''آپ کی طبیعت ٹھیک نہیں نانا ابو! آپ نے کھاریاں نہیں جانا!‘‘
یہ بات زینب نے کہی! وہی زینب کہ جب چھوٹی سی تھی اور میری طبیعت مضمحل تھی تو آنکھوں میں آنسو بھر کر اس نے کہا تھا ''میں دعا کروں گی کہ آپ کبھی فوت نہ ہوں‘‘۔ اب تو وہ بڑی ہو گئی ہے۔ وقت آندھی کی رفتار سے چلتا ہے۔ بلکہ اس سے بھی تیز تر! کل کی یہ بچی اب قانون کی سٹوڈنٹ بننے والی ہے۔ جس دن کی بات ہے‘ اس دن میری طبیعت بہت خراب تھی۔ ایک دن پہلے بخار تھا۔ رات کو نیند بھی نہیں آئی تھی۔ دن بھر بستر پر پڑا رہا۔ شام کو کھاریاں میں شادی کی ایک تقریب تھی۔ بیگم کو تو معلوم تھا کہ اس میں شرکت ناگزیر ہے۔ زینب کو خبر ملی تو فوراً میرے کمرے میں آئی۔ ''نانا ابو! یہ میں کیا سن رہی ہوں! آپ کھاریاں جا رہے ہیں! آپ کو اپنی حالت کا علم ہے؟‘‘۔ اسے تفصیل بتائی کہ کس طرح قریبی دوستوں کی تقریب ہے اور کس طرح بعض مواقع پر ہر حال میں جانا پڑتا ہے۔ مگر اس کی دلیل یہ تھی کہ میں کئی دن سے بیمار ہوں۔ اگر سفر پر گیا تو تھکاوٹ سے دوبارہ بخار ہو جائے گا۔ اسے سمجھایا کہ اب ٹھیک ہوں۔ بس جا کر ایک گھنٹہ وہاں بیٹھ کر آجاؤں گا۔ کہنے لگی: جس دوست کے گھر تقریب ہے اس کا فون نمبر دیجیے۔ فون نمبر دینا خطرے سے خالی نہ تھا۔ ایک بار لاہور میں فون نمبر کا استعمال کر چکی تھی۔ ہم لاہور اس کے گھر کئی دن رہے۔ جس دن ڈرائیور نے اسلام آباد سے آنا تھا کہ ہمیں لے جائے‘ اس سے ایک دن پہلے زینب نے اسے فون کیا کہ انکل آپ کل نہ آئیے۔ ابھی نانا ابو اور نانو امی نے واپس اسلام آباد نہیں جانا۔ وہ تو بھلا ہو ڈرائیور کا کہ ہوشیاری کی اور مجھ سے تصدیق چاہی۔ اب جب کھاریاں جانا تھا تو سخت پریشان تھی کہ میری طبیعت پھر خراب ہو جائے گی۔ ایک دن پہلے پینا ڈول کھلاتے وقت کہہ رہی تھی یہ ذرا میرے سامنے کھائیے۔ مجھے آپ پر اعتبار بالکل بھی نہیں ہے۔ تھوڑی دیر بعد ڈرائیور نے بتایا کہ گاڑی کی چابیاں زینب بی بی نے اس سے لے لی ہیں اور اسے حکم دیا ہے کہ نانا ابو کو کھاریاں نہیں لے کر جانا۔ بہت مشکل سے قائل کیا اور اس نے جانے دیا۔ ابھی گوجر خان ہی کراس کیا تھا کہ اس کا میسیج آیا ''راستے میں سونے کی کوشش کیجیے‘‘۔
یہ جو پروردگارِ عالم نے اپنے آپ کو مدبر الامر قرار دیا ہے تو یونہی نہیں قرار دیا۔ غور کرنے کا مقام ہے۔ آپ کی دیکھ بھال اور آپ کے لیے فکرمندی آپ کے ماں باپ کرتے ہیں! پھر جب وہ بوڑھے ہو جاتے ہیں یا داغِ مفارقت دے جاتے ہیں تو آپ کی جوان بیوی اور آپ کے بچے جو تعلیم حاصل کر رہے ہوتے ہیں‘ آپ کی دیکھ بھال کرتے ہیں۔ پھر ایک مرحلہ ایسا آتا ہے کہ بیوی کے قویٰ مضمحل ہو جاتے ہیں۔ اس میں پہلے جیسی طاقت‘ توانائی اور ہمت نہیں رہتی۔ کبھی گھٹنوں میں درد کبھی ہڈیوں کی کمزوری! آپ کے بچے بڑے ہو کر زندگی کی جد و جہد میں لگ جاتے ہیں۔ کوئی دفتر جاتا ہے کوئی دکان پر کوئی کارخانے میں اور کوئی کھیت پر! شام ڈھلے لوٹتے ہیں۔ تھکے ہارے! اب مدبر الامر نے آپ کی دیکھ بھال پر آپ کے پوتے‘ نواسے‘ پوتیاں اور نواسیاں مامور کر دی ہیں۔ آپ بیمار پڑتے ہیں تو یہ پوتے نواسیاں پریشان ہو جاتے ہیں۔ کوئی آپ کو پانی دیتا ہے‘ کوئی دوا کھلاتی ہے۔ ان کا باپ شام کو گھر آتا ہے تو فوراً سے پیشتر اسے بتائیں گے کہ دادا ابو کو یا نانا ابو کو یہ تکلیف ہو گئی ہے۔ انہیں فلاں چیز کی ضرورت ہے۔ جس طرح ان کی باتیں غور سے دادا‘ دادی‘ نانی یا نانا سنتے ہیں‘ بالکل اسی طرح ان بزرگوں کی باتیں بھی سب سے زیادہ توجہ سے یہ بچے ہی سنتے ہیں۔ یہ ایک قدرتی اتحاد (Alliance) ہے جو مدبّر الامر نے ہر گھر میں کھڑا کر دیا ہے۔ آپ دیکھیے‘ قدرت ہر مرحلے پر‘ زندگی کے ہر موڑ پر آپ کی دیکھ بھال کا انتظام کرتی ہے۔ اس بات پر آپ جتنا غور کریں گے‘ حیرت کے دروازے اتنے ہی کھلتے چلے جائیں گے۔
یہی زینب جب ساتویں یا چھٹی میں پڑھ رہی تھی‘ ایک دن رات کو میں اور وہ لاؤنج میں بیٹھے اپنا اپنا کام کر رہے تھے۔ میں نے ابھی کھانا نہیں کھایا تھا۔ اسے کہا کہ روٹی تو پکی ہوئی پڑی ہے۔ ریفریجریٹر سے ماش کی دال نکال کر گرم کرے اور مجھے کھانا دے دے۔ وہ اٹھی اور باورچی خانے میں گئی۔ میں کام میں مصروف ہو گیا۔ بہت دیر بعد آئی۔ ٹرے میں دال نہیں تھی‘ آملیٹ تھا۔ کہنے لگی :نانا ابو! رات کو ماش کی دال نہیں کھانی چاہیے۔ میں نے آپ کے لیے آملیٹ بنایا ہے! اس کے بھائی ہاشم خان کا اظہارِ محبت کا اپنا الگ اسلوب ہے۔ ایک بار میں لاہور سے واپس آیا تو رپورٹ پہنچی کہ میری واپسی کے بعد ننھا ہاشم کہہ رہا تھا کہ اسے گھر کے ہر کونے سے نانا ابو کی آوازیں آرہی ہیں۔ ایک بار ہمارے ہاں اسلام آباد آیا ہوا تھا۔ سردیاں تھیں۔ مجھے بہت ہی منحوس اور ظالم قسم کی کھانسی لگی ہوئی تھی۔ کسی دوا‘ کسی علاج‘ کسی ٹوٹکے سے گھَٹ ہی نہیں رہی تھی۔ کھانسی کا دورہ پڑا اور میں کھانستے کھانستے بے حال ہو گیا۔ ہاشم اپنے کمرے سے نکلا اور آکر میرے گلے لگ کر زارو قطار رونا شروع ہو گیا۔ بس اتنی بات سمجھ میں آرہی تھی کہ نانا ابو آپ اتنی تکلیف میں ہیں! ہر بچے کا اپنا انداز ہے اور اظہار کا اپنا طریقہ ہے۔ بارہ سالہ پوتا تیمور جو آسٹریلیا میں ہے‘ ہماری آسٹریلیا سے واپسی سے کئی دن پہلے ضد کرنا شروع کر دیتا ہے کہ ابھی نہیں جانا۔ ایک ماہ اور رکنا ہے۔ جیسے جیسے رخصتی کا دن قریب آتا ہے اس کے اصرار میں آنسو شامل ہوتے جاتے ہیں۔ کبھی باپ سے کہے گا: ابا انہیں روکیے۔ امی ابو پاکستان نہ جائیں۔ جب بھی پاکستان آتا ہے‘ واپس جاتے ہوئے روتا ہے کہ میں پاکستان میں ہی رہنا چاہتا ہوں۔ حمزہ کا اپنا انداز ہے۔ جس دن ہم نے واپس آنا ہوتا ہے وہ بات کرنا چھوڑ دیتا ہے۔ خاموش اور افسردہ ہو کر دیوار کے ساتھ لگ کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ یہاں تک کہ ہمیں ملنے سے بھی انکار کر دیتا ہے۔ چھوٹا سا تھا۔ اسلام آباد آیا تو دادی کو دس ڈالر کا نوٹ دیا اور کہا یہ رکھ لیجیے۔ دادی نے پیار کر کے واپس کر دیا۔ پھر مجھے دیا کہ یہ آپ کے لیے لایا ہوں۔ اس سے کچھ لے لیجیے گا۔ ایک بار مجھے ریل کار سے لاہور جانا تھا۔ ریلوے سٹیشن جانے لگا تو گاڑی میں بیٹھ گیا کہ ساتھ جاؤں گا۔ میں نے بہلانے کی کوشش کی۔ کہنے لگا: آپ کے بغیر مر جاؤں گا۔ اس کی دادی اور باپ نے بھی کہا کہ پیچھے روتا رہے گا‘ ساتھ لے جائیے۔ ریل کار پارلر میں نشست تو ایک ہی محفوظ تھی۔ خیر! ایک شریف آدمی نے اپنی نشست دے دی۔ ہمارے سامنے‘ میز کے دوسری طرف ایک این جی او ٹائپ‘ فیشن ایبل لڑکی بیٹھی لیپ ٹاپ پر کام میں مصروف تھی۔ سات آٹھ سالہ حمزہ کی پنجابی اس کے کانوں میں پڑی تو اس کے تو ہوش اُڑ گئے۔ حیرت سے کہنے لگی یہ تو پنجابی بولتا ہے ( اندازہ لگائیے پنجاب میں کوئی بچہ پنجابی بولے تو کتنی حیرت انگیز بات ہے!!)۔ اسے بتایا کہ آسٹریلیا کی پیدائش ہے۔ انگریزی بولتا ہے یا پنجابی! لڑکی نے اس سے ہاتھ ملایا۔ پھر دونوں کی دوستی ہو گئی۔ انگریزی زدہ لڑکی نے اس کی پنجابی سے خوب حظ اٹھایا۔ اسی لاہور یاترا کے دوران حمزہ نے ایک دلچسپ فقرہ بولا۔ میں سویا ہوا تھا۔ مجھے ہلایا اور کہنے لگا ''ابّو! آپ مر تو نہیں گئے؟‘‘۔