پاکستان کی بجلی کی ضرورت یا طلب کو تو ایک طرف رکھیں‘ اصل چیز تو یہ ہے کہ ہمارا سسٹم کس قدر بجلی کا بوجھ برداشت کر سکتا ہے یعنی ہمارا بجلی کا موجودہ ترسیلی نظام کس حد تک بجلی صارفین تک پہنچانے کی استعداد کا حامل ہے؟ پیداوار تو بالکل ایک علیحدہ چیز ہے‘ اصل بات تو یہ ہے کہ اگر ترسیلی نظام کو اس کی استعداد سے زیادہ بجلی سپلائی کرنا پڑے تو وہ بیٹھ جائے گا۔ بجلی کے موجودہ ترسیلی نظام کے تحت جو زیادہ سے زیادہ بجلی صارفین تک پہنچانے کا ریکارڈ موجود ہے اس کے مطابق ہمارے نظام نے دوجولائی 2022ء کو 27ہزار میگاواٹ اور پھر چارجولائی 2023ء کو 27ہزار 400 میگاواٹ بجلی صارفین کو مہیا کی۔ اس سے زیادہ بجلی تو ہم نے اپنے صارفین کو کبھی سپلائی ہی نہیں کی‘ یعنی اس سے زیادہ بجلی پیدا بھی ہو جائے تو ہم اسے صارفین تک پہنچانے کی صلاحیت ہی نہیں رکھتے۔ یاد رہے کہ ہماری بجلی کی ملکی طلب 30 ہزار میگاواٹ ہے اور یہ وہ طلب ہے جو زیادہ سے زیادہ ہے۔ بجلی کی طلب اور رسد موسم کے مطابق کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ گرمیوں میں جبکہ اس کی طلب اپنے عروج پر ہوتی ہے‘ اس کی رسد بھی زیادہ سے زیادہ ہوتی ہے کہ ہائیڈل بجلی پیدا کرنے والے یونٹ گرمیوں میں اپنی پیداواری حد کے عروج پر ہوتے ہیں جبکہ سردیوں میں یہ پیداوار کم ترین سطح پر آ جاتی ہے۔
بجلی کی پیداوار کے کئی ذرائع ہیں۔ پن بجلی(ہائیڈل)‘ تھرمل بجلی( کوئلہ‘ گیس‘ ڈیزل‘ فرنس آئل اور دیگر فیول)‘ ایٹمی بجلی‘ سولر بجلی‘ ہوائی بجلی( ونڈ پاور) اور بگاس (گنے کے پھوگ سے بننے والی بجلی) سے پیدا ہونے والی بجلی کے مزید تفصیل اس طرح ہے: ہائیڈل بجلی کی پیداوار موسم کے مطابق کم زیادہ ہوتی رہتی ہے۔ اس کی زیادہ سے زیادہ پیداواری صلاحیت 10 ہزار 700 میگاواٹ جبکہ کم سے کم بعض اوقات 1000میگاواٹ تک پہنچ جاتی ہے۔ تھرمل ذرائع سے بجلی کی کل پیداوار28 ہزار 800 میگاواٹ ہے جس میں سرکاری بجلی گھروں کی پیداوار 4700میگاواٹ‘ آر ایل این جی کے چار پلانٹس کی پیداوار4800 میگاواٹ اور آئی پی پیز کی پیداوار 19 ہزار 300میگاواٹ ہے۔ وِنڈ سے 1838میگاواٹ‘ ایٹمی پلانٹس سے 3620میگاواٹ‘ سولر سے 880 میگا واٹ اور بگاس سے250 میگاواٹ بجلی پیدا ہوتی ہے۔ یہ کل مل کر 46 ہزار 88میگاواٹ بنتے ہیں۔ یعنی اس وقت ملک میں بجلی کی کل پیداواری استعداد 46 ہزار میگاواٹ سے زیادہ ہے جبکہ ملکی ضرورت30 ہزار میگا واٹ ہے اور ملکی بجلی کے ترسیلی نظام کی کل صلاحیت 28 ہزار میگاواٹ سے بھی کم ہے۔ اس سے آپ اندازہ لگائیں کہ ایسی صورت میں‘ جبکہ ملکی ضرورت صرف 30 ہزار میگاواٹ ہے‘ 46 ہزار میگاواٹ کی پیداوار پر پرائیویٹ بجلی گھروں سے انکی ساری پیدا کردہ بجلی خریدنے اور نہ خریدنے کی صورت میں انہیں ان کی پیداواری استعداد کے مطابق کپیسٹی چارجز ادا کرنے کے معاہدوں کی کسی ا حمق سے احمق شخص سے بھی توقع نہیں کی جا سکتی مگر ہمارے فیصلہ سازوں نے یہ احمقانہ معاہدے کیے۔ یعنی صاف دکھائی دے رہا تھا کہ پیک سیزن میں جب بجلی کی پیداوار 46 ہزار میگا واٹ سے زائد ہو جائے گی‘ کم از کم 16 ہزارمیگاواٹ بجلی سر پلس ہو جائے گی اور اس سرپلس بجلی کو خریدے بغیر ہم اسکے کپیسٹی چارجز ادا کریں گے۔ یعنی ایسی سولہ ہزار میگاواٹ بجلی جو نہ ہم نے خریدی اور نہ ہی اپنے صارفین کو پہنچائی مگر اس کی ادائیگی کی‘ جو آئی پی پیز کے مالکان کی جیب میں گئی۔
اس سارے چکر کا آغاز آئی پی پیز کی تنصیب سے شروع ہوتا ہے۔ بجلی کا ٹیرف منظور کرنا نیپرا کی ذمہ داری ہے اور نیپرا ٹیرف مقرر کرتے وقت بجلی کی پیداواری لاگت کو مدنظر رکھتی ہے۔ آئی پی پیز نے اپنا زیادہ ٹیرف منظور کرانے کی ابتدا اپنے پلانٹس کی تنصیب سے کی‘ انہوں نے اپنے پلانٹس کی EPC Cost ہی زیادہ دکھائی۔ ای پی سی سے مراد انجینئرنگ‘ پروکیورمنٹ و کنسٹرکیشن کاسٹ ہے۔ اس EPC کا جائزہ لے کر اسے منظور کرنا نپیرا کا کام ہے۔ ان پلانٹس کی کل لاگت کا 20 فیصد مالکان کی ایکیوٹی(سرمایہ کاری) اور 80 فیصد بینک کا قرضہ ہوتا ہے۔ مالکان نے پہلے تو یہ کیا کہ EPC لاگت بڑھا چڑھا کر بتائی۔ مثال کے طور پر کل لاگت ستر روپے تھی تو مالکان نے اسے بڑھا کر سوروپے دکھایا اور منظور کروالیا۔ اس سو روپے والی منظوری سے انہیں بینک سے اسی روپے قرض مل گیا۔ اب ستر روپے کی کل لاگت والے پلانٹ پر اسی روپے قرضہ مل گیا۔ مالک نے سو روپے والے پلانٹ پر خود پلے سے 20روپے لگانے تھے مگر اس نے نہ صرف ایک پیسہ لگائے بغیر پلانٹ لگا لیا بلکہ اس کو 10روپے مزید بچ گئے۔ اس طرح EPC لاگت بڑھا کر اس نے بغیر ذاتی سرمایہ کاری پلانٹ بھی لگا لیا‘ دس روپے بھی بچا لیے اور مزید یہ کہ اسے نیپرا سے جو ٹیرف ملا‘ وہ سو روپے کے پلانٹ پر تھا۔ وہی پلانٹ دنیا بھر میں اس سے کہیں سستے اور کم لاگت میں لگ رہے تھے مگر پاکستان میں ان کو جعلی پیش کردہ اعداد و شمار اور EPC کی بنیاد پر زیادہ ٹیرف دیا گیا۔ نیپرا اپنی ذمہ داری پوری کرنے میں بری طرح ناکام رہا۔میں کئی سال قبل اسلام آباد میں USAID کی طرف سے بجلی کے نظام کی بہتری کیلئے کیے جانے والے ایک تربیتی پروگرام میں شرکت کیلئے گیا تو وہاں ہمارے ایک دوست‘ جو تب USAID میں کنٹریکٹ پرتھے‘ نے بتایا کہ جو بجلی گھر پاکستان میں بجلی نو سینٹ فی کلوواٹ دے رہے ہیں انہی کمپنیوں کے ویسے ہی پاور پلانٹ بنگلہ دیش میں اپنی پیدا کردہ بجلی چھ سینٹ میں دے رہے ہیں۔ یعنی وہی مالکان ویسے ہی پلانٹس کی بجلی ہمیں بنگلہ دیش کی نسبت ڈیڑھ گنا قیمت پر دے رہے تھے۔ ظاہر ہے کمپنی جو کمیشن دے گی اسے وہیں سے وصول بھی کرے گی۔
پہلی زیادتی یہ تھی کہ ٹیرف ہی زیادہ منظور کیا گیا اور دوسرا ظلم یہ ہوا کہ ٹیرف ڈالر میں منظور کیا گیا‘ جو تب تو شاید زیادہ محسوس نہیں ہوا جب ڈالر سو روپے کے لگ بھگ تھا لیکن جیسے ہی ڈالر 170سے ایک دم 300روپے پر چلا گیا سب کچھ دھڑام سے گر گیا۔ اسحاق ڈار نے اس ملک و قوم کی معیشت سے جو کھلواڑ کیا وہ اپنی جگہ مگر بہرحال ڈالر کی قیمت کو خواہ جعلی طریقے سے ہی روکے رکھا‘ بجلی کی قیمت کا زیادہ اثر عام آدمی پر نہ پڑنے دیا مگر یہ کام عمران خان کے خصوصی طور پر آئی ایم ایف سے لائے ہوئے رضا باقر گورنر سٹیٹ بینک نے کیا اور ڈالر کو اوپن چھوڑ کر اسے تین سو روپے تک پہنچایا اور حلوہ کھانے والے فقیر کی طرح بوریا بستر سمیٹا اور اپنے آقا کے پاس واپس چلے گئے۔بجلی کے یہ معاہدے پڑھیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ یہ معاہدے دو پارٹیوں کے باہمی معاہدے نہیں بلکہ صرف ایک فریق نے لکھے ہیں جس میں اس نے اپنے قانونی تحفظ‘ معاشی ضمانتوں‘ حکومتی گارنٹیوں اور ادائیگیوں کے معاملات کو یکطرفہ تحفظ دیا ہے۔ فریقِ ثانی یعنی ہمارے ہاتھ میں کچھ بھی نہیں۔ یہ معاہدے ظاہر کرتے ہیں کہ فریقِ اول نے بے تحاشا منافع کمایا جبکہ فریقِ ثانی کے فیصلہ سازوں نے صرف کمیشن کمایا جبکہ ساری ادائیگی اب غریب قوم کے کندھوں پر ہے۔یہ معاہدے نالائقی‘ نااہلی‘ بدمعاملگی اور بدنیتی کے شاہکار ہیں۔ اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آئی پی پیز کی طرف سے کارپوریٹ قانون کے ماہر بار ایٹ لاء بیٹھے ہوتے ہیں اور ہماری جانب سے سرکاری بابو‘ جس کی کل قابلیت سیکشن آفیسرز کی طرف سے آنے والی فائلوں پر دستخط کرناہوتی ہے‘ ان معاہدوں پر بطور ماہر بیٹھا ہوتا ہے۔ ہمیں 77سال میں یہ بھی علم نہیں ہو سکا کہ کون سا کام کس نے کرنا ہے۔ نالائقوں کا ایک گروہ ہے جس نے اس قوم کو یرغمال بنا رکھا ہے۔ (جاری)