نومبر میں ہونے والے امریکی صدارتی انتخابات میں حصہ لینے والے دو امیدواروں ریپبلکن پارٹی کے نمائندے اور سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیمو کریٹک پارٹی کی امیدوار اور موجودہ امریکی نائب صدر کملا ہیرس کے مابین پہلے ٹی وی مباحثے کے بعد دونوں اطراف سے اپنی اپنی جیت کے دعوے کیے جا رہے ہیں مگر آزاد حلقوں کے مطابق موخر الذکر نے میدان مار لیا ہے۔ امریکی نیوز نیٹ ورک سی این این کی طرف سے مباحثے کے فوراً بعد کیے گئے ایک سروے کے مطابق جن لوگوں نے یہ مباحثہ دیکھا‘ ان میں سے 63 فیصد کی رائے میں کملا ہیرس نے یہ مقابلہ جیت لیا جبکہ محض 37 فیصد کی رائے میں ڈونلڈ ٹرمپ اس مباحثے میں کامیاب رہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس مباحثے سے قبل ایک سروے میں 50 فیصد امریکیوں نے پیش گوئی کی تھی کہ اس مباحثے میں کملا ہیرس جیتیں گی۔ بی بی سی نے اپنی رپورٹ میں اے بی سی نیوز کے حوالے سے نیشنل پولز میں بھی کملا ہیرس کو ڈونلڈ ٹرمپ کے 44 فیصد کے مقابلے میں 47 فیصد کے ساتھ سبقت لیتے بتایا ہے۔ قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ کملا ہیرس کو صدارتی انتخابی مہم شروع کیے ہوئے تقریباً سات ہفتے ہی ہوئے ہیں‘ مگر اس مختصر عرصہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کے مقابلے میں اُن کی عوامی حمایت میں جس تیزی سے اضافہ ہوا ہے وہ غیر متوقع اور حیران کن ہے۔ اس سے قبل جون میں صدر بائیڈن‘ جو دوبارہ صدر بننے کے امیدوار تھے‘ ڈونلڈ ٹرمپ کے ساتھ پہلے ٹی وی مباحثے میں ان کی کارکردگی انتہائی مایوس کن رہی تھی۔ اس مباحثے میں ناکامی کے بعد صدر بائیڈن پر ڈیمو کریٹک پارٹی کی جانب سے صدارتی دوڑ سے باہر ہونے کیلئے پریشر ڈالا جانے لگا‘ جس کا خیال تھا کہ صدر بائیڈن 2024ء کا صدارتی انتخاب نہیں جیت سکتے کیونکہ وہ زیادہ عمر اور خراب صحت کے پیشِ نظر صدارتی انتخاب کی بھاگ دوڑ میں مستعدی سے حصہ نہیں لے سکتے۔
صدر بائیڈن صدارتی الیکشن کی دوڑ سے باہر نہیں ہونا چاہتے تھے اور اس وجہ سے ڈیمو کریٹک پارٹی کی عوامی حمایت میں کمی اور ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں اضافہ ہونے لگا تھا۔ حتیٰ کہ ریاست نیو یارک‘ جو ہمیشہ سے ڈیمو کریٹک پارٹی کا گڑھ رہی ہے‘ میں بھی ڈونلڈ ٹرمپ کی حمایت میں اضافہ دیکھا گیا۔ اس پر ڈیمو کریٹک پارٹی میں تشویش کی لہر دوڑ گئی اور اس کے کانگرس اراکین نے نہ صرف صدر بائیڈن پر صدارتی دوڑ سے دستبردار ہونے کیلئے دباؤ بڑھا دیا بلکہ بعض سرکردہ ڈیمو کریٹک رہنماؤں‘ جن میں سابق صدور بل کلنٹن اور براک اوباما بھی شامل تھے‘ نے صدر بائیڈن کی نئے انتخابات میں بطور صدر نامزدگی پر ہچکچاہٹ کا اظہار کرنا شروع کر دیا۔ اس دوران 14 جولائی کو ڈونلڈ ٹرمپ پر ایک انتخابی جلسے سے خطاب کے دوران قاتلانہ حملہ ہوا جس میں خوش قسمتی سے وہ محفوظ رہے اور معمولی زخمی ہوئے‘ ا س سے ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوگیا۔ دوسری طرف ڈیمو کریٹک پارٹی کی صفوں میں مکمل کنفیوژن تھی کیونکہ صدر بائیڈن ٹرمپ کا مقابلہ کرنے پر بضد تھے۔ ڈیمو کریٹک پارٹی کی صفوں میں مایوسی اور بددلی کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ انہیں صدر بائیڈن کا کوئی موزوں متبادل صدارتی امیدوار بھی نہیں مل رہا تھا۔ اس موقع پر بعض حلقوں کی طرف سے یہ دعویٰ کیا جانے لگا کہ اب ڈونلڈ ٹرمپ کو امریکہ کا دوبارہ صدر منتخب ہونے سے کوئی نہیں روک سکتا‘ لیکن 21 جولائی کو صدر بائیڈن نے صدارتی انتخاب کی دوڑ سے باہر ہونے اور اپنی جگہ نائب صدر کملا ہیرس کیلئے پارٹی ٹکٹ کی حمایت کا اعلان کر دیا۔ کملا ہیرس کی بطور صدارتی امیدوار نامزدگی پر ٹرمپ کا پہلا ردِعمل یہ تھا کہ ''اب میرے لیے صدارتی انتخاب جیتنا اور بھی آسان ہو گیا ہے‘‘ کیونکہ ان کا خیال تھا کہ نان وائٹ اور عورت ہونے کی وجہ سے کملا ہیرس کی نامزدگی کی ان کی پارٹی کے ڈیلیگیٹ حمایت نہیں کریں گے مگر ٹرمپ کو پہلا دھچکا اس وقت لگا جب 19‘ 20اگست کو ہونے والے ڈیمو کریٹک پارٹی کے نیشنل کنونشن میں نہ صرف کملا ہیرس کو بھاری اکثریت سے صدارتی امیدوار چن لیا گیا بلکہ تمام سرکردہ ڈیمو کریٹک رہنماؤں نے اس نامزدگی کی حمایت کر دی۔
کملا ہیرس کی نامزدگی کے ساتھ ہی ڈیمو کریٹک پارٹی کی عوامی حمایت میں تیزی سے اضافہ ہونے لگا اور جن ریاستوں میں ٹرمپ بائیڈن کے مقابلے میں آگے تھے‘ وہاں کملا ہیرس کی حمایت میں اضافہ ہونے لگا۔ حتیٰ کہ امریکہ کی سوِنگ سٹیٹس (swing states) جن میں پنسلوینیا‘ جارجیا‘ وسکونسن‘ ایریزونا اور مشی گن شامل ہیں‘ جنہوں نے امریکہ کے ہر صدارتی انتخابات میں فیصلہ کن کردار ادا کیا‘ وہاں بھی کملا ہیرس کی مقبولیت میں اضافہ ہوا۔ کملا ہیرس نے حیرت انگیز سرعت اور مہارت کے ساتھ نہ صرف ڈیمو کریٹک پارٹی کی صفوں میں اتحاد پیدا کر دیا بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کی ریپبلکن پارٹی سے تعلق رکھنے والے تقریباً دو سو اراکینِ کانگرس کی حمایت حاصل کرنے کا دعویٰ بھی کیا۔ کملا ہیرس کی حمایت کرنے والے ریپبلکن پارٹی کے رہنماؤں میں سابق امریکی صدر جارج ڈبلیو بش اور سابق نائب امریکی صدر ڈک چینی بھی شامل ہیں۔ ڈک چینی کی بیٹی لِز چینی نے اپنے باپ کے حوالے سے بتایا ہے کہ وہ ڈونلڈ ٹرمپ کو جھوٹا اور امریکہ میں جمہوریت کیلئے خطرہ سمجھتے ہیں اور نومبر کے صدارتی انتخابات میں وہ کملا ہیرس کو ووٹ دیں گے۔ اگرچہ جارج ڈبلیو بش کی طرف سے ابھی تک اس حوالے سے کوئی واضح بیان سامنے نہیں آیا کہ وہ کس کو ووٹ دیں گے مگر 2016ء کے انتخابات میں انہوں نے اپنی پارٹی کے امیدوار ٹرمپ کے مقابلے میں ڈیمو کریٹک پارٹی کی امیدوار ہلیری کلنٹن کو ووٹ دیا تھا۔
کملا ہیرس کے صدارتی امیدوار بننے سے ڈیمو کریٹک پارٹی کی الیکشن فنڈنگ میں بھی حیران کن اضافہ ہوا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق اگست میں کملا ہیرس کے الیکشن فنڈز میں دی جانے والی رقم 361 ملین ڈالر ہو چکی ہے جو ٹرمپ کو ملنے والی رقم سے تین گنا زیادہ ہے۔ حالیہ ٹی وی مباحثے میں ٹرمپ کے مقابلے میں کملا ہیرس کی بھاری کامیابی کا ایک سبب یہ ہے کہ انہوں نے نائب صدر کا عہدہ سنبھالنے سے پہلے کیلیفورنیا میں پبلک پراسیکیوٹر کی حیثیت سے جو تجربہ اور مہارت حاصل کی تھی‘ اس مباحثے میں اس تجربے کا انہوں نے مؤثر استعمال کیا۔ ڈیڑھ گھنٹے کے مباحثے کے دوران کملا ہیرس پُرسکون اور پُراعتماد نظر آ رہی تھیں جبکہ ٹرمپ کے چہرے پر تناؤ اور غصے کے اثرات نمایاں تھے۔ مباحثے کے پہلے 15منٹ کے دوران ٹرمپ کا پلڑا بھاری تھا مگر اسکے بعد کملا ہیرس نے ٹو دی پوائنٹ اور ڈائریکٹ سوالات کی بوچھاڑ کر کے ٹرمپ کو سنبھلنے کا موقع نہیں دیا۔ ایک موقع پر جب ٹرمپ نے صدر جوبائیڈن کی زیادہ عمر اور صحت خراب ہونے کے باعث صدارتی مہم سے بھاگ جانے کا مذاق اُڑایا تو کملا ہیرس نے انہیں کہا کہ ''تمہارا مقابلہ بائیڈن سے نہیں‘ بلکہ مجھ سے ہے‘ اب میری بات کرو‘‘۔ مباحثے کے دوران بالخصوص اس کے آخری حصے میں ٹرمپ واضح طور پر جھنجھلاہٹ کا شکار تھے اور سوالات کا جواب دینے کے بجائے اینکر پرسن سے اُلجھنے لگے۔ بالخصوص جب ان سے یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا انہیں چھ جنوری کے واقعہ پر کوئی تاسف ہے تو سوال کا جواب دینے کے بجائے امریکہ میں تارکینِ وطن کے داخلے کو نیشنل سکیورٹی کے لیے خطرہ قرار دے کر بائیڈن انتظامیہ پر تنقید کرنے لگے۔ مباحثے کے دوران دونوں امیدواروں نے امریکہ کو درپیش اندرونی و بیرونی مسائل پر اپنے اسی مؤقف کو دہرایا جس کا وہ اپنی انتخابی مہم کے دوران بارہا ذکر کرچکے ہیں۔
10 ستمبر کو ہونے والا ٹی وی مباحثہ کملا ہیرس اور ٹرمپ کے درمیان مباحثوں کے سلسلے کا پہلا مباحثہ ہے۔ اس میں کملا ہیرس نے ٹرمپ پر فتح حاصل کی ہے‘ مگر کیا پہلے مباحثے میں کملا ہیرس کی فتح نومبر میں ہونے والے صدارتی انتخاب میں ان کی جیت کا پیش خیمہ ثابت ہو سکتی ہے‘ اس کا جائزہ ہم اگلے کالم میں لیں گے۔ (جاری)