جمع کرا دئیے تاہم عدالت نے مولوی اقبال حیدر کو دلائل سے روک دیا، چیف جسٹس نے ریمارکس دئیے کہ آپ نے الیکشن نہیں لڑا تو آپ ہمارے لئے کوئی نہیں ہیں، اپنا کیس چلانا ہو تو کالا کوٹ نہیں پہن سکتے ۔ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے دلائل کا آغاز کرتے کہا عدالتی نوٹس پر بطور ایڈووکیٹ جنرل دلائل دوں گا، متفرق درخواست میں تحریری دلائل جمع کرا چکا ہوں، الیکشن کمیشن کے کنڈکٹ سے مطمئن نہیں ۔جسٹس جمال مندوخیل نے سوال کیا کہ آپ کہنا چاہتے ہیں کہ کے پی میں انتخابات درست نہیں ہوئے ؟ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے کہا فیصل صدیقی کے دلائل سے اتفاق کرتا ہوں، گزشتہ انتخابات میں کے پی میں بی اے پی نے انتخابات میں حصہ نہیں لیا تھا، بی اے پی کے پاس صوبے میں کوئی جنرل نشست نہیں تھی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا بی اے پی میں تین افراد نے شمولیت اختیار کی تھی،ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ آزاد کی شمولیت پر الیکشن کمیشن نے بی اے پی کو مخصوص نشست دی تھی۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا بی اے پی کی بلوچستان میں حکومت تھی، قومی اسمبلی میں ارکان اسمبلی بھی تھے، ایڈووکیٹ جنرل نے کہا الیکشن کمیشن نے بی اے پی کیلئے باقاعدہ نیا شیڈول جاری کیا تھا۔

جسٹس منیب اختر نے کہا الیکشن کمیشن نے پہلے اور اب مختلف موقف اپنایا، الیکشن کمیشن آج کہتا ہے گزشتہ انتخابات میں کیا گیا فیصلہ غلط تھا۔جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا کے پی حکومت نے اس وقت یہ فیصلہ چیلنج کیا تھا؟ اگر چیلنج نہیں کیا تھا تو بات ختم، پی ٹی آئی کے 2018 میں بھی پارٹی انتخابات نہیں ہوئے تھے ، تب انتخابی نشان کیسے ملا تھا؟ چیف جسٹس نے کہا بی اے پی کا معاملہ دیکھیں توچیئرمین سینیٹ کا الیکشن بھی پھرغلط تھا،پچھلی باتیں کھولنے پرآئیں توبہت کچھ سامنے آجائے گا ۔ایڈووکیٹ جنرل کے پی نے بتایا کہ بی اے پی نے کے پی اسمبلی کیلئے کوئی فہرست جمع نہیں کرائی تھی، چیف جسٹس نے کہا مجھے آپ کی بات سمجھ نہیں آ رہی جس پر ایڈووکیٹ جنرل نے کہا جو فارمولا الیکشن کمیشن نے پہلے اپنایا تھا اب کیوں نہیں اپنایا جا رہا۔اسی کے ساتھ ایڈووکیٹ جنرل خیبرپختونخوا کے دلائل مکمل ہوگئے ۔پنجاب اور بلوچستان حکومت نے اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لئے جبکہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد نے بھی اٹارنی جنرل کے دلائل اپنا لئے ، معطل شدہ ارکان اسمبلی کے وکیل شاہ خاور نے تحریری دلائل جمع کرا دئیے ۔اس موقع پر اٹارنی جنرل نے دلائل کیلئے 45 منٹ مانگ لئے جس پر سماعت میں مختصر وقفہ کر دیا گیا۔ دوبارہ سماعت شروع ہوئی تو اٹارنی جنرل منصور عثمان نے دلائل کا آغاز کرتے کہا خواتین کی سیاسی عمل میں شرکت یقینی بنانے کیلئے مخصوص نشستیں رکھی گئیں، مخصوص نشستیں صرف سیاسی جماعتوں کو متناسب نمائندگی سے ہی مل سکتی ہیں۔

خواتین کو پہلی مرتبہ قومی و صوبائی اسمبلیوں کیساتھ سینیٹ میں بھی بڑی تعداد میں نمائندگی 2002 میں ملی، سال 1990 سے 1997 تک خواتین کی مخصوص نشستیں ختم کر دی گئی تھیں، سترہویں ترمیم کے ذریعے خواتین کی مخصوص نشستیں شامل کی گئیں۔متناسب نمائندگی کے اصول کا مقصد ہی نشستیں خالی نہ چھوڑنا ہے ، مخصوص نشستوں کیلئے آزاد امیدواروں کا شمار نہیں کیا جا سکتا۔جسٹس عائشہ ملک نے استفسار کیا کہ یہ بات آپ کس بنیاد پر کر رہے ہیں؟ جسٹس شاہد وحید نے کہا جو فارمولا آپ بتا رہے ہیں وہ الیکشن رولز کے سیکشن 94 سے متصادم ہے ۔جسٹس عائشہ نے پوچھا کہ کیا مخصوص نشستوں کیلئے 2002 سے یہی فارمولا چل رہا ہے ؟ جسٹس شاہد وحید نے کہا کہ سال 2002 میں الیکشن ایکٹ 2017 نہیں تھا، اٹارنی جنرل نے کہا کہ مخصوص نشستوں کا فارمولا نئے قانون میں بھی تبدیل نہیں ہوا۔جسٹس علی مظہر نے کہا آزاد امیدواروں کی سیٹیں تو آپ نے شامل کی ہیں نا؟ آزاد امیدواروں کو کم کر دیں تو سیاسی جماعتوں کی مخصوص نشستیں بھی کم ہو جائیں گی، مجھے جو سمجھ آیا اگر آزاد امیدوار سیاسی جماعت میں شامل نہیں ہوتا تو کیا وہ کہیں بھی شامل نہیں ہوگا کیا؟ چیف جسٹس نے کہا ہم مفروضوں اورفارمولا کی بحث میں پڑے ہوئے ہیں ،آئین میں سب کچھ واضح لکھا ہوا ہے کوئی ابہام نہیں۔

جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ کاش میرا چیف جسٹس جیسا دماغ ہوتا، پڑھتے ہی سب کچھ سمجھ جاتا لیکن میں عام آدمی ہوں،ہمیں توآئین اتنی آسانی سے سمجھ نہیں آتا،چیف جسٹس نے کہا آئین لوگوں کیلئے بنائے جاتے ہیں، وکلا اور ججز کیلئے نہیں بنائے جاتے ، آئین لوگوں کی پراپرٹی ہے ، یہ ایسے بنایا جاتا ہے کہ میٹرک کا طالب علم بھی سمجھ جائے ۔جسٹس منصور شاہ نے کہا کہ عدالت چاہتی جس سیاسی جماعت کا جو حق ہے اسے ملے ، کسی کو کم زیادہ سیٹیں نہ چلی جائیں، چیف جسٹس نے دریافت کیا کہ حق کیا ہے ؟ سپریم کورٹ نے آئین کو دیکھنا ہے ۔جسٹس عائشہ ملک نے کہا فارمولا تو الیکشن کمیشن کے ہاتھ میں ہے ، جس کو الیکشن کمیشن چاہے آزاد امیدوار بنا دے ، جسٹس جمال مندوخیل نے کہا کہ کیا الیکشن کمیشن کا فیصلہ آزاد امیدواروں نے چیلنج کیا؟ کیا ہمارے سامنے کوئی آزاد امیدوار آیا ؟چیف جسٹس نے کہا الیکشن کمیشن حقیر ادارہ نہیں نہ ہی سپریم کورٹ کے ماتحت ہے، اگر دھاندلی ہوئی تو جب تک کیس نہیں آئے گا ہم نظرثانی نہیں کر سکتے، ہر انتخابات میں ایک ہی بات ہوتی، کسی نے آج تک نہیں کہا الیکشن ٹھیک ہوا، ہارنے والا کہتا ہے انتخابات ٹھیک نہیں ہوئے، ہم ادارے کی قدر نہیں کرتے، الیکشن کمیشن نے کچھ غیر آئینی کیا ہے تو بالکل اڑا دیں گے۔ اس پر جسٹس منصور شاہ نے کہا چیف صاحب کہہ رہے الیکشن کمیشن اتنا زبردست ادارہ ہے۔ بعد ازاں سپریم کورٹ نے الیکشن کمیشن سے 2018 اور 2024 میں مخصوص نشستیں الاٹ کرنے کا فارمولا اور دستاویزات طلب کرتے ہوئے سماعت آج صبح ساڑھے 11 بجے تک ملتوی کر دی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں