محترم احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا:
خدا کرے میری ارضِ پاک پر اترے
وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو
یہاں جو پھول کھلے وہ کِھلا رہے برسوں
یہاں خزاں کو گزرنے کی بھی مجال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
یہ محض احمد ندیم قاسمی صاحب کی دعا‘ تمنا‘ خواہش‘ آرزو اور خواب نہیں بلکہ ہر محبِ وطن پاکستانی کے دل کی آواز ہے‘ چاہے وہ یہاں کے حالات کی وجہ سے ویزے کی سہولت ملنے پر سورج غروب ہونے سے پہلے ملک چھوڑ جانا چاہتا ہو یا روزانہ لاکھوں کمانے کی وجہ سے اسی سرزمین پر رہنا پسند کرتا ہو۔
پاکستان کے سمندر میں تیل و گیس کے بڑے ذخائر موجود ہونے کی خبر نے ایک بار تو سب کو خوش کر دیا‘ لیکن یہ خوشی پٹرولیم ڈویژن کے ذرائع کی جانب سے اس وضاحت تک ہی رہی کہ تیل و گیس کے بڑے ذخائر موجودگی اندازہ یا تخمینہ ہو سکتی ہے۔ یاد رہے کہ چند روز قبل میڈیا اور سوشل میڈیا پر یہ خبر زیر گردش کرتی رہی کہ پاکستانی سمندری حدود میں تیل اور گیس کا بڑا ذخیرہ موجود ہونے کا انکشاف ہوا ہے۔ اس ذخیرے کے بارے میں بتایا جا رہا ہے کہ یہ دنیا کا چوتھا بڑا تیل اور گیس کا ذخیرہ ہے‘ جو تین سال کے سروے کے بعد سامنے آیا۔ بتایا گیا ہے کہ ایکسپلوریشن کا عمل شروع ہونے کے بعد تیل و گیس کی دریافت کا معلوم ہو سکے گا۔
کچھ عرصہ پہلے یہ خبر سامنے آئی تھی کہ سانگھڑ میں تیل و گیس کا بڑا ذخیرہ دریافت ہوا ہے جہاں سے 68 لاکھ مکعب فٹ گیس یومیہ نکالی جا سکے گی۔ اسی طرح یہ خبر بھی سننے اور پڑھنے میں آئی کہ کوہاٹ میں تیل و گیس کے نئے ذخائر دریافت ہوئے ہیں۔ ایسی خبریں اب اکثر سننے میں آتی ہیں۔ جتنی خبریں آتی ہیں‘ اگر گیس و پٹرولیم کے اتنے ذخائر دریافت ہوئے ہوتے تو اب تک پاکستان کو توانائی کے ان دونوں ذرائع میں خود کفیل ہو جانا چاہیے تھا‘ لیکن صورتحال یہ ہے کہ ہم پٹرولیم مصنوعات اور گیس‘ دونوں درآمد کرتے ہیں کیونکہ ان کی مقامی پیداوار ہماری ضرورت کے مطابق نہیں ہے۔ پاکستان کے پاس 35 کروڑ 35 لاکھ بیرل تیل کے ذخائر موجود ہیں اور اس لحاظ سے پاکستان دنیا کا 52واں بڑا ملک ہے۔ پاکستان کی تیل کی یومیہ پیداوار 88 ہزار 262 بیرل ہے اور اس لحاظ سے پاکستان دنیا کا 53 واں بڑا ملک ہے۔ یہاں تیل کی کھپت پانچ لاکھ 56 ہزار بیرل روزانہ ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان 33 واں بڑا ملک ہے۔ پاکستان یومیہ 4896 بیرل تیل برآمد بھی کرتا ہے۔ پاکستان ہر سال کم و بیش 17.5 بلین ڈالر کے توانائی کے ذرائع (پٹرولیم‘ گیس‘ کوئلہ) درآمد کرتا ہے۔ توانائی کے ماہرین کا کہنا ہے کہ اگر گیس اور پٹرولیم کے نئے ذخائر دریافت نہ کیے گئے تو اگلے سات برسوں میں پاکستان کا توانائی کا درآمدی بل 31 بلین ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ توانائی کی بڑھتی ہوئی ضرورت متقاضی ہے کہ تیل اور گیس کی دریافت کے کام میں تیزی لائی جائے۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ کام اطمینان بخش طریقے سے آگے بڑھایا جا رہا ہے؟ صورتحال کو دیکھ کر بخوبی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس سوال کا جواب 'نہیں‘ ہے۔ اگلا سوال یہ ہے کہ کیوں؟ اور اس اگلے سوال کا جواب یہ ہے کہ جب ہر حکومت اور حکمران قلیل مدتی اور محض ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں بنائے تو طویل المیعاد ترقی کا خواب کیسے دیکھا جا سکتا ہے؟
جب عمران خان وزیراعظم تھے تو انہوں نے ایک روز بتایا تھا کہ کراچی کے قریب گہرے سمندر میں تیل و گیس کے ذخائر کے لیے ڈرلنگ کی گئی تھی‘ ہو سکتا ہے وہاں سے گیس کا اتنا ذخیرہ ملے کہ پاکستان کو اگلے 50 سال تک گیس باہر سے منگوانی ہی نہ پڑے۔ تب یہ بھی بتایا گیا تھا کہ کراچی میں زیر سمندر ایشیا کا سب سے بڑا تیل اور گیس کا ذخیرہ دریافت ہو رہا ہے۔ اس وقت بھی بڑی خوشیاں منائی گئی تھیں۔ بعد میں پاکستان پٹرولیم لمیٹڈ (پی پی ایل) کے منیجنگ ڈائریکٹر نے بتایا تھا کہ زیر سمندر تیل و گیس کے ذخائر کی کامیابی پرکسی نے وزیراعظم کو بڑھا چڑھا کر معلومات فراہم کر دی تھیں‘ تیل و گیس کی تلاش کے لیے کیکڑا ون میں کامیابی کے 12 فیصد امکانات تھے جہاں سے گیس کے ذخائر کے بجائے پانی نکلا‘ گیس اور پٹرولیم نہیں۔
فروری 2015ء میں صوبہ پنجاب کے ضلع چنیوٹ میں رجوعہ کے علاقے میں سونے‘ تانبے اور لوہے کے ذخائر دریافت ہونے کی خبر بلکہ خوش خبری عوام تک پہنچائی گئی تھی۔ سرکاری بیان کے مطابق یہ ذخائر 28 مربع کلومیٹر کے علاقے پر محیط ہیں جبکہ تقریباً دو ہزار مربع کلومیٹر کے رقبے میں اسی قسم کے مزید ذخائر ملنے کی توقع ظاہر کی گئی تھی۔ تب پاکستان کی قیادت کم و بیش انہی چہروں پر مشتمل تھی‘ جو آج کل برسرِ اقتدار ہیں۔ قیادت نے یہ ذخائر ملنے پر نہایت مسرت و انبساط کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ملک کے وسیع علاقے سے لوہے اور دیگر معدنیات کی دریافت ملک میں خوشحالی کا سبب بنے گی جبکہ ملازمتوں کے وسیع مواقع بھی پیدا ہوں گے۔ کیکڑا ون کے پروجیکٹ میں تو گیس یا پٹرولیم دریافت نہیں ہوئے تھے لیکن سوال یہ ہے کہ چنیوٹ میں دریافت ہونے والے جن ذخائر کا جشن منایا گیا تھا‘ وہ کہاں گئے؟ اب جو ہمارا ملک اربوں ڈالر قرضوں کے بوجھ کے نیچے بے حال ہوا جاتا ہے اور مہنگائی کے بوجھ تلے عوام کی کمر دہری ہوئی جاتی ہے جبکہ حکومت ایک ایک ارب ڈالر کے حصول کے لیے کبھی ایک طرف آسرا تلاش کر رہی کبھی دوسری طرف‘ تو ان ذخائر کو بروئے کار لا کر قومی معیشت کا استحکام کیوں یقینی نہیں بنایا جاتا؟
جن ذخائر کا ذکر کالم کے آغاز میں کیا‘ وہ تو ابھی دریافت ہونے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ جو معدنی ذخائر دریافت ہو چکے ہیں اور ہمیں معلوم ہے کہ وہ کہاں کہاں اور کس کس مقدار میں موجود ہیں‘ ان کی کان کنی اور ان سے استفادے کے بارے میں کیوں سنجیدگی سے نہیں سوچا جاتا؟ حقیقت یہ ہے کہ ہم ان ذخائر کو کھود نکالنے اور اس سے فائدہ اٹھانے کی پوزیشن میں ہی نہیں ہیں۔ نہ ہم میں اتنی صلاحیت ہے کہ ان ذخائر کی ایکسپلوریشن کریں اور ان کو Dig Out کر کے قومی خزانے کو بھر سکیں اور نہ ہی ہم ان کے بارے میں اچھے فیصلے کرنے کی پوزیشن میں ہیں۔ یقین نہیں آتا تو بلوچستان کے ریکوڈک منصوبے کے معاملات پر ایک نظر ڈال لیں‘ سب کچھ واضح ہو جائے گا۔
دعا تو وہی ہے جس کو احمد ندیم قاسمی نے شعروں کے روپ میں ڈھالا تھا‘ لیکن سوال یہ ہے کہ اس خواب کو تعبیر بخشنے کے لیے ہم خود کیا کر رہے ہیں؟ یہ حقیقت ہے کہ وطنِ عزیز کو پروردگار عالم نے ہر طرح کی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ یہ ہماری نااہلی ہے کہ اس سے استفادے پر بھی قادر نہیں۔ عوام کو خوش خبریاں ضرور سنائیں‘ دعا ہے کہ یہ خوش خبریاں درست بھی ثابت ہوں لیکن کچھ عملی کوششوں کی بھی ضرورت ہے۔ ہم پر من و سلویٰ نہیں اترنے والا‘ اپنے ہاتھوں سے ہی کما کر کھانا پڑے گا۔ اب تو عالمی اقتصادی ادارے اور دوست ممالک قرضے دینے سے بھی قاصر نظر آتے ہیں۔ قعرِ مذلت میں سے نکلنے کی تگ و دو ہمیں کب کرنا ہے؟ یہ فیصلہ بھی ہمیں خود ہی کرنا ہے کہ ابھی یا تب جب ہم گردن تک مسائل کی دلدل میں دھنس چکے ہوں گے؟