"KMK" (space) message & send to 7575

لائبریری کل اور آج … (1)

مارک ٹوئن نے اپنی ایک کتاب کے انتساب میں لکھا ''وہ لوگ جو ایسی کتابوں کو پسند کرتے ہیں‘ اس کتاب کو ویسا ہی پائیں گے جیسی کتابیں وہ پسند کرتے ہیں‘‘۔ مارک ٹوئن کے اس جملے کے بالکل الٹ‘ میں اس کالم کے آغاز میں ہی واضح کر دینا چاہتا ہوں کہ وہ لوگ جو اس قسم کے کالموں کو ناپسند کرتے ہیں اس کالم کو ویسا ہی پائیں گے‘ جیسے کالم وہ ناپسند کرتے ہیں۔ پورا کالم پڑھنے کے بعد پیچ و تاب کھانے اور اپنے وقت کی بربادی کا کہرام مچانے والوں کو مطلع کیا جاتا ہے کہ وہ ابھی اسی وقت‘ فوری طور پر یہ طے کر لیں کہ انہیں یہ کالم پڑھنا ہے یا کسی دوسرے کالم کی جانب رجوع کرنا ہے کیونکہ یہ کالم بھی حسبِ معمول موازنے پر مبنی ہے اور میری ان حرکتوں سے اپنا دل جلانے والوں کو کم از کم میری طرف سے پیشگی مطلع کیا جا رہا ہے آگے ان کی مرضی۔
اگر اس عاجز نے اس ملک میں اچھی چیزیں‘ کتابوں کی بھری پُری دکانیں‘ اداروں کی فعالیت‘ قانون کی کسی حد تک حکمرانی‘ اداروں کا احترام‘ اساتذہ کی لگن اور اخلاص‘ امن و امان کی بہتر صورتحال اور تعلیمی اداروں کی اچھی حالت نہ دیکھی ہوتی تو پھر شاید یہ عاجز اتنا ''پٹ سیاپا‘‘ نہ مچاتا اور اس ساری صورتحال کو ٹھنڈے پیٹوں برداشت کر لیتا کہ شاید یہی ہمارا مقدر ہے مگر اصل مسئلہ یہ ہے کہ میں اُس نسل سے تعلق رکھتا ہوں جس نے اس ملک میں بہت کچھ اچھا بھی دیکھ رکھا ہے اور پھر آہستہ آہستہ سب کچھ ہاتھ سے پھسلتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ مثلاً مجھے یاد ہے کہ موسم گرما شروع ہوتے ہی مچھروں کی آمد کے پیشِ نظر انسدادِ ملیریا والے گھروں میں سپرے کرنے آ جاتے تھے۔ ہر گھر میں مچھر مار سپرے کیا جاتا تھا۔ کارپوریشن کا اہلکار ایک بالٹی میں کالے رنگ کا تیل نما گاڑھا مائع پتلی سی چھڑی پر باندھے ہوئے کپڑے سے ڈبو کر تالابوں‘ جوہڑوں اور کھڑے پانی کے گڑھوں پر چھڑکتا۔ صبح سویرے خاکروب سڑکوں اور گلیوں میں جھاڑو پھیرتے۔ جمعدار نالیاں صاف کرتے اور بہشتی (ماشکی) مشک سے نالیوں کے کنارے پانی کی دھار مار کر صاف کرتا۔ صبح سڑکوں پر جھاڑو کے بعد پانی کے چھڑکائو والا ٹرک آتا۔ سائیکلوں پر گھنٹی لگی ہوتی‘ رات کو بغیر لائٹ سائیکل چلانے والے کو چالان کا ڈر ہوتا تھا۔ لوگ ون وے کی پابندی کرتے تھے۔ کتابوں کی دکانوں پر رش بھی ہوتا تھا اور ان کی تعداد بھی کافی ہوتی تھی۔ اب عالم یہ ہے کہ آبادی کئی گنا بڑھ گئی ہے مگر دکانوں کی تعداد پہلے کی نسبت کئی گنا کم ہو چکی ہے۔ آنہ لائبریری اسی طرح قصۂ ماضی ہو چکی ہے جس طرح روئے ارض سے ڈائنو سار نا پید ہو گئے ہیں۔ بندہ باہر جائے اور کتابوں کی دکانوں اور پُر رونق لائبریریوں میں بچوں‘ جوانوں اور بوڑھوں کا جم غفیر دیکھے تو اسے اس بربادی کا خیال بھلا کیسے نہ آئے گا؟
یقین کریں یہ مسافر کالم لکھتے ہوئے اپنے کئی سفر گول کر دیتا ہے۔ اس کی وجہ یہ نہیں کہ وہ بعض قارئین کی جانب سے اپنے مسافرت والے کالموں پر اعتراضات کی وجہ سے ایسے کالم لکھنے سے احتراز کرتا ہے بلکہ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس مسافر کی کوشش ہوتی ہے کہ محض سفر نامہ لکھ کر ''چٹی بھگتانے‘‘ کے بجائے اپنے سفر سے پاکستان کے تناظر میں قارئین سے اپنے مشاہدات و تجربات بانٹے اور اس ملک کو بہتر سمت میں لے جانے کیلئے عوامی شعور بیدار کر سکے۔ جہاں اس مسافر کو ایسی تقابلی چیزیں دکھائی نہیں دیتیں اور سفر صرف اس کی ذاتی دلچسپی یا شوق تک محدود رہتا ہے وہ اسے حوالۂ قلم کرنے کے بجائے صرف اپنی یادوں کا حصہ بنانے پر اکتفا کرتا ہے۔ بھلا کسی کے بس میں کہاں ہے کہ وہ سب کو مطمئن کر سکے۔ سو اس مسافر کو جہاں کہیں کوئی ایسی بات دکھائی پڑتی ہے جسے قارئین سے شیئر کیا جا سکے تو وہ اپنے سفر پر ہمہ وقت طعنے مارنے والے قارئین سے بے فکر ہو کر لکھ دیتا ہے۔ چند لوگوں کے اعتراض پر اگر لکھنے کا سلسلہ ترک کرنا شروع کر دیں تو پھر لکھ لیا کالم۔
کتاب اور لائبریری کے بارے میں ہمارے ہاں ایک عجیب غلط فہمی پر مبنی یقین پرورش پا چکا ہے اور وہ یہ کہ کتاب اور لائبریری کو سوشل میڈیا‘ انٹرنیٹ تک رسائی اور وقت کی کمی نے کھا لیا ہے۔ حالانکہ حقیقت اس کے برعکس ہے۔ ہمارے ہاں کتاب کلچر پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھا‘ اب اسے بے سمت سماجی بُنت نے مزید برباد کر دیا ہے۔ ہماری سماجی ترجیحات ہی بدل گئی ہیں۔ کتاب کی ہمارے ہاں گنجائش ہی مفقود ہوتی جا رہی ہے۔ لائبریریوں کا عالم یہ ہے کہ پہلے ہی ان میں جانے کا اور بیٹھنے کا کلچر کچھ قابلِ فخر نہ تھا‘ اوپر سے مسئلہ یہ آن پڑا کہ لائبریریاں‘ جو پہلے سے ہی کتاب پڑھنے والوں کی کمی کا شکار تھیں اپنی پرانی اور متروک شکل و صورت کے باعث مزید بے رش اور بے ذائقہ ہو کر قارئین میں اپنی پذیرائی کھو چکی ہیں اور نئے تقاضوں سے ہم آہنگ نہ ہونے کے باعث مزید ویران ہو گئی ہیں۔ ہمارے دیکھتے دیکھتے فلم والے کیمرے ختم ہو گئے۔ کیمرے اور فلم کی دنیا کا سب سے بڑا اور معتبر نام کوڈک اب کہیں دکھائی نہیں دیتا اور محض چند سال پہلے تک موبائل فون کی دنیا کا بادشاہ نوکیا بہت سے لوگوں کے نزدیک بھولی بسری کہانی بن چکا ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ نئے اور جدید تقاضوں کو پسِ پشت ڈال کر زیادہ دیر تک خود کو برقرار رکھنا اب ممکن نہیں رہا۔ لائبریری کی بھی یہی صورتحال ہے۔ اب لائبریری دنیا میں کہیں سے کہیں پہنچ گئی ہے اور ایمانداری کی بات ہے کہ میں اس بار خود حیران ہو گیا کہ چیزیں کس حد تک تبدیل ہو چکی ہیں اور نئے تقاضوں کے مطابق اپنے آپ کو ہم آہنگ کرکے یہاں پہنچ چکی ہیں۔
سیفان نے اپنی ماں سے ضد کرتے ہوئے کہا کہ وہ لائبریری جانا چاہتا ہے‘ اسے اپنی کتابیں واپس کرنی ہیں اور اپنی نینٹینڈو (Nintendo) کے لیے نئی گیمز لینی ہیں۔ اڑھائی سالہ ایمان نے لائبریری کا نام سنا تو وہ بھی اپنی سات آٹھ تصویری کتابیں اٹھا لائی۔ ضوریز نے اپنے لیے علیحدہ کتابوں اور گیمز کی فرمائش کر دی۔ میرا خیال تھا کہ وہ کتابیں تو لائبریری سے لیں گے اور اپنی نینٹینڈو کیلئے کسی گیمز والی دکان پر جائیں گے مگر بعد میں معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ ان کے چھوٹے سے شہر کی لائبریری میں ہی میسر ہے۔ پیریز برگ امریکی ریاست اوہائیو کے شہر ٹولیڈو کے قریب ایک چھوٹا سا شہر یا بڑا سا قصبہ سمجھ لیں۔ یہ شہر 1775ء میں ہونے والی شمال مغربی انڈین جنگوں کے نتیجے میں اوڈاوا قبیلے سے چھینی گئی زمینوں پر بنایا گیا ہے۔ 1810ء میں آبادکاری شروع ہوئی مگر 1810ء کی جنگ کے باعث بہت سے لوگ یہاں سے نقل مکانی کر گئے۔ 1817ء میں فورٹ میگز ٹریٹی (صلح نامہ) کے بعد ماہر تعمیرات سٹیفورڈ نے اس جگہ شہر بسانے کیلئے امریکی صدر جیمز منرو سے 160 ایکڑ زمین کا حکم نامہ حاصل کیا۔ اس کے بعد دیگر کئی افراد نے‘ جن میں سابقہ فوجی شامل تھے‘ اپنے لیے مزید زمینیں حاصل کر لیں۔ معلوم ہوا کہ امریکہ میں 1817ء میں وہی کچھ ہو رہا تھا جو ہمارے ہاں اب تک نہ صرف جاری و ساری ہے بلکہ اس میں روز بروز شدت پیدا ہوتی جا رہی ہے۔ معاف کیجئے میں پھر بہک کر کسی اور طرف نکل گیا۔
1817ء میں قائم ہونے والے اس شہر میں‘ جس کی موجودہ آبادی پچیس ہزار نفوس پر مشتمل ہے ''وے پبلک لائبریری‘‘ کا قیام 1881ء میں عمل میں آیا‘ جبکہ گزشتہ پانچ ہزار سال سے مسلسل آباد شہر ملتان میں میری تحقیق کے مطابق پہلی باقاعدہ لائبریری 1870ء میں انگریزوں کے قائم کردہ ایک پرائمری سکول میں 1905ء میں قائم کی گئی۔ ایمرسن کالج کا قیام 1920ء میں عمل میں آیا‘ ہاں البتہ گردیزی اور دیگر خاندانوں کی ذاتی لائبریریاں اس سے مستثنیٰ ہیں لیکن ان تک عوام کی رسائی تو رہی ایک طرف‘ یہ عالم فاضل لوگوں کی دسترس سے بھی باہر تھیں اور اب بھی عام تمام لوگوں کیلئے شجرِ ممنوعہ ہیں۔ (جاری)

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں