آئینی ترامیم پر ڈیڈلاک برقرار:خصوصی کمیٹی میں مسود ے پیش جے یو آئی نے نئی عدالت کے قیام کی مخالفت کردی ،پی ٹی آئی بانی سے مشاورت کریگی
اسلام آباد(سٹاف رپورٹر)مجوزہ چھبیسویں آئینی ترمیم پر ڈیڈلاک برقرار، پارلیمان کی خصوصی کمیٹی میں مسودے پیش کرتے ہوئے جمعیت علما اسلام نے نئی آئینی عدالت کے قیام کی مخالفت کرتے ہوئے آئینی بینچ تشکیل دینے کی تجویز دے دی، تحریک انصاف نے مسودہ بانی پی ٹی آئی سے مشاورت سے مشروط کردیا۔
چیئرمین خصوصی کمیٹی سید خورشید شاہ کی زیرصدارت ہونے والے اجلاس میں مسودہ جات پر غور کیلئے اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں قانونی ماہرین پر مشتمل سب کمیٹی تشکیل دے دی گئی۔ سپریم کورٹ نے مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کیلئے 3 رکنی بینچ تشکیل دے دیا۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کی سربراہی میں بینچ 17 اکتوبر کو سماعت کرے گا، جسٹس نعیم افغان اور جسٹس شاہد بلال بینچ میں شامل ہیں،وکیل عابد زبیری نے مجوزہ آئینی ترامیم کے خلاف سپریم کورٹ میں آئینی درخواست دائر کی تھی۔رجسٹرار آفس نے ایڈووکیٹ عابد زبیری کو نوٹس جاری کر دیا ہے ۔پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کے اجلاس میں پی ٹی آئی کی طرف سے بیرسٹر گوہر، علی ظفر، عمر ایوب جبکہ اسد قیصر ویڈیو لنک کے ذریعے اجلاس میں شریک ہوئے ۔
اجلاس میں فاروق ستار، امین الحق، راجہ پرویز اشرف، نوید قمر، شیری رحمن، اعجاز الحق، اعظم نذیر تارڑ اور عرفان صدیقی سمیت دیگر شخصیات نے شرکت کی ۔ جے یو آئی(ف)کے سربراہ مولانافضل الرحمن اور چیئرمین پی پی بلاول بھٹوزرداری کمیٹی اجلاس میں شریک نہیں ہوئے ۔ پارلیمانی کمیٹی میں آئینی عدالت کے قیام ، جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو اور ججوں کی کارکردگی کی جانچ کے نظام پر غور کیا گیا،جے یو آئی نے مجوزہ ڈرافٹ کمیٹی میں پیش کیا،حکومت کے 56 نکاتی مسودے کے جواب میں اپنا مسودہ پیش کرتے ہوئے کامران مرتضیٰ نے کہا جے یو آئی (ف )کا ڈرافٹ 24 ترامیم پر مشتمل ہے ، پیپلز پارٹی اور ہمارے ڈرافٹ میں صرف آئینی عدالت اور کمیشن کا فرق ہے ، پیپلز پارٹی کے باقی ڈرافٹ پر ہمیں کوئی اعتراض نہیں، 200 سے بھی کم آئینی مقدمات کیلئے بڑے سیٹ اپ کی کوئی ضرورت نہیں ہے ، امید ہے جلد دونوں جماعتیں مشترکہ ڈرافٹ پر اتفاق کر لیں گی۔اجلاس میں وزیرقانون اعظم نذیر تارڑ کی سربراہی میں قانونی ماہرین پر مشتمل ذیلی کمیٹی تشکیل دی گئی جس میں بیرسٹر گوہر، کامران مرتضیٰ، انوشہ رحمن اور نوید قمر شامل ہوں گے ، یہ کمیٹی آئندہ ہفتے تک مسودہ جات پر غور کرے گی، بتا یا گیا ہے کہ ذیلی کمیٹی کے اجلاس میں کوئی بھی رکن شرکت کرسکے گا ،ذیلی کمیٹی مخصوص کمیٹی کو رپورٹ دے گی۔ خصوصی کمیٹی کاآئندہ اجلاس 17اکتوبر کو ہو گا ۔
وفاقی وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے کہا اس طرح کے معاملات میں گفت و شنید سے بات آگے بڑھتی ہے ، کون سی ایسی چیز ہے جس کا حل نہیں؟ آئین کی حدود کے اندر گفت و شنید کا سلسلہ جاری ہے ، صرف تنقید سے معاملات حل نہیں ہوں گے ، ملک چوک ہوا پڑا ہے ، فیصلوں پر تنقید ہورہی ہے ، اجلاس کے دوران آئینی عدالت کے قیام، ججوں کی کارکردگی کی جانچ کے میکنزم اور جوڈیشل کمیشن کی تشکیل نو کے حوالہ سے غور کیا گیا، کسی بھی نئے ادارے کے قیام کیلئے بہت سے لوازمات پورے کرنے ہوتے ہیں۔ سپریم کورٹ کے موجودہ چیف جسٹس 25اکتوبر کو سبکدوش ہو رہے ہیں، آئین پاکستان میں اگر سینئر ترین جج کو چیف جسٹس تعینات کرنے کا لکھا ہے تو وہی چیف جسٹس ہوں گے اور ان کی تقرری کا نوٹیفکیشن 25 اکتوبر کو حکومت جاری کر دے گی جس میں ان کے حلف کی تاریخ اور جگہ کا بھی تعین ہو گا۔ سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا ساری جماعتوں کے مسودوں میں کوئی اصولی اختلاف نہیں ہے ، ذیلی کمیٹی دو دنوں میں سفارشات خصوصی کمیٹی کو دے گی، پی ٹی آئی کے اختلافات زیادہ ہیں ، ان کے تحفظات بھی ہیں، پی ٹی آئی کے تمام تحفظات دور کرنے کی یقین دہانی کی گئی ہے ۔ آئینی ترمیم کی نوعیت سیاسی نہیں ہے ، یہ پارلیمان کی بالادستی کیلئے کی جارہی ہے ، نمبرز پورے ہوں گے تو ترمیم ہو گی ، نہ ہوئے تو نہیں ہو گی۔پی ٹی آئی چیئرمین بیرسٹر گوہر نے کہا کہ ہم کوئی مسودہ نہیں لائے آج بھی ہمارے پاس پیش کرنے کے لیے کوئی مسودہ نہیں، بانی پی ٹی آئی سے مسودے پر مشاورت کا گزشتہ روز بھی ذکر کیا تھا۔
پیپلز پارٹی کے رہنما راجہ پرویز اشرف نے کہا کہ مولانا فضل الرحمن نے گزشتہ اجلاس میں اچھی بات کہی کہ جے یو آئی اور پیپلز پارٹی اتفاق رائے سے آئینی تر میم کا مسودہ بنائیں گے اور اسے شیئر کریں گے ، معاملات درست سمت میں جا رہے ہیں تاہم 25 اکتوبر کا ایشو الگ ہے یہ آئینی ترمیم ہے ۔ پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے کہا کہ ہم آہنگی پیدا کرنے کی کوشش کر رہے ہیں، کمیٹی کا اجلاس ان کیمرہ ہے ، قائد اعظم محمد علی جناح نے بھی آئینی عدالت کو ترجیح سمجھا، یہ آئینی ترمیم عدالت پر حملہ ہر گز نہیں ہے ۔ایم کیو ایم کے رہنما فاروق ستار نے کہا ہم نے آئینی ترمیم کا مسودہ نہیں دیکھا، ن لیگ ، پیپلزپارٹی اور تحریک انصاف تینوں جماعتیں ضرورت کے تحت اصلاحاتی ایجنڈے کی مخالفت یا حمایت کرتی ہیں،پی ٹی آئی عدالتی اصلاحات سے متعلق ماضی میں حق میں تھی، آج مخالفت اس لیے کررہی کہ سیاسی مفادات کو نقصان پہنچ رہا، اصول کہاں ہیں ہم تو اصولوں کو ڈھونڈ رہے ہیں۔ادھر وزیر اعظم شہباز شریف سے ملاقات کرنیوالے متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے وفد نے آئین کے آرٹیکل 140 اے سے متعلق مجوزہ بل بھی ترامیم میں شامل کرنے کا مطالبہ کردیا ، ذرائع کے مطابق ایم کیو ایم نے تجویز دی کہ آرٹیکل 140 میں ترمیم کے ذریعے نئی مقامی حکومتوں کا نظام قائم کیا جائے ،50لاکھ سے زیادہ آبادی والے پانچ بڑے شہروں کو میٹرو پولیٹن شہر قرار دیا جائے ، مقامی حکومتوں کے انتخابات الیکشن کمیشن کے تحت کرائے جائیں،ہر مقامی حکومت پانچ سال کے لئے منتخب کی جائے ، جبکہ میئر کا انتخاب براہ راست کیا جائے ،مقامی حکومت قبل از وقت تحلیل ہونے کی صورت میں نئے انتخابات دو ماہ میں کروانے کیلئے بھی ترمیم کی جائے ۔
ایم کیو ایم وفد نے کہا کہ آئینی ترامیم کا مجوزہ مسودہ ڈاکٹر فاروق ستار کو مل گیا،شہباز شریف نے حکومتی وفد کو معاملات پر فوری ایم کیو ایم سے مشاورت کی ہدایت کی،حکومتی وفد آج کراچی میں سیاسی جماعت کے مرکز جائے گا۔ملاقات میں اسحاق ڈار، احسن اقبال، رانا ثنا اللہ، ایاز صادق، اعظم نذیر تارڑ اور خواجہ سعد رفیق موجود رہے جبکہ ایم کیو ایم وفد میں فاروق ستار، امین الحق اور کامران ٹیسوری شامل تھے ۔ حکومتی وفد آئینی ترامیم کے مجوزہ ڈرافٹ پر ایم کیوایم کو اعتماد میں لے گا، حکومتی وفد میں ایاز صادق، خواجہ سعد رفیق اور اعظم نذیر تارڑ بھی شامل ہوں گے جبکہ گزشتہ روز پاکستان پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام کے درمیان آئینی ترامیم کے حوالے سے ڈرافٹ پر زرداری ہاؤس میں مشاورت ہوئی جس میں سید نوید قمر، مرتضیٰ وہاب اور سینیٹر کامران مرتضیٰ نے شرکت کی۔چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو نے آئینی ترمیم کا مسودہ سوشل میڈیا پر شیئر کرتے ہوئے عوام سے تجاویز بھی مانگ لیں،بلاول بھٹو نے کہا ہم ایک وفاقی آئینی عدالت کے قیام کی تجویز دیتے ہیں، جس میں تمام وفاقی اکائیوں کی مساوی نمائندگی ہو، وفاقی آئینی عدالت بنیادی حقوق، آئینی تشریح اور وفاقی و بین الصوبائی تنازعات سے متعلق تمام مسائل کو حل کرے گی۔ ہماری تجویز ہے ججوں کی تقرری کا عمل، جو ججوں کے ذریعے اور ججوں کے لیے ہوتا ہے ، ختم کیا جائے ، ججوں کی تقرری عدالتی اور پارلیمانی کمیٹیوں کو ضم کر کے کی جائے ، ہم پارلیمنٹ، عدلیہ اور قانونی برادری کو مساوی کردار دینے کے قائل ہیں۔پیپلز پارٹی نے اپنا مسودہ کچھ مہینے قبل حکومت کے ساتھ شیئر کیا۔
کچھ ہفتے قبل جے یو آئی کے ساتھ اور حال ہی میں خصوصی پارلیمانی کمیٹی میں شیئر کیا۔ میں عوام کی جانب سے اس ترمیم کو مزید بہتر بنانے کے لیے جائز اور معنی خیز تجاویز کا خیرمقدم کرتا ہوں۔بلاول نے اپنے ایک اور ٹویٹ میں کہا وفاقی آئینی عدالت کا قیام قائداعظم کا خواب تھا،قائد اعظم کی تجویز پی پی کی پیش کردہ تجویز سے تقریباًمماثلت رکھتی ہے ،قائد اعظم کی تجاویزجرمنی کے 1949 کے بنیادی قانون سے بھی مماثل تھیں،جہاں آئینی عدالت کا قیام عمل میں آیا۔خیال رہے مجوزہ حکومتی مسودے کے مطابق وفاقی آئینی عدالت چیف جسٹس سمیت 7 ارکان پر مشتمل ہو گی، آئینی عدالت کے چیف جسٹس اور دو سینئر ترین ججز رکن ہوں گے ۔مجوزہ ترمیم میں کہا گیا ہے کہ وفاقی آئینی عدالت میں وزیرِ قانون، اٹارنی جنرل پاکستان اور بار کونسل کا نمائندہ شامل ہو گا۔پہلے چیف جسٹس کا تقرر صدر مملکت وزیراعظم کی ایڈوائس پر کرینگے ۔پہلے چیف جسٹس اور تین سینئر ججز کا تقرر کمیٹی کی سفارش پر کیا جائے گا اور کمیٹی میں 4 ارکان پارلیمنٹ، وفاقی وزیر قانون اور پاکستان بار کونسل کا نمائندہ شامل ہوگا ۔ آئینی عدالت کے ججز کے تقرر کیلئے کمیشن تشکیل دیا جائے گا جس کے سربراہ چیف جسٹس وفاقی آئینی عدالت ہونگے اور کمیشن میں آئینی عدالت کے پانچ سینئر ترین ججز ممبران ہونگے ۔صوبائی آئینی عدالتیں چیف جسٹس، صوبائی وزیرقانون، بارکونسل کے نمائندے پرمشتمل ہونگی۔جج کی عمر 40 سال، تین سالہ عدالت اور 10 سالہ وکالت کا تجربہ لازمی ہوگا، جج کی برطرفی کیلئے وفاقی آئینی کونسل قائم کی جائے گی اور کسی بھی جج کی برطرفی کی حتمی منظوری صدر مملکت دیں گے ۔وفاقی آئینی عدالت کا فیصلہ کسی عدالت میں چیلنج نہیں ہو سکے گا،چاروں صوبائی آئینی عدالتوں کے فیصلوں پر اپیل وفاقی عدالت میں ہوسکے گی۔
سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر بھی 8 رکنی پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے ہوگا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کا تقرر تین سینئر ترین ججز میں سے کیا جائے گا۔آئین کی63،51،175،187، اور دیگر شقوں میں بھی ترامیم کی جائیں گی،ذرائع کے مطابق بلوچستان اسمبلی کی نمائندگی میں اضافے کی ترمیم بھی مجوزہ آئینی ترامیم میں شامل ہے ، بلوچستان اسمبلی کی سیٹیں 65 سے بڑھاکر 81 کرنے کی تجویز شامل کی گئی ہے ۔ مسودے میں منحرف اراکین کے ووٹ سے متعلق آرٹیکل 63 میں ترمیم بھی شامل ہے ، آرٹیکل 181 میں بھی ترمیم کیے جانے کا امکان ہے ۔دوسری جانب مجوزہ آئینی ترمیم پر جمعیت علمائے اسلام کا ڈرافٹ بھی منظر عام پر آگیا۔جے یو آئی کے ڈرافٹ کے مطابق آئینی مقدمات کی سماعت کے لئے سپریم کورٹ کے خصوصی بینچز تشکیل دئیے جائیں گے ، آئینی بینچ چیف جسٹس پاکستان اور 4 سینئر ترین ججوں پر مشتمل ہو گا۔جمعیت علمائے اسلام کی جانب سے ججوں کی تعیناتی کی حد تک 18ویں ترمیم پر عملدرآمد کی تجویز دی گئی ہے ، ہائیکورٹ کے آئینی بینچ کے فیصلوں کے خلاف سپریم کورٹ کا آئینی بینچ اپیل کی سماعت کا مجاز ہو گا جبکہ آئین کی تشریح سے متعلقہ مقدمات کی سماعت محض آئینی بینچ کرے گا۔جے یو آئی کی جانب سے تجویز دی گئی ہے کہ کسی بھی قانون سازی کی اسلامی نظریاتی کونسل سے منظوری لازمی ہو گی، جمعیت علمائے اسلام نے یکم جنوری 2028 سے تمام اقسام کے سود کے خاتمے کی تجویز بھی دی ہے ۔ جمعیت علمائے اسلام نے سپریم جوڈیشل کونسل میں تمام صوبائی ہائیکورٹس کے چیف جسٹس صاحبان کی شمولیت اور نااہل ججز کے خلاف کارروائی کی تجویز دی ہے ۔تجویز میں سپریم جوڈیشل کونسل کے نئے چیئرمین کی تعیناتی پارلیمان کے کسی بھی ایوان سے قرارداد کی منظوری سے مشروط کی گئی ہے جبکہ پارلیمان اسلامی نظریاتی کونسل کی رپورٹس پر ایک سال میں قانون سازی کی پابندہو گی۔مجوزہ ترمیم میں سروسز چیفس کی مدت ملازمت میں توسیع کے امور پارلیمان کی خصوصی کمیٹی کی منظوری سے مشروط کرنے اور انسداد دہشت گردی ایکٹ 1997 میں بھی ترامیم کی تجویز دی گئی ہے ۔