گرفتاریاں:بطور احتجاجی ایوان کو3دن رکھنا چاہیے:فضل الرحمٰن:سوچنا پڑے گا عہدہ رکھوں یا چھوڑدوں:سپیکر

گرفتاریاں:بطور احتجاجی ایوان کو3دن رکھنا چاہیے:فضل الرحمٰن:سوچنا پڑے گا عہدہ رکھوں یا چھوڑدوں:سپیکر

اسلام آباد(سٹاف رپورٹر،نامہ نگار، دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک)قومی اسمبلی اجلاس میں تحریک انصاف کے 10گرفتار ارکان کی پروڈکشن آرڈر پر اجلاس میں شرکت،بیرسٹر گوہر ودیگر کی طرف سے استقبال، بانی پی ٹی آئی کے حق میں نعرے ، سربراہ جے یو آئی مولانا فضل الرحمن نے کہا گرفتاریوں کیخلاف بطور احتجاج ایوان کو 3دن بند رکھنا چاہیے ، سپیکر اسمبلی ایاز صادق نے کہا مجھے بھی اندر جا کر سوچنا پڑے گا کہ عہدہ رکھوں یا چھوڑ دوں۔

وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا ہمارے جوساتھی پروڈکشن آرڈرپرتشریف لائے ہیں انہوں نے اپنا حق نمائندگی نہیں کھویا، ہم سے دنوں اورمہینوں کیلئے نہیں بلکہ سالوں کیلئے یہ حق چھینا گیاتھا،وزیراعلیٰ کے پی علی امین گنڈاپورکا افغانستان سے مذاکرات کا اعلان وفاق پر حملہ ہے ۔ خیال رہے 10ارکان اسمبلی کو دو روز قبل پارلیمنٹ کے باہر سے گرفتار کیا گیا تھا، شیر افضل مروت،وقاص اکرم،زین قریشی،عامر ڈوگر،نسیم علی شاہ،احد علی شاہ،یوسف خان،محمد احمد چٹھہ،زبیر خان اور اویس حیدر جھکڑکو سپیکر کے جاری پروڈکشن آرڈر کے بعد سرکاری طور پر سخت سکیورٹی میں پارلیمنٹ پہنچایا گیا،جنہوں نے سپیکر اسمبلی ایاز صادق سے ملاقات کی،تحریک انصاف کے گرفتار اراکین کو چائے ، سینڈوچز، بسکٹس اور کولڈ ڈرنکس پیش کی گئیں، ترجمان کا کہنا ہے کہ سپیکر نے بطور کسٹوڈین آف دی ہائوس اراکین کی میزبانی کی کسی بھی رکن نے چائے پینے سے انکار نہیں کیاسپیکر نے زیر حراست اراکین کا موقف بھی سنا۔

اجلاس میں نکتہ اعتراض پر اظہار خیال کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمن نے کہا پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پر سپیکر کو خراج تحسین پیش کرتا ہوں لیکن حق تو یہ تھا اس واقعے کے بعد ایوان کو تین دن کیلئے بند کردیا جاتا،آج خیبرپختونخوا کے مختلف اضلاع میں پولیس نے احتجاج اور دھرنا دیا ہوا ہے اگر پولیس نے فرائض ادا کرنا چھوڑدئیے تو کیا ہوگا، ادارے اور اداروں کے بڑے اپنی ایکسٹینشن کے لیے فکر مند ہیں ملک کیلئے نہیں، ایکسٹینشن کا عمل فوج سمیت ہرادارے میں غلط ہے اگر یہ حق ہے تو پارلیمنٹ کو بھی ایکسٹینشن کا حق ہے ، یہ روایات ٹھیک نہیں ہم اپوزیشن ہیں اور غلط روایت کی بنیاد نہیں ڈالیں گے ، آج پارلیمنٹ میں بیٹھ کر ہم کسی کی ایکسٹینشن کی تائید کیوں کریں گے ، ہمیں تسلیم کرنا چاہیے ہمارا عدالتی نظام فرسودہ ہوچکا ہے ، جتھوں کو ختم کریں اور پارلیمنٹ کو مضبوط بنائیں، عدالتیں سیاسی گروہ بن چکی ہیں، کوئی عدالتیں کسی کو سپورٹ کرتی ہیں کوئی کسی کو۔ حکومت کو کہوں گا اپوزیشن کے ساتھ مل کر عدالتی نظام میں اصلاحات لائی جائیں، فوج اور عدلیہ میں ایک معیار لایا جائے ، سپریم کورٹ میں 60 ہزار سے زائد مقدمات زیرالتوا ہیں کیا یہ نہیں ہوسکتا کہ آئینی معاملات کیلئے الگ عدالتیں بنائی جائیں۔ آج ملک میں انگریز دور کا عدالتی نظام چل رہا ہے ، اعتماد کو بحال کرنا پڑے گا اور پارلیمنٹ کو سپریم بنانا ہوگا۔ آج کوئی بات کریں تو توہین عدالت ہوجائے گی، بلوچستان پر بات کریں تو ایجنسیاں آجاتی ہیں،سپیکر نے کہاکہ وہ تو ہمارے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ ہم فوج اور عدلیہ کے خلاف نہیں بول سکتے لیکن میرے پارلیمنٹیرینز کو پارلیمنٹ سے گرفتار کرنے کی بھی اجازت نہیں ہونی چاہیے ،فضل الرحمن نے کہا چیف جسٹس کیلئے پارلیمان اور جوڈیشل کونسل کا اجلاس ہونا چاہیے ، عدالتی اصلاحات ہونی چاہئیں، اپوزیشن کو اعتماد میں لے کر اصلاحات ہونی چاہئیں۔انیسویں ترمیم کیلئے پارلیمنٹ کو بلیک میل کیا گیا، انیسویں آئینی ترمیم کیلئے ایک جج نے پارلیمان کو بلیک میل کیا انیسویں آئینی ترمیم کو ختم ہونا چاہیے ۔وزیر دفاع خواجہ آصف نے کہا سپیکرنے ایک روایت کاآغازکیاہے جولائق تحسین ہے اگریہ روایت سابق سپیکر اسدقیصرنے شروع کی ہوتی توآج ایوان میں تلخی کاماحول نہ ہوتا،مجھے معلوم ہے سپیکر نے کسی سے پوچھ کرنہیں بلکہ ایوان کے تقدس کیلئے اقدام اٹھایاہے ،ہمارے جوساتھی پروڈکشن آرڈرپرتشریف لائے ہیں ۔

انہوں نے اپنا حق نمائندگی نہیں کھویا، ہم سے دنوں اورمہینوں کیلئے نہیں بلکہ سالوں کیلئے یہ حق چھینا گیاتھا، تاریخ کی درستی ضروری ہے ، انہوں نے پی ٹی آئی کے رکن اسمبلی شیرافضل مروت سے ملاقات کے حوالے سے کہاکہ وہ مجھ سے چند لمحوں کیلئے ملے اوران کی جماعت ان کے پیچھے پڑگئی، یہ المیہ ہے کہ اپوزیشن کاکوئی بھی رکن کسی سرکاری پارٹی کے بندے سے مل لے توان کی پارٹی ان کے پیچھے پڑجاتی ہے ، 1990کی دہائی میں پیپلزپارٹی اورمسلم لیگ(ن) کے د رمیان بھی تلخی تھی مگرشام کومل کرکھانا اورمل بیٹھ بھی جاتے تھے ،چاربرسوں میں ارکان قومی اسمبلی کے ساتھ کیاہواتھا،سیاسی کارکن جب مظالم اورناروا سلوک کی داستان سناتاہے تو ان کی اپنی تکریم متاثرہوتی ہے ،سیاسی کارکن کو ظلم اورزیادتی پر سر اونچا کر کے اس کوسہنا اور برداشت کرنا چا ہیے اوردعاکرنی چاہیے کہ یہ سلسلہ بندہو، اگریہ سلسلہ جاری رہتا ہے تواس سے ،ملک،آئین، قانون اورایوان کو نقصان پہنچتا ہے ،وزیراعلیٰ خیبرپختونخوا کابیان آیا ہے کہ ہم خودافغانستان سے بات کریں گے ، یہ وفاق پرحملہ ہے ،کوئی صوبہ کسی دوسرے ملک کے ساتھ براہ راست مذاکرات نہیں کر سکتا، یہ ان کے چار روز پہلے کے خطاب کاتسلسل ہے ، جس راستے پروہ چل رہے ہیں اوراپنی پارٹی کوچلانے کی کوشش کررہے ہیں وہ زہرقاتل ہے ۔پی ٹی آئی کے اسد قیصر نے کہاخواجہ آصف نے کہا کہ ہمارے پروڈکشن آرڈر جاری نہیں ہوتے تھے جب میں سپیکر تھا تو میں نے کسی کے پروڈکشن جاری کرنے سے انکار نہیں کیا۔ بلاول بھٹو نے معاشی اعشاریے بہتر ہونے کی بات کی، اچھا ہوتا بلاول بھٹو کچھ تفصیل بھی بتاتے ، ہمارا کہنا ہے کہ ملک تباہی کی طرف جارہا ہے تمام سیاسی مقدمات ختم کیے جائیں، ہمیں اس پارلیمنٹ کے تقدس کی حفاظت کرنی ہے مگر یہاں آئینی ترامیم کرنے کیلئے حربے استعمال کیے جا رہے ہیں، ہمارے ایم این ایز کو خریدنے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔

ایوان کی تذلیل کی تحقیقات کے لئے ایوان کے ارکان پر مشتمل کمیٹی بنائی جائے ۔اپوزیشن لیڈر عمر ایوب نے پروڈکشن آرڈر جاری کرنے پرسپیکر قومی اسمبلی کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا ہم وقت پر جلسہ ختم کرنے کیلئے تیار تھے ، اگر رکاوٹیں نہ ڈالتے تو جلسہ وقت پر ختم ہوجاتا، اگلے دن ہمارے اوپر پرچے شروع ہوگئے ، ملک امتیاز کا نام بھی پرچے میں شامل تھا لیکن وہ ایک سال پہلے (ن) لیگ میں شامل ہوچکے تھے اور 6 مہینے قبل ان کا انتقال ہو چکا ہے ۔شیر افضل مروت نے کہا ہے کہ تین چار دنوں میں کچھ اچھی باتیں بھی ذہن میں سما گئی ہیں، سپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کا شکریہ ادا کرتا ہوں، انہوں نے نفرت کے ماحول میں کھانے کا اہتمام کیا اور ہمیں سنا، پارلیمنٹ کے ساتھ جو ہوا شاید یہ نہ ہوتا۔ رانا ثنا اللہ کے ساتھ جو ہوا ہمیشہ اس کی مذمت کی، خواجہ آصف اور عطا تارڑ کی طرف سے پی ٹی آئی سے نفرت کی جاتی ہے ، قسم اٹھاتا ہوں اگر ان کو کچھ کہا جائے گا تو وہ ہاتھ روکوں گا۔شیخ وقاص اکرم نے کہا یونین کونسل میں بھی ایس ایچ او کو گھسنے نہیں دیتے یہاں تک وکلا بار میں بھی، اس پارلیمنٹ کا ضلع کونسل سے درجہ کم کر دیا ہے ، جلسہ کرنے کی اتنی سزا کیوں، دس ستمبر کو یوم سیاہ ڈکلیئر کیا جائے ، عامر ڈوگر نے کہا میرا سپیکر اتنا بے بس تھا جس کا مجھے بہت دکھ ہے ۔سپیکر ایاز صادق نے کہاکہ آپ کے ذہنوں میں یہ بات ہے کہ میں ذمہ دار ہوں تو مجھے بھی اندر جا کر سوچنا پڑے گا کہ مجھے یہاں رہنا ہے یا نہیں۔زین قریشی نے کہا سانحہ پارلیمنٹ آئندہ نہیں ہونا چاہیے ، کمیٹی کی جو فائنڈنگ آئیں اس کو پبلک کیا جائے ۔

زرتاج گل نے کہاپی ٹی آئی کے منتخب نمائندوں کو گرفتار کرنے والوں کے خلاف کارروائی ہونی چاہیے ۔دریں اثنا چارٹر آف پارلیمنٹ کیلئے تشکیل کردہ حکومت اور اپوزیشن رہنماؤں پر مشتمل خصوصی کمیٹی کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس ہوا،کمیٹی نے سید خورشید شاہ کو متفقہ طور پر چیئرمین منتخب کر لیا،اجلاس میں وزیر دفاع خواجہ آصف کی چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر اور صاحبزادہ حامد رضا سے تلخ کلامی ہوئی اور وزیر دفاع نے اجلاس چھوڑ کر جانے کی کوشش کی لیکن محمود خان اچکزئی نے بروقت مداخلت کر کے انہیں جانے سے روک لیا۔دوران اجلاس صاحبزادہ حامد رضا نے کہا کہ پارلیمنٹ پر شب خون مارا گیا، ایک مرتبہ کھڑے ہو جائیں۔خواجہ آصف نے کہا میاں نواز کو اپنی بیوی کو ٹیلی فون کال نہیں کرنے دی گئی، رانا ثنا اللہ پر ہیروئن ڈال کر کہتے تھے جان اللہ کو دینی ہے ، کیا یہ کمیٹی ہم پر تنقید کے لیے بنی ہے ، میں اس کمیٹی کا ممبر نہیں رہنا چاہتا۔ خواجہ آصف کمیٹی کے اجلاس سے جانے کیلئے سیٹ سے اٹھ گئے تاہم محمود خان اچکزئی نے خواجہ آصف کو میٹنگ میں بیٹھنے کے لیے منا لیا، چیئرمین خورشید شاہ نے اجلاس صبح دوبارہ طلب کرلیا،مولانا فضل الرحمن اور عمر ایوب کو کمیٹی کا رکن بنادیا گیا۔قومی اسمبلی میں وقفہ سوالات کے دوران جواب دیتے ہوئے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا عوام کی سستے اور فوری انصاف تک رسائی یقینی بنانے کیلئے ضابطہ فوجداری پیکیج تیار کیا جارہاہے جسے جلد کابینہ میں منظوری کے لئے پیش کیا جائے گا،ایسے قوانین جن پر صوبوں کے تحفظات ہیں، ان پر بیٹھ کر بات ہوگی۔وزیرپٹرولیم مصدق ملک نے ارکان کے سوالوں کے جواب دیتے ہوئے کہا ہم ٹیکس نہیں دیتے اس لئے پٹرولیم لیوی لگائی گئی ہے پرچون اور ہول سیل پر ٹیکس بتدریج لگایا جارہا ہے جس کے بعد پٹرولیم لیوی کی شرح میں کمی آجائے گی۔بعدازاں سپیکر نے اجلاس کی کارروائی جمعہ کی صبح گیارہ بجے تک ملتوی کردی۔

 اسلام آباد (اپنے رپورٹرسے ، این این آئی) سینیٹ نے پارلیمنٹ کے احا طہ سے ممبران اسمبلی کی گرفتاریوں کے خلاف مذمتی قرارداد متفقہ طور پر منظور کرلی جس میں کہا گیا کہ اس شرمناک اقدام نے جمہوریت کی نفی کی، گرفتاریاں کرنے والوں کے خلاف کارروائی کی جائے ۔چیئرمین سینیٹ یوسف رضا گیلانی کی زیرِ صدارت سینیٹ کا اجلاس ہوا، مذمتی قرارداد اپوزیشن لیڈر شبلی فراز نے پیش کی۔قرارداد کے متن کے مطابق ، یہ ایوان پارلیمنٹ پر حملے اور 10 منتخب ممبران قومی اسمبلی کی پارلیمنٹ سے گرفتاری کی مذمت کرتا ہے ،پاکستان کی بالادستی بحال کی جائے ۔ مسلم لیگ (ن)کے سینیٹر عرفان صدیقی نے اپنے خطاب میں کہا پارلیمنٹ کے اندر جو ہوا اس کی مذمت کرتا ہوں، اس کی تحقیقات کا سپیکر نے حکم دے دیا، انہیں کیفر کردار تک پہنچنا چا ہئے ۔

مجھے 75 سال کی عمر میں ہتھکڑی لگا کر کھڑا کیا گیا، مجھے گھر سے نکالا گیا میری بیوی کے بازو پر چوٹ آئی، کاش اس وقت کوئی آواز اٹھاتا کسی نے اسے غلط نہیں کہا، علی ظفر نے کہا کہ بانی پی ٹی آئی نے بڑی وضاحت سے کہا کہ رول آف لا کی حکمرانی کے لئے کھڑے رہنا ہے ، آپ تو اتنے خوف زدہ ہیں کہ انٹرنیٹ تک بند کر دیتے ہیں، عمران خان نے قوم کے لئے اہم پیغام دیا کہ ہم لاہور کا جلسہ ہر صورت میں کریں گے ، حکومت چاہے جلسے کا این او سی دے یا نہ دے ، ہمارا جلسہ ہوگا،پارلیمنٹ کے اندر سے ارکان اسمبلی کی گرفتاری پر وزیراعظم یا وزیر داخلہ میں سے کسی ایک کو استعفٰی دینا پڑے گا، اب صرف مذمت سے کام نہیں چلے گا۔ بعد ازاں ایوان بالا نے نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ایکٹ ترمیمی بل 2024 اور بھنگ کنٹرول اینڈ ریگولیٹری اتھارٹی بل 2024 کی بھی کثرت رائے سے منظور دیدی تاہم بھنگ کنٹرول اتھارٹی کا اکائونٹ اسلامک بینکس میں کھولنے کی اپوزیشن کی ترمیم مسترد کردی گئی، وزیر تعلیم خالد مقبول صدیقی نے نیشنل یونیورسٹی آف ٹیکنالوجی ایکٹ میں ترمیمی بل پیش کیا جو کثرت رائے سے منظور ہوگیا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں