حکومت احتجاج کیلئے مناسب جگہ مختص کرے:اسلام آباد ہائیکورٹ

حکومت احتجاج کیلئے مناسب جگہ مختص کرے:اسلام آباد ہائیکورٹ

اسلام آباد(اپنے نامہ نگار سے) اسلام آباد ہائیکورٹ نے پی ٹی آئی کا احتجاج رکوانے کیلئے دائر درخواست پر حکمنامہ جاری کرتے ہوئے کہااسلام آباد میں غیرقانونی اجتماع کی اجازت نہیں دی جائے گی،حکومت احتجاج کیلئے مناسب جگہ مختص کرے ۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامرفاروق کی عدالت نے تاجروں کی درخواست پر وفاقی سیکرٹری داخلہ اور چیف کمشنر اسلام آباد کو فوری اقدامات کرکے اسلام آباد کے حالات معمول پر لانے کی ہدایت کرتے ہوئے کہا میں آج آرڈر جاری کروں گا اور کیس آئندہ ہفتے کیلئے دوبارہ رکھ رہا ہوں،مجھے امید ہے پیر کو ہم واپس آئیں تو حالات معمول کے مطابق ہوں،چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ عامر فاروق نے تاجروں کی درخواست پر سماعت کا تحریری حکمنامہ بھی جاری کردیا جس میں کہا گیا ہے کہ یقینی بنایا جائے کہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او)سمٹ کے دوران اسلام آباد میں احتجاج اور لاک ڈاؤن کی صورتحال پیدا نہ ہو۔انتظامیہ اور حکومت احتجاج کیلئے مناسب جگہ مختص کرے اور مظاہرین مختص کردہ جگہ پر جا کر اپنا احتجاج ریکارڈ کروائیں۔

آئین کے آرٹیکل 16 اور 17 عوام کو اجتماع اور نقل و حرکت کے بنیادی حقوق فراہم کرتے ہیں تاہم یہ بنیادی حقوق قانون کے مطابق لگائی گئی مناسب قدغن پر منحصر ہیں۔عدالت کو بتایا گیا کہ ایک سیاسی جماعت کے کارکن ریڈ زون کی جانب مارچ کر رہے ہیں، ریڈ زون کا اجتماع دیگر شہریوں کی نقل و حرکت منجمد کردے گا، حکم دیا جاتا ہے کہ اسلام آباد میں امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنے کے لیے مناسب اقدامات کیے جائیں۔آرٹیکل 245 کے تحت امن و امان کی صورتحال کو برقرار رکھنے کے لیے فوج کو بھی تعینات کر رکھا ہے ۔شہر میں دفعہ 144 نافذ ہے ، اس صورتحال میں اسلام آباد میں کسی قسم کے احتجاج کی اجازت نہیں دی جاسکتی۔قبل ازیں دوران سماعت چیف جسٹس نے کہامیں صورتحال سمجھ سکتا ہوں، میں خود کنٹینرز کے درمیان سے گزر کر آیا ہوں، ایک چیز ہر ایک کو یاد رکھنی چاہیے کہ ہر شہری کے حقوق ہیں،ایک شہری کے حقوق کے ساتھ ساتھ دیگر کے حقوق کا خیال بھی رکھنا ہوتا ہے ،امن و امان کی صورتحال برقرار رکھنا حکومت کا کام ہے۔

چیف جسٹس عامر فاروق نے کمرا عدالت میں موجود ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد کو روسٹرم پر بلا لیااور کہاکہ سیکرٹری داخلہ سے کہیں عدالت میں پیش ہو جائیں،پولیس کے بھی کسی ذمہ دار افسر کو پیش ہونے کا کہہ دیں،وزیر داخلہ کو بلانا تو شاید مناسب نہ ہو لیکن اگر ہوں تو انہیں بھی بلا لیں، عدالت پی ٹی آئی کو کوئی ڈائریکشن نہیں دے سکتی،میں حکومتی اداروں کو آرڈر جاری کر سکتا ہوں کہ شہریوں کے حقوق کا تحفظ کریں،موبائل سگنل دو دن سے بند ہیں کسی کی ایمرجنسی ہو جائے تو کیا ہو گا، چیف جسٹس نے سیکرٹری داخلہ کو ذاتی حیثیت میں طلب کرتے ہوئے سماعت میں وقفہ کردیا،جس کے بعد دوبارہ سماعت ہونے پر سیکرٹری داخلہ خرم علی آغا عدالت میں پیش ہوگئے ،چیف جسٹس نے استفسار کیاکہ سیکرٹری صاحب آپ نے پورا شہر کیوں بند کیا ہوا ہے ؟ جس پر سیکرٹری داخلہ نے کہاکہ ملائشیا کے وزیراعظم گزشتہ روز اسلام آباد میں موجود تھے ، اسلام آباد میں احتجاج کیلئے قانون موجود ہے ،تین چار دن میں اہم سعودی وفد بھی پاکستان پہنچ رہا ہے ،شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونا پاکستان کیلئے باعث فخر ہے ، چیف جسٹس نے کہاکہ آپ حکومت ہیں اور آپ کا کام برابری کے حقوق کو یقینی بنانا ہے۔

سرکار کا کام ہے کہ شہریوں کے برابر کے حقوق کو یقینی بنایا جائے ،کسی کا یہ حق نہیں کہ وہ سڑک کے درمیان اکٹھے ہو جائیں اور میرا راستہ بند کر دیں،ان کو مناسب جگہ دیں جہاں احتجاج کریں یا جو مرضی کرنا ہو کر لیں، چیف جسٹس عامر فاروق نے سیکرٹری داخلہ سے کہاکہ یہ آپ کا کام ہے اور آپ نے ہی کرنا ہے ،احتجاج بنیادی حق ہے ، مظاہرین جس حوالے سے احتجاج کر رہے ہیں کریں،اس وقت شہر ایسا لگ رہا ہے حالت جنگ میں ہے ،موبائل سروس بند ہے کوئی ایمرجنسی میں کسی سے رابطہ نہیں کر سکتا،آپ مناسب اقدامات کریں اور اسلام آباد کو کلیئر کریں،وفود پاکستان آ رہے ہیں کوئی نامناسب واقعہ ہوتا ہے تو وزارتِ داخلہ ذمہ دار ہو گی،آپ نے فوج بھی طلب کی ہوئی ہے ؟ آرمڈ فورسز سول حکام کی معاونت کرتی ہیں؟،دفعہ 144 نافذ ہے تو یقینی بنائیں کہ اس پر مکمل عملدرآمد ہو،سیکرٹری داخلہ نے کہاکہ وزیرِداخلہ نے بڑی نرمی سے درخواست کی لیکن وزیراعلیٰ کے پی بضد ہیں، وزیراعلیٰ کے پی بھاری حکومتی مشینری کے ساتھ آ رہے ہیں،بہت سی سرکاری مشینری کو نقصان پہنچایا گیا ہے جلا دیا گیا ہے۔

چیف جسٹس نے کہاکہ جو احتجاج کر رہے ہیں وہ بھی پاکستان کے شہری ہیں آپ نے ان کی جانوں کا بھی تحفظ کرنا ہے ،اگر ان کے اقدامات سے کسی اور کی جان کو خطرہ ہوتا ہے تو وہ غیرقانونی ہے ،آپ نے احتجاج کرنے والوں کو بھی اُن کے اپنے آپ سے محفوظ کرنا ہے ،آپ کے پاس بہت مشکل ٹاسک ہے لیکن آپ بہت اہم پوزیشن پر ہیں، وزیرداخلہ کو بتا دیں کہ آپ نے یہ بیلنس رکھ کر چلنا ہے ،شہر میں کرفیو کی صورتحال ہے ،آپ نے حالات معمول پر لانے کیلئے اقدامات کرنے ہیں،آپ نے یقینی بنانا ہے کہ اسلام آباد ایک پرامن شہر ہو،جو غیرملکی وفود آ رہے ہیں ہم اُن کو کیا دکھانے جا رہے ہیں،پاکستان کا کیا امیج جائے گا اگر ہم کنٹینرز سے بھرا اسلام آباد انہیں دکھائیں گے ، اس عدالت کی ڈائریکشن کی ضرورت بھی نہیں یہ آپ کا کام ہے ،عدالت نے سیکرٹری داخلہ اور چیف کمشنر کو فوری اقدامات کر کے اسلام آباد کے حالات معمول پر لانے کی ہدایت کرتے ہوئے سماعت 17اکتوبر تک ملتوی کردی۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں