مکالمے اور مناظرے میں کیا فرق ہے؟
یہ کم وبیش پندرہ برس پہلے کی بات ہے۔ میں ایک ٹی وی چینل کے علمی پروگرام 'الف‘ کا میزبان تھا۔ اس پروگرام میں مختلف نقطہ ہائے نظر کی نمائندہ شخصیات کو مدعو کیا جاتا تھا جو ایک موضوع پر مکالمے میں شریک ہوتی تھیں۔ اس سے یہ جاننے میں مدد ملتی کہ مختلف علمی روایات میں زیرِ نظر موضوع کو کس زاویے سے دیکھا جاتا ہے۔ یہ ہماری معاشرتی تاریخ کا آخری دور تھا جب مکالمے کا کوئی امکان موجود تھا۔ اُس کے بعد حالات نے ایسی کروٹ لی کہ مکالمہ ممکن نہیں رہا۔ پہلے زبانیں تلوار بنیں اور پھر ہاتھوں میں بندوق تھما دی گئی۔ ان ہاتھوں سے پہلا قتل مکالمے کا ہوا۔
میرے ایک پروگرام میں معروف تاریخ دان ڈاکٹر عائشہ جلال بھی شریک تھیں اور دین کے ایک معروف عالم بھی۔ دو مہمان ان کے علاوہ تھے۔ انہی دنوں ڈاکٹر صاحبہ کی کتاب 'مجاہد فی سبیل اللہ‘ (Partisans of Allah) شائع ہوئی تھی جس میں جنوبی ایشیا میں برپا ہونے والی جہادی تحریکوں کا تجزیہ کیا گیا تھا۔ پروگرام کا موضوع بھی یہی تھا۔ یہ معلوم تھا کہ شریکِ گفتگوخاتون کا میدان‘ علمِ دین نہیں تاریخ ہے۔ یہ ممکن تھا کہ وہ 'طاغوت‘ جیسی مذہبی اصطلاحوں سے واقف نہ ہوں لیکن علمِ تاریخ میں بہرحال ان کو حوالہ مانا جاتا ہے۔
پروگرام جیسے جیسے آگے بڑھتا گیا‘ ڈاکٹر صاحبہ کے دلائل کا وزن بھی بڑھتا گیا۔ محترم عالمِ دین کو یہ احساس ہونے لگا کہ ان کی دلیل ماند پڑتی جا رہی ہے۔ ان کی تربیت مکالمے کی نہیں‘ مناظرے کی تھی۔ مکالمے کے برخلاف‘ مناظرے میں ہار ہوتی ہے یا جیت۔ انہیں ہار گوارا نہیں تھی۔ انہوں نے اپنا آزمودہ ہتھیار استعمال کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ڈاکٹر عائشہ نے اپنی گفتگو کے دوران میں‘ ایک دو دفعہ 'جہاد فی سبیل اللہ‘ کی اصطلاح استعمال کی لیکن 'سبیل‘ کے لام پر پیش کے ساتھ۔ یعنی 'جہاد فی سبیلُ اللہ‘۔ عربی زبان میں کچھ 'حروفِ جر‘ ہوتے ہیں۔ یہ جب کسی لفظ سے پہلے آ جائیں تو بعد والے لفظ کو زیر کے ساتھ پڑھا جاتا ہے۔ 'فی‘ بھی حرفِ جر ہے۔ اس لیے یہ 'جہاد فی سبیلِ اللہ‘ ہے یعنی لام پہ زیر ہے۔ ایک موقع پر انہوں نے جیسے ہی 'جہاد فی سبیلُ اللہ‘ کہا‘ عالم نے انہیں زوردار اور خطیبانہ لہجے میں ٹوکا: 'بی بی! یہ فی سبیلُ اللہ نہیں‘ فی سبیلِ اللہ ہے‘۔ انہوں نے یہ جملہ کچھ ایسے رعب کے ساتھ ادا کیا کہ خاتون گھبرا سی گئیں‘ جیسے وہ انجانے میں توہینِ مذہب کا ارتکاب کر بیٹھی ہیں۔ یہ گھبراہٹ پروگرام کے آخر تک ان کے ساتھ رہی۔ آپ سمجھ سکتے ہیں کہ اس کے بعد 'مکالمے‘ کا انجام کیا ہوا ہو گا۔ 'طاغوت‘ اس کے بعد سر چھپانے کو جگہ ڈھونڈتا رہا۔
نحو کی اس غلطی کا پروگرام کے موضوع سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ مکالمے میں ایسی غلطیاں ناقابلِ ذکر ہوتی ہیں اور انہیں نظر انداز کرتے ہوئے‘ نفسِ مضمون پر توجہ مرتکز کی جاتی ہے۔ مقصود بات کی تنقیح اور تفہیم ہوتی ہے تاکہ مشترکہ کاوش سے کسی بہتر نتیجہ فکر تک پہنچا جائے۔ مناظرے کا معاملہ‘ یکسر مختلف ہے۔
مکالمہ ایک سنجیدہ عمل ہے۔ مناظرہ تفریح (Entertainment) ہے اور ایک فن۔ ماضی میں مناظرے کا فن پڑھایا جاتا تھا تاکہ 'باطل‘ گروہوں کا ابطال کیا جا سکے۔ پھر یہ مسلکی دفاع کے لیے استعمال ہونے لگا۔ عوام کے لیے یہ ہمیشہ تفریح کا باعث رہا ہے۔ ٹی وی اور میڈیا بھی اصلاً تفریح کے لیے ہیں۔ اس لیے یہاں یہ کوشش ہوتی ہے کہ ہر موضوع کو مناظرے کی صورت دے دی جائے۔ سیاسی ٹاک شو‘ مثال کے طور پر چند سال پہلے تفریح کا سب سے بڑا ذریعہ تھے۔ لوگ مزاحیہ پروگراموں پر اس 'کشتی‘ کو ترجیح دینے لگے جو سیاسی ٹاک شوز میں ہوتی تھی کہ یہ حَظ اٹھانے کا بہتر ذریعہ تھے۔ یہی کام مذہبی مباحث سے بھی لیا جانے لگا۔ اب ہر وہ شخص ٹی وی چینلز کا مطلوب بن گیا جو مذہب کا' شیخ رشید‘ تھا۔ یعنی جس میں یہ 'صلاحیت‘ تھی کہ وہ مذہب میں زیادہ سے زیادہ اختلافات کو نمایاں کر اسے ایک عامیانہ رنگ دے سکتا۔
آہستہ آہستہ‘ میڈیا کے مذہبی پروگراموں پر ان عناصرکا غلبہ ہو گیا جو عالم یا سکالر نہیں‘ مذہبی فنکار ہیں۔ جو مذہب کو تفریح میں بدل سکتے ہیں۔ مذہبی پروگرام مکالمے کے بجائے‘ مناظرے کے پروگرام بن گئے۔ یہاں تک کہ اب وہ لوگ ٹی وی چینلز پر مذہب کی نمائندگی کرنے لگے جن کا اصل میدان ڈرامہ نگاری یا اداکاری ہے۔ مذہب بھی سیاست کی طرح غیر سنجیدگی کی نذر ہو گیا۔
مسئلہ یہ نہیں ہے کہ طاغوت کا درست مفہوم کیا ہے؟ اس باب میں اہلِ علم نے بہت دادِ تحقیق دی ہے۔ ابلیس سے لے کر مسندِ اقتدار پر متمکن وہ حکمران بھی طاغوت کی تعریف میں شامل کیے گئے ہیں جو اللہ کی ہدایت کے مطابق فیصلے نہیں کرتے۔ مسئلہ طاغوت کی تعریف کا نہیں‘ اس رویے کا ہے جو ایسے پروگراموں میں اختیار کیا جاتا ہے۔ یہ مناظرانہ اسلوب ہے جس کا مقصد معاملے کی تفہیم نہیں‘ ذاتی فتح ہے۔ اب یہ حالات پر ہے کہ یہ زیر اور پیش کی نکتہ دانی سے حاصل ہوتی ہے یا طاغوت کی بحث سے۔
گزشتہ تین عشروں میں سماج کی جو کایا کلپ ہوئی‘ اس نے ایک ہیجان کو فروغ دیا ہے۔ اس کا سب سے زیادہ نقصان مذہب کو پہنچا۔ مذہب کے نام پر جذباتیت کو فروغ ملا۔ مذہب ہدایت کے بجائے عصبیت بن گیا۔ اس فضا کو میڈیا نے تقویت پہنچائی۔ جو کسر رہ گئی تھی‘ وہ سوشل میڈیا نے پوری کر دی۔ مذہب کو اکھاڑا بنا دیا گیا اور اس کا حقیقی پیغام نظروں سے اوجھل ہو گیا۔ سوشل میڈیا کے ساتھ‘ معاشی مفادات کی وابستگی نے معاملے کو سنگین بنا دیا ہے۔ سوشل میڈیا آج ابلاغ سے زیادہ‘ کمائی کا ذریعہ ہے۔ ہیجان‘ سنسنی‘ اختلاف... عوام ان کی طرف سرعت کے ساتھ متوجہ ہوتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس کا حل کیا ہے؟
جدید میڈیا کو صرف ایک ذریعہ ابلاغ سمجھنا‘ شاید درست نہ ہو۔ یہ اصلاً سرمایہ دارانہ نظامِ فکر کا ابلاغی ہتھیار ہے۔ اس کی تعمیر میں یہ خرابی مضمر ہے کہ یہ ہر شے کو جنسِ بازار سمجھتا ہے۔ اس کے ہاتھ لگنے والا ہر تصور یا عمل‘ پہلے مرحلے میں قلبِ ماہیت سے گزر کر‘ اس کے جوہر سے مطابقت پیدا کرتا ہے تو اس میں جگہ بنا سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر وہ یہاں ہوتا ہے مگر ناقابلِ ذکر رہتا ہے یا ناقابلِ دید۔ قابلِ دید بننے کے لیے یا سادہ لفظوں میں 'لائکس‘ (likes) کے لیے‘ بعض اوقات سنجیدہ لوگ بھی اس رو میں بہہ جاتے ہیں۔
اس کے ساتھ مگر یہ اعتراف بھی کرنا چاہیے کہ گریز کا کوئی راستہ ان کے پاس بھی موجود نہیں ہے جو اس روش سے بیزار ہیں۔ بادلِ نخواستہ انہیں بھی یہیں سے گزرنا ہے۔ ان کا امتحان یہ ہے کہ وہ اس میڈیم کے شر سے خود کو بچاتے ہوئے‘ اسے محض ایک ابلاغی ذریعے کے طور پر کیسے استعمال کر سکتے ہیں۔ یہ معاملہ 'اسلامی بنکاری‘ کی طرح کا ہے۔ بینک تو ہم ختم کرنے سے رہے‘ اسے 'اسلامی‘ بنانے کی کوشش تو کر سکتے ہیں۔ ہم کم ازکم یہ تو بتا سکتے ہیں کہ 'طاغوت‘ کیا ہوتا ہے؟ اب ممکن ہے کہ ہمارے 'لائکس‘ کسی 'طاغوت‘ جتنے نہ ہوں مگر کچھ کان تو ہوں گے جو 'متبادل بیانیے‘ کی طرف متوجہ ہو جائیں۔
ابلاغ کا جدید نظام خود طاغوت کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ ریاست اپنے تمام تر وسائل کے باوصف‘ ایک بیانیے کا توڑ نہیں کر سکی۔ یہ اس کی قوت کا ایک اظہار ہے۔ اس کے باوجود گریز کوئی راستہ نہیں۔ آواز نحیف سہی‘ بلند تو کرنا ہو گی۔ ہمیں مناظرے کی نہیں‘ مکالمے کی ضرورت ہے۔ میڈیا کا کوئی حقیقی نمائندہ تو یہ نہیں کرے گا کہ یہ کام اس کے مقصدِ وجود سے متصادم ہے۔ یہ کام ان کو کرنا ہو گا جو سماج کو اس کے مضر اثرات سے پاک کرنا چاہتے ہیں۔