مُلا نصرالدین کا یہ لطیفہ ہم سب نے سنا ہوا ہے کہ وہ کوئی گمشدہ شے باہر سڑک پر ڈھونڈ رہا تھا۔ پوچھا گیا: وہ شے کہاں رکھی تھی۔ کہنے لگا: کمرے میں۔ پوچھنے والے نے کہا کہ کمرے میں رکھی تھی تو کمرے ہی میں تلاش کرو۔ مُلا نے جواب دیا کمرے میں اندھیرا ہے۔ نہیں معلوم مُلا نصرالدین کا وجود تھا یا نہیں مگر یہ حقیقت ہے کہ ایک قوم کی حیثیت سے‘ ہماری حرکتیں مُلا نصرالدین کی سی ہیں۔ ہم ہر وہ شے کمرے سے باہر ڈھونڈتے ہیں جسے کمرے کے اندر رکھا تھا۔ ہم وہاں پانی دیتے ہیں جہاں بیج نہیں بوئے تھے۔ ہم ویرانے میں بازار لگاتے ہیں جبکہ بازار کی ضرورت آبادی میں ہوتی ہے۔ ہم سر پر چھتری وہاں تانتے ہیں جہاں دھوپ ہوتی ہے نہ بارش! ہم 77 برسوں سے یہی کچھ کر رہے ہیں! ہم ایک دائرے میں چکر لگا رہے ہیں۔ کئی برسوں سے! کئی دہائیوں سے!! نتیجہ یہ ہے کہ ہم قوموں کی فہرست میں پاتال سے بھی نیچے ہیں۔ اس پر بھی ہم خوش ہیں کہ نیچے سے ہماری پوزیشن دوسری یا تیسری ہے۔
خواندگی کے عالمی دن پر ''لٹریسی ڈے واک‘‘ منعقد کی گئی۔ یقین کیجیے اس پر مُلا نصرالدین بھی ہنس پڑے گا۔ آپ کا کیا خیال ہے یہ واک کہاں منعقد ہوئی؟ اسلام آباد میں! جہاں خواندگی کی شرح ملک میں سب سے زیادہ ہے۔ اسلام آباد میں بھی کہاں؟ کسی بازار‘ کسی سیکٹر‘ کسی محلے‘ کسی آبادی میں؟ نہیں! یہ واک بلیو ایریا پر منعقد ہوئی۔ شہیدِ ملت سیکرٹریٹ سے لے کر ڈی چوک تک‘ جہاں دونوں طرف بینکوں اور کمپنیوں کے دفاتر ہیں! اگر آپ اسلام آباد کے جغرافیے سے واقف ہیں تو ہنسے بغیر نہیں رہ سکیں گے!!
یہ واک‘ اور اسی طرح کی اور Walks چند آسودہ حال افراد کے چونچلوں کے علاوہ کچھ نہیں۔ کبھی ذیابیطس سے آگہی کے لیے اور کبھی دل کی بیماریوں کے حوالے سے واک منعقد کی جاتی ہے۔ شہر کی کسی بڑی شاہراہ پر! ایک آدھ فرلانگ کی واک! ہاتھوں میں کچھ بینر تھامے! دوسرے دن کچھ اخبارات (زیادہ تر انگریزی اخبارات) میں اور کچھ ٹی وی چینلوں پر ایک آدھ جھلکی! ایسی کوئی واک وہاں منعقد نہیں کی جاتی جہاں اس کی ضرورت ہے‘ جہاں عام آدمی اسے دیکھیں اور آگہی حاصل کریں! اب اس لٹریسی ڈے کی واک ہی کو دیکھ لیجیے۔ ارے بھئی! ناخواندگی اسلام آباد کے بلیو ایریا یا لاہور کے مال روڈ پر نہیں‘ ناخواندگی تو ہماری بستیوں‘ قریوں اور قصبوں میں ابلیس کی طرح رقص کناں ہے۔ جس تنظیم نے یہ واک منعقد کی وہ سرکاری نہیں تو نیم سرکاری ضرور ہو گی۔ اسے حکومت کی طرف سے گرانٹ بھی ملتی ہو گی۔ آڈیٹر جنرل آف پاکستان اس کا آڈٹ بھی کرتا ہو گا۔ سوال یہ ہے کہ کیا اس کی کارکردگی کا آڈٹ (Performance Audit) بھی کبھی ہوا؟ اس کے طفیل کتنی خواندگی بڑھی؟ اگر واک ہی منعقد کرنی ہے تو کتنے اور کون کون سے گاؤں ہیں جہاں آگہی پیدا کرنے کے لیے اور شعور بڑھانے کے لیے واک کی گئی؟ چلیں‘ دیہات کو بھی چھوڑ دیجیے‘ کون کون سے قصبے ہیں جہاں ایسی واک منعقد کی گئی؟ اگر ایسی واک کا واقعی کوئی فائدہ ہے تو یہ کم از کم ہر ضلع کی ہر تحصیل میں منعقد کرنی چاہیے تھی!
پھر ہمیں بتایا جاتا ہے کہ Each One Teach One (EOTO) پروگرام کے تحت ہر پڑھے لکھے فرد کو یہ ذمہ داری سونپی گئی ہے کہ وہ کم از کم ایک ناخواندہ فرد کو پڑھنا لکھنا سکھا دے! بہت خوب! اچھی بات ہے۔ تو پھر یہ بھی ازراہِ لطف و عنایت بتا دیجیے کہ یہ پروگرام کب سے نافذ ہوا؟ اب تک کتنے تعلیم یافتہ افراد نے کتنے افراد کو پڑھنا لکھنا سکھا دیا ہے؟ اگر یہ پروگرام اسلام آباد کے 184 سکولوں اور کالجوں میں چل رہا ہے تو اب تک کی کارکردگی کیا ہے؟ کتنے لوگ ناخواندگی کے اندھیرے سے نکل کر خواندگی کی روشنی میں آچکے ہیں؟ ان میں کتنے مرد ہیں اور کتنی عورتیں ہیں؟
حاشا و کَلّا ! ہمارا مقصد محض تنقید برائے تنقید نہیں! نہ ہی کسی تنظیم یا ادارے کی حوصلہ شکنی مقصود ہے۔ ہم نیت پر شک نہیں کر رہے۔ ہم صرف طریق کار (Modalities) کی بات کر رہے ہیں۔ اصل میدان اس کام کے لیے ملک کا دیہی حصہ ہے۔
EOTO ایک اچھا اور مفید تصور ہے۔ اصل مسئلہ اس کے نفاذ کا ہے۔ ہمارے خیال میں ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر میں تین چار ذمہ دار‘ پڑھے لکھے‘ معزز اور بھلے مانس افراد اس پروگرام کے انچارج بنائے جائیں۔ فرض کیجیے‘ ایک تحصیل میں دو سو گاؤں ہیں تو تحصیل ہیڈ کوارٹر میں چار معززین کو منتخب کیا جائے تا کہ ان میں سے ہر ایک کم از کم 50 بستیوں میں یہ پروگرام نافذ کرے اور نگرانی بھی کرے۔ ایسے ہر انچارج کو حقیقت پسندانہ بنیاد پر سفر خرچ دیا جائے اور ضروری سٹیشنری بھی مہیا کی جائے۔ اس لکھنے والے کا تعلق ایک گاؤں سے ہے۔ یقین کیجیے کام کی لگن رکھنے والے درد مند افراد ہر تحصیل ہیڈ کوارٹر‘ ہر قصبے اور ہر گاؤں میں موجود ہیں۔ انہیں صرف سرکار کی طرف سے رہنمائی چاہیے اور ضروری وسائل!! یہاں یہ وارننگ لازم ہے کہ خدا کے لیے ڈی سی‘ اے سی اور اس قسم کے حکام سے اس پروگرام کو بچایا جائے ورنہ کانِ نمک میں جا کر یہ پروگرام بھی نمک میں تبدیل ہو جائے گا۔
ناخواندگی کا اصل چیلنج لڑکیوں کے حوالے سے ہے۔ دیہی علاقوں میں یہ کام بہت مشکل ہے۔ خاص طور پر ان صوبوں اور ان علاقوں میں جہاں روایت پرستی کا زور ہے اور جہاں عورت کا ووٹ ڈالنے کے لیے بھی نکلنا دشوار ہے۔ بدقسمتی سے پڑوسی ملک میں جب سے نئی حکومت آئی ہے‘ لڑکیوں کی تعلیم پر پابندیاں عائد کر دی گئی ہیں۔ ملحقہ پاکستانی علاقے بھی اس مائنڈ سیٹ سے متاثر ہو سکتے ہیں۔ اس لیے یہ بات بھی ذہن میں رکھنا ہو گی کہ یہ کام آسان نہیں۔ یہ جان جوکھوں کا کام ہے۔ پہلے پولیو ٹیمیں بھی نقصان اٹھا چکی ہیں۔ جنوبی پنجاب میں بھی یہی صورتحال ہے بلکہ سچ پوچھئے تو پنجاب میں بھی عورت دشمنی کم نہیں! پنجاب میں بھی بیٹی کی پیدائش پر باپ اور دادی کو موت پڑ جاتی ہے۔ ماضی قریب میں ہی ایک خبر کے مطابق پنجاب کے ایک قصبے میں ایک بدبخت نے بیٹی کی پیدائش کا سن کر بیوی کو اسی وقت طلاق دے دی جب کہ ابھی وہ ہسپتال ہی میں تھی۔ عورتوں کی خواندگی اور تعلیم مردوں کی تعلیم سے بھی زیادہ ضروری ہے۔ جدید سنگا پور کے معمار نے اپنے لوگوں سے کہا تھا ''تم مجھے پڑھی لکھی مائیں دو‘ پھر دیکھو میں سنگاپور کو کہاں لے جاتا ہوں‘‘۔ بدقسمتی سے ہماری آبادی کے ایک بڑے حصے میں یہ تصور کارفرما ہے کہ خواندگی اور تعلیم صرف ملازمت کے لیے ہے۔ اس تصور کو ختم کرنا ہو گا۔ عورت کے تعلیم یافتہ ہونے کا مقصد یہ ہے کہ وہ خود بھی ایک اچھی شہری بنے اور بچوں کی تربیت اس طرح کرے کہ وہ بھی معاشرے کے لیے بوجھ کے بجائے اثاثہ بنیں۔
اور آخری گزارش! ہمارے ہاں ہر مہم‘ ہر منصوبہ اور ہر پروگرام بڑے شہروں سے شروع ہوتا ہے اور وہیں پر ختم ہو جاتا ہے۔ اگر خواندگی زیادہ کرنے کے لیے کوئی ادارہ ہے تو اس کا ہیڈ کوارٹر اسلام آباد کے بجائے کسی قصبے میں ہونا چاہیے۔ تعلیم یوں بھی اب وفاق کی نہیں صوبوں کی ذمہ داری ہے۔ ہر صوبے کا اپنا خواندگی کا ادارہ ہونا چاہیے۔ اس کے ذیلی دفاتر تمام اضلاع میں ہونے چاہئیں! ہاں اگر مقصد صرف گرانٹ کو خرچ کرنا ہے اور چند افراد میں ملازمتیں بانٹنا ہے تو اور بات ہے!!