پاکستان اور بھارت کے دو طرفہ تعلقات کی گزشتہ77سالہ تاریخ اتار چڑھاؤ سے بھرپور ہے۔ دونوں ملکوں کے درمیان تین بڑی جنگیں 1948ء‘ 1965ء اور 1971ء ہو چکی ہیں۔ اس کے علاوہ 1965ء میں ہی رن آف کچھ اور 1999ء میں کارگل کی چھوٹی جنگیں بھی ہو چکی ہیں۔ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی بھی اس تاریخ کا حصہ ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ ہر تصادم اور کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں نارملائزیشن‘ تعاون اور باہمی اعانت پر مبنی پُرامن اور خوشگوار ادوار بھی آتے رہے ہیں۔ مثلاً 1948ء کی جنگ کے باوجود 1950ء اور 1960ء کی نصف دہائی تک پاکستان اور بھارت ایک دوسرے کے اہم تجارتی پارٹنر تھے بلکہ کچھ عرصہ تک دونوں ممالک نے ایک دوسرے کے ساتھ کسٹمز یونین کا معاہدہ بھی کیا تھا جس کے تحت پاکستان کلکتہ کی بندرگاہ سے اپنی خام پٹ سن برآمد اور بھارت کراچی کی بندرگاہ سے پٹرولیم مصنوعات بغیر ڈیوٹی کے درآمد کر سکتا تھا لیکن یہ کسٹمز یونین زیادہ دیر تک برقرار نہ رہ سکی۔
1965ء کی جنگ سے پہلے تک پاکستان اور بھارت کے شہریوں کو ایک دوسرے کے ہاں آنے جانے کیلئے بہت آسانیاں حاصل تھیں حتیٰ کہ کشمیر میں سیز فائر لائن پار کرنے کیلئے بھی پاسپورٹ اور ویزے کی ضرورت نہ تھی۔ مقامی ڈپٹی کمشنر کے دفتر سے جاری ہونے والی ایک چٹ ہی کافی ہوتی تھی۔ پاکستان اور بھارت کے درمیان ثقافتی شعبوں میں تعاون بھی نمایاں تھا۔ ان میں کھیل‘ بالخصوص لاہور اور امرتسر میں کرکٹ میچز دیکھنے کیلئے پاکستانی اور بھارتی شائقین کو ایک دوسرے کے ہاں جانے کی اجازت‘ پاک بھارت مشترکہ مشاعرے شامل ہیں۔ پاکستان میں بھارت کے اخبارات اور کتابوں کی درآمد پر بھی کوئی پابندی نہیں تھی اور صحافیوں‘ طلبا‘ اساتذہ‘ فنکاروں اور زائرین کیلئے ویزے حاصل کرنا مشکل نہیں تھا۔ تاہم 1965ء کی جنگ کے بعد یہ سلسلہ منقطع ہو گیا اور 1971ء کی جنگ‘ جس کے نتیجے میں مشرقی پاکستان علیحدہ ہو گیا‘ کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان تلخیوں میں مزید اضافہ ہوا۔ اس کے باوجود دونوں ملکوں میں تعلقات آہستہ آہستہ معمول اور اور تعاون کی طرف بڑھتے رہے۔ 1976ء میں دونوں ملکوں کے درمیان تجارتی تعلقات بحال ہوئے۔ جنرل ضیاء کے دورمیں پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکاری اور عوامی سطح پر روابط میں اضافہ ہوا۔ اس سے دونوں ملکوں میں ایک دوسرے کے بارے میں پائی جانے والی بدگمانیوں‘ غلط فہمیوں اور نفرتوں کو دور کرنے میں بہت مدد ملی۔ جنرل ضیا الحق نے کرکٹ ڈپلومیسی کا آغاز کیا اور بھارت میں ہونے والے ایک کرکٹ میچ کو دیکھنے کے علاوہ بھارتی وزیراعظم راجیو گاندھی سے بھی ملاقات کی۔
بے نظیر بھٹو کے پہلے دورِ حکومت میں بھارت کے وزیراعظم راجیو گاندھی پاکستان کے دورے پر آئے تھے۔1961ء میں پنڈت نہرو کے بعد کسی بھارتی وزیراعظم کا یہ پہلا پاکستانی دورہ تھا۔ اس دورے کے موقع پر دونوں ملکوں نے ایک دوسرے کے ساتھ اپنی ایٹمی تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ کرنے کے معاہدے پر دستخط کیے۔ اس معاہدے کو دونوں ملکوں کے درمیان ایٹمی شعبے میں اعتماد سازی کے اقدامات میں ایک اہم حیثیت حاصل ہے‘ اور اب تک دونوں ممالک ہر نئے سال کے پہلے دن ایک دوسرے کے ساتھ اپنی ایٹمی تنصیبات کی فہرستوں کا تبادلہ کر کے باہمی اعتماد اور خیر سگالی کی خواہش کا اظہار کرتے ہیں‘ مگر پانچ اگست2019ء کو نریندر مودی کی حکومت نے ریاست جموں و کشمیر‘ جسے اقوام متحدہ ایک متنازع علاقہ قرار دے چکی ہے‘ کو اچانک یک طرفہ طور پر اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی اور اپنے ہی آئین کی دفعہ 370 کو نظر انداز کرتے ہوئے بھارت میں ضم کر دیا۔ اس اقدام کے خلاف سخت ردِعمل کا اظہار کرتے ہوئے پاکستان نے نہ صرف اسلام آباد میں بھارتی ہائی کمشنر کو ملک سے چلے جانے کا حکم دیا بلکہ دہلی میں اپنے ہائی کمشنر کو بھی واپس بلا لیا۔ اس کے علاوہ بھارت کے ساتھ تمام مواصلاتی‘ تجارتی اور ثقافتی روابط ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔ 2004ء سے 2008ء تک کے امن مذاکرات کے نتیجے میں پاکستان اور بھارت کے درمیان اور کشمیر میں ریل اور روڈ ٹرانسپورٹ تجارت اور بس کے ذریعے سفر کرنے کے جن اعتماد سازی کے اقدامات کا آغاز کیا گیا تھا‘ وہ سب رُک گئے۔ دونوں ملکوں میں گزشتہ پانچ برس سے نہ ہی سفارت اور نہ ہی سیاست یا سیاحت اور تجارت کے شعبے میں کوئی رابطہ قائم ہے۔ ایسی صورتحال کسی بھی دو ہمسایہ ممالک میں زیادہ دیر تک برقرار نہیں رہنی چاہیے‘ خصوصاً پاکستان اور بھارت کے درمیان‘ جو نہ صرف تاریخی اور ثقافتی طور پر ایک دوسرے سے جڑے ہوئے ہیں بلکہ جغرافیائی طور پر ایک لمبی بین الاقوامی سرحد کے مالک ہوتے ہوئے متعدد مشترکہ چیلنجز اور مسائل کا سامنا بھی کرتے ہیں۔ ان مسائل میں ایک دوسرے کی سرحدوں کو پار کرتے ہوئے دریاؤں کے پانی کی تقسیم‘ موسمیاتی تغیر و تبدل اور قدرتی آفات‘ سمگلنگ اور دہشت گردی شامل ہیں۔ ان مسائل پر قابو پانے کیلئے دونوں ملکوں میں رابطہ اور تعاون ضروری ہے۔ بین الاقوامی برادری اور پاکستان اور بھارت کے ہمسایہ اور دوست ممالک بھی اس بات کی خواہش رکھتے ہیں کہ جنوبی ایشیا کے ان دو بڑے ممالک کے باہمی تعلقات نارمل ہونے چاہئیں تاکہ خطے کے تمام ممالک ایک پُرامن ماحول میں ترقی اور خوشحالی کیلئے کام کر سکیں تاہم دونوں ملکوں کے درمیان گزشتہ تقریباً پانچ برس سے قائم ڈیڈ لاک کے ختم ہونے کہ آثار نظر نہیں آتے۔
2020ء اور 2021ء میں دونوں ملکوں کے درمیان غیرسرکاری (بیک ڈور) رابطے قائم ہونے کے نتیجے میں کچھ اہم اور مفید پیشرفت ہوئی تھی۔ اس میں فروری 2021ء میں دونوں ملکوں کی جانب سے 2003ء کے معاہدے کے تحت لائن آف کنٹرول کو پُرامن رکھنے کا اعلان بھی شامل ہے۔ خوش قسمتی سے دونوں ملک اس اعلان کی مکمل پاسداری کر رہے ہیں اور کشمیر میں لائن آف کنٹرول اور کشمیر کے ساتھ پاکستان کی سرحد‘ جسے ورکنگ باؤنڈری کا نام دیا گیا ہے‘ دن رات کی گولہ باری اور فائرنگ سے محفوظ ہے۔ اس مفاہمت کی کامیابی کے بعد بھارت کے ساتھ محدود پیمانے پر تجارت کھولنے کی کوشش کی گئی تھی لیکن پی ٹی آئی حکومت نے اس کوشش کو ترک کر دیا مگر موجودہ حکومت اس اقدام کا جائزہ لے رہی ہے۔ ڈپٹی وزیراعظم اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے گزشتہ ماہ اسلام آباد میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے بھارت کے ساتھ تعلقات کو معمول پر لانے کی بات کی اور اس سلسلے میں کہا کہ اس مقصد کیلئے پاکستان بھارت کے ساتھ بات چیت کیلئے تیار ہے۔ دونوں ملکوں کو درپیش مسائل جیسے ماحولیاتی اور موسمی مشکلات کا ذکر کرتے ہوئے اسحاق ڈار نے کہا کہ ان کے حل کیلئے دونوں کی مشترکہ کوششیں لازمی ہیں۔ اسحاق ڈار کی اس تقریر سے پہلے نریندر مودی کے تیسری دفعہ ملک کا وزیراعظم کا حلف لینے پر وزیراعظم شہباز شریف اور مسلم لیگ (ن) کے صدر نواز شریف کے تہنیتی پیغامات کے جواب میں نریندر مودی کے مختصر اور جذبات سے خالی جوابی پیغامات پر پاکستان میں مایوسی کا اظہار کیا گیا تھا اور اس رائے کو تقویت حاصل ہوئی کہ مودی کے تیسری دفعہ وزیراعظم منتخب ہونے کے بعد پاکستان اور بھارت کے تعلقات میں تعطل ختم ہونے کے امکانات کم ہیں کیونکہ دونوں ملک اپنے مؤقف میں لچک لانے پر تیار نہیں‘ تاہم دونوں ملکوں کی باہمی تعلقات کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ ڈیڈ لاک کیسا ہی کیوں نہ ہو‘ دونوں ملک باہمی تنازعات کے حل کیلئے مذاکرات پر تیار ہو جاتے ہیں۔ اس کی تفصیل کالم کے دوسرے حصے میں بیان کی جائے گی۔