بجٹ نافذ ہوئے آج چوتھا دن ہے‘ لیکن جو عدم اطمینانی بجٹ سے پہلے تھی‘ اب اس سے سوا ہے۔ صورتحال پہلے بھی کوئی آئیڈیل نہیں تھی لیکن جب سے سنا ہے (حالانکہ لوگ پہلے سے اس زمینی حقیقت سے پوری طرح واقف اور آگاہ تھے اور ہیں) کہ حکومت نے بجٹ آئی ایم ایف سے مل کر تیار کیا ہے‘ لوگوں کو کسی کروٹ چین نہیں آ رہا۔ حکومت کی باڈی لینگوئج سے واضح ہے کہ وہ بجٹ پیش کرنے اور بجٹ کے منظور ہونے کو ایک بڑی کامیابی سمجھ رہی ہے‘ اور اس حقیقت سے لاعلم ہے‘ یا لا علم رہنا چاہتی ہے کہ عوام اب مزید قربانیاں دینے کے قابل نہیں رہے اور اگر ان پر ٹیکسوں کا بوجھ بڑھانے کا سلسلہ جاری رہا تو ان کی قوتِ برداشت جواب دے جائے گی۔ تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ اعلان کردہ اور نافذ کردہ بجٹ آئی ایم ایف کی منظوری حاصل کر سکتا ہے لیکن اس کی وجہ سے عوامی سطح پر حکومت کے لیے شدید غم و غصہ پایا جاتا ہے۔ اس غم و غصے کا اظہار بھی ہو رہا ہے۔ ایک طرف طویل لوڈ شیڈنگ‘ دوسری جانب لمبے لمبے بل‘ جن کو ادا کرنا بغیر کرپشن کے شاید ممکن نہیں رہا۔
بجلی کے بلوں نے عام شہریوں کے ساتھ ساتھ فنکاروں کے بھی اوسان خطا کر دیے ہیں۔ سب سے پہلے صدارتی ایوارڈ یافتہ اداکار راشد محمود نے بجلی کی اوور بلنگ کے خلاف آواز بلند کی جس کا ذکر میں نے اپنے گزشتہ کالم میں کیا تھا۔ اب فنکاروں کے احتجاج کا سلسلہ دراز ہوتا جا رہا ہے۔ پتا چلا ہے کہ اداکارہ نشو‘ اداکارہ سنگیتا اور نامور کامیڈین غفار لہری بھی اپنے اپنے بجلی کے بل دیکھ کر سٹپٹا گئے ہیں۔ سینئر اداکارہ نشو کا بجلی کا بل ایک لاکھ روپے آیا جس پر وہ خاصی پریشان ہیں۔ اداکارہ سنگیتا کا کہنا ہے کہ وہ صرف ایک اے سی چلاتی ہیں‘ اس کے باوجود 60 ہزار روپے کا بل آ گیا ہے۔ راشد محمود کی طرح سنگیتا نے بھی دہائی دیتے ہوئے کہا کہ بجلی والو‘ خدا کے لیے ہم پر رحم کرو‘ ایک اے سی کا بل 60 ہزار کیسے ہو سکتا ہے؟ اب اور کتنے ٹیکس لگاؤ گے؟ نامور کامیڈین غفار لہری کا کہنا ہے کہ وہ کرائے کے چھوٹے سے گھر میں رہتے ہیں اور صرف ایک پنکھا چلاتے ہیں‘ زیادہ سے زیادہ تین ہزار روپے بل آنا چاہیے تھا لیکن 20 ہزار روپے بجلی کا بل بھیج دیا گیا ہے۔ غفار لہری نے بتایا کہ وہ بل کی درستی کے لیے متعلقہ آفس گئے لیکن وہاں سے کہا گیا کہ جو بل آیا ہے اسے ہر صورت ادا کرنا ہو گا۔ یہ تو فنکار ہیں‘ جو عوام میں مقبول ہیں۔ ان کے لاکھ چاہنے والے ہیں۔ کوئی نہ کوئی ان کی مدد کو آ ہی جائے گا۔ ہو سکتا ہے انہیں ایک لاکھ کی ضرورت ہو اور چاہنے والے دس لاکھ جمع کر دیں‘ لیکن شاہدرہ میں بیٹھی بشیراں‘ گکھڑ منڈی کی رسولاں‘ لالو کھیت کی واجدہ بی اور پشاور کی گل خانم کی مدد کو کون پہنچے گا؟ سوشل میڈیا پر ان سیاست دانوں کے کلپس وائرل ہیں جو اپنی انتخابی مہم کے دوران دو سو اور تین سو یونٹس تک بجلی مفت فراہم کرنے کے دعوے اور وعدے کرتے رہے۔ کیا عوام ان کے وعدے بھولے ہوں گے؟ ہرگز نہیں! وہ کبھی نہیں بھولیں گے اور اگر عوام پر ٹیکسوں کا بوجھ اسی طرح بڑھایا جاتا رہا تو وہ سڑکوں پر نکل آئیں گے۔ کچھ شہروں میں بجلی کی طویل لوڈ شیڈنگ کے خلاف احتجاجوں کا سلسلہ ابھی سے شروع ہو چکا ہے۔ جب نئے بجٹ کے تحت دباؤ مزید بڑھے گا تو لوگوں کے درجہ حرارت میں بھی اسی نسبت سے اضافہ ہو جائے گا۔
پتا چلا ہے کہ آئندہ مالی سال کے لیے نئے بجٹ میں 2200 اشیا پر اضافی کسٹمز ڈیوٹی عائد کر دی گئی ہے۔ ایسے میں کس طرح یہ کہا جا سکتا ہے کہ مہنگائی میں اضافہ نہیں ہو گا؟ ایسوسی ایشن آف بلڈرز اینڈ ڈویلپرز آف پاکستان کے چیئرمین نے وفاقی بجٹ 2024-25ء میں تعمیراتی صنعت اور رئیل اسٹیٹ پر عائد کیے گئے بھاری اور غیر معقول ٹیکسوں کے خلاف عدالت سے رجوع کرنے کا اعلان کرتے ہوئے اسے انتہائی تباہ کن قرار دیا ہے۔ ایک اخباری بیان میں انہوں نے کہا کہ اس بجٹ کے بعد عام آدمی کے لیے اپنا گھر بنانا نہ صرف مشکل بلکہ ناممکن ہو گیا ہے۔ایک طرف یہ سلسلے ہیں تو دوسری طرف وزیر مملکت برائے خزانہ علی پرویز ملک ایک الگ ہی ماحول بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ دو روز قبل انہوں نے کہا کہ وفاقی بجٹ میں عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے تمام مطالبات پورے کرنے کے بعد پاکستان رواں ماہ چھ ارب ڈالر سے زائد کے آئی ایم ایف بیل آؤٹ پیکیج پر سٹاف لیول معاہدہ کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ اب کوئی حل طلب مسئلہ نہیں بچا‘ ہم نے بجٹ سمیت تمام پیشگی اقدامات مکمل کر لیے ہیں۔ لیکن وزیرِ مملکت کے دعوے کے بالکل برعکس عالمی مالیاتی فنڈ نے 10 جولائی سے قبل بجلی اور گیس کی قیمتوں میں مزید اضافے کا مطالبہ کیا ہے۔ وزارتِ خزانہ ہی کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف چاہتا ہے نئے مالی سال میں بجلی اور گیس کے ریٹ بڑھا کر سبسڈی کنٹرول کی جائے اور نئے قرض پروگرام کے لیے پیشگی شرائط پر عمل کیا جائے۔ سوال یہ ہے کہ اگر آئی ایم ایف کی جانب سے 'ڈو مور‘ کا ہی تقاضا دہرایا جانا ہے تو پھر یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ اب کوئی حل طلب مسئلہ نہیں بچا۔ ابھی تو آگے مسائل ہی مسائل ہیں۔
پھر آئی ایم ایف کی طرف سے یہ مطالبات تو نئے بجٹ کے حوالے سے کیے جا رہے ہیں‘ حکومتِ پاکستان نے آئی ایم ایف سے جو نیا بیل آؤٹ پیکیج لینا ہے‘ اس کی بھی تو ظاہر ہے کچھ نہ کچھ شرائط ہوں گی۔ اگر ان ممکنہ شرائط کا بوجھ بھی عام آدمی پر ڈال دیا گیا تو یہ تصور کرنا ناممکن نہیں کہ عام آدمی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہوں گے؟ سوچ کر ہی رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ملک کو اقتصادی بحران سے نکالنے کے اقدامات ضرور ہونے چاہئیں‘ اور اس کے لیے عوام سے قربانیاں بھی مانگی جانی چاہئیں‘ لیکن سب سے پہلے حکمرانوں کو اس کا عملی نمونہ بننا چاہیے‘ لیکن ایسا کچھ بھی نظر نہیں آتا۔ حکومت نے عام آدمی سے تو قربانی طلب کی ہے‘ خود اس کے لیے تیار نہیں۔ اس بجٹ کو ہی دیکھ لیں اس میں کہیں نظر آیا کہ حکومت یا حکمرانوں نے اپنے اخراجات کم کرنے کی بات کی ہو؟ تو جب تک حکمران خود کو تبدیل نہیں کرتے‘ تب تک عوام کے تبدیل ہونے کی توقع نہیں کی جا سکتی۔ یہ نہیں ہو سکتا کہ حکمران اپنی عیاشیاں جاری رکھیں اور عوام صرف ٹیکس ہی ادا کرتے رہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اس نکتے پر توجہ دینے اور کام کرنے کی ضرورت ہے کہ پاکستان کو اقتصادی لحاظ سے کس نے اس نہج تک پہنچایا کہ ہمیں بار بار آئی ایم ایف سے رجوع کرنا پڑ رہا ہے۔ انقلاب ایسے ہی نہیں آتے‘ ان کے پیچھے متعدد عوامل کارفرما ہوتے ہیں۔