ہوسکتابے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں،ہم قانون کاغذوں پر چلتے ہیں،سچ اوپر والا جانتا ہے چیف جسٹس فائزعیسی کا الواداعی خطاب:قانون کی حکمرانی یقینی بنائینگے:نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی

ہوسکتابے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں،ہم قانون کاغذوں پر چلتے ہیں،سچ اوپر والا جانتا ہے چیف جسٹس فائزعیسی کا الواداعی خطاب:قانون کی حکمرانی یقینی بنائینگے:نامزد چیف جسٹس یحییٰ آفریدی

اسلام آباد(نمائندہ دنیا، دنیا نیوز، مانیٹرنگ ڈیسک)چیف جسٹس فائز عیسیٰ اپنے عہدے سے سبکدوش ہوگئے ،اپنے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے انہوں نے کہا ہو سکتا ہے ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں،ہم قانون، کاغذوں پر چلتے ہیں۔

 سچ اوپر والا جانتا ہے ،چیف جسٹس بلوچستان بننے پر زندگی بدلی،وہاں جوکچھ کیا اس میں اہلیہ کا کردار ہے ،لوگ ہمیں سمجھ گئے لیکن جسٹس یحییٰ کو نہیں سمجھ  پائے ، جسٹس یحیی آفریدی آج چیف جسٹس کا حلف اٹھائیں گے ، تقریب ایوان صدر میں ہوگی، صدر آصف زرداری 11بجے حلف لیں گے ،نامزد چیف جسٹس نے کہا جسٹس فائزسے بہت کچھ سیکھنے کو ملا، کمی محسوس کرینگے ، ان کے غصے کے وقت صرف اللہ ہی بچا سکتا ہے ،قانون کی حکمرانی یقینی بنائیں گے ،اختیارات کی تقسیم کے اصول پر عمل ہو گا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے اعزاز میں فل کورٹ ریفرنس سپریم کورٹ کمرہ عدالت نمبر ایک میں ساڑھے 10 بجے شروع ہوا جس میں چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ اور نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی سمیت 16 ججز شریک ہوئے ،جن میں 12مستقل جج صاحبان، 2 ایڈہاک ججز اور 2 عالم ججزبھی شامل ہیں، الوداعی ریفرنس میں جسٹس امین الدین خان، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس محمد علی مظہر، جسٹس حسن اظہر رضوی، جسٹس شاہد وحید، جسٹس مسرت ہلالی، جسٹس عرفان سعادت خان، جسٹس نعیم اختر افغان، جسٹس شاہد بلال حسن اور جسٹس عقیل عباسی ،ایڈہاک ججز جسٹس سردار طارق مسعود،جسٹس مظہر عالم میاں اور شرعی عدالتی بینچ کے دو عالم ججز شریک ہوئے ۔

سبکدوش چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے خطاب میں کہا تمام شرکا بالخصوص نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی اور دیگر ساتھی ججز، اٹارنی جنرل منصور اعوان، پاکستان بار کونسل کے نائب چیئرمین اور صدر سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن کا شکریہ ادا کرتا ہوں، جو لوگ آج فل کورٹ ریفرنس میں نہیں آئے ان کا بھی شکریہ ادا کرتا ہوں۔ سب سے پہلے اللہ تعالیٰ کا شکر ادا کرتا ہوں جنہوں نے مناسب سمجھا کہ میں یہ منصب سنبھالوں، عوام کا شکریہ اور چودھری افتخار صاحب کا شکریہ جنہوں نے میرا بطور چیف جسٹس بلوچستان ہائی کورٹ انتخاب کیا۔ جب میں بلوچستان ہائی کورٹ گیا تو میں واحد جج تھا، ملک میں آئینی بحران آ چکا تھا تو مجھے کسی سے سیکھنے کو نہیں ملا، وکلا نے مجھے سکھایا اور بلوچستان کے وکلا کی مدد سے آگے بڑھے ، ججز کو تعینات کیا اور ایک غیرفعال عدالت عالیہ بلوچستان کا کام شروع ہوا۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنی ذاتی زندگی کے حوالے سے چیزوں کو ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پشین میں رہنے والی میری دادی نے آج سے 100 سال قبل اپنے تینوں بیٹوں کو اس وقت کی بہترین تعلیم دلانے کا فیصلہ کیا۔

ان کے سب سے بڑے بیٹے قاضی موسیٰ ایکسیٹر کالج گئے ، اس کے بعد میرے والد قاضی محمد عیسیٰ انگلستان بار کی ڈگری لینے گئے اور سب سے چھوٹے قاضی اسماعیل پائلٹ بنے ۔میرے اس وکالت کے پیشے اور اپنی اہلیہ سے وابستگی کو 42 سال ہو چکے ہیں جنہوں نے میرا ہر اچھے برے وقت میں ساتھ دیا، اس وقت کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری نے اپنے رجسٹرار کے ذریعے مجھے بلایا، مجھے لگا انہوں نے ڈانٹ ڈپٹ کرنے کے لیے بلایا ہے لیکن انہوں نے کہا کہ آپ بلوچستان سنبھالیں کیونکہ وہاں کوئی جج نہیں رہا، میری زندگی میں میری بیوی ویٹو پاور ہے اور ان کی رضامندی کے بعد میں بلوچستان آ گیا اور راتوں رات میری زندگی بدل گئی۔انہوں نے کہا ہم خوش قسمت ہیں کہ ہمارے بچے ہمیں سکھاتے ہیں، ایک دن صفیہ (نواسی)نے مجھے کہا میرے دوست مجھ سے بہت ناراض ہیں کہ آپ نے مارگلہ ہل کی پہاڑی پر ریسٹورنٹس کو مسمار کرنے کا حکم دیا ہے ، میرے کچھ کہنے سے پہلے ہی صفیہ نے کہا کہ میں نے دوستوں سے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے جانور اور پرندے بھی بنائے ہیں، ان کا بھی تو ہمیں خیال رکھنا ہے ، یہ تو ان کا گھر ہے اور ہم ان کے گھر میں داخل ہو گئے ، ماحولیات بہت اہم موضوع ہے اور ہم کو اس پر توجہ دینی چاہیے ۔

چیف جسٹس نے کہا سپریم کورٹ میں میرا پہلا کام رجسٹرار کا انتخاب تھا جو درست ثابت ہوا، اپنے ساتھ کام کرنے والے تمام عملے کا مشکور ہوں، کیس سنتے ہوئے اندازہ لگانا ہوتا ہے سچ کیا ہے جھوٹ کیا ہے ، ہو سکتا کہ ہم نے بے پناہ غلط فیصلے کیے ہوں کیونکہ کاغذ کے ٹکڑوں پر جو لکھا گیا ہے وہ ایک پارٹی کو فائدہ دیتا ہے اور دوسرے کو نہیں، سچ کیا ہے وہ تو اوپر والا جانتا ہے لیکن ہم کاغذوں اور قانون پر چلتے ہیں کہ جو کاغذ کی بنیاد پر کیس ثابت کر سکے ۔چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے کہا فاروق ایچ نائیک کو تب سے جانتاہوں جب میں نے وکالت شروع کی تھی، فل کورٹ سے متعلق ٹاک شو دیکھ رہا تھا، سب کہہ رہے تھے چیف جسٹس یہ کریں گے فلاں جج وہ کریں گے ۔ٹاک شو میں جسٹس یحیی آفریدی کا پوچھا گیا تو تجزیہ کار نے کہا ان کا کسی کو معلوم نہیں، تجزیہ کار بولا جسٹس یحیی آفریدی جو بھی کریں گے آئین کے مطابق کریں گے ، لوگ ہمیں سمجھ گئے لیکن جسٹس یحیی آفریدی کو نہیں سمجھ پائے ۔اس موقع پر چیف جسٹس نے اپنی تعریف پر مبنی انگلینڈ سے ایک خاتون کا لکھا ہوا خط بھی پڑھ کر سنایا۔

اس موقع پر چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کا مزید کہنا تھا کہ میں کہتا ہوں کہ لوگ میری تعریفیں کرتے ہیں لیکن اہلیہ نہیں مانتیں، میں شکر ادا کرتا ہوں آج میری اہلیہ یہاں موجود ہیں اور خود لوگوں کو میری تعریفیں کرتے سنا۔بعد ازاں چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ سپریم کورٹ میں یادگار کے افتتاح کی تقریب میں پہنچے ، اس موقع پر نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی سمیت دیگر ججز نے بھی شرکت کی۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا سپریم کورٹ میں یہ جگہ خالی تھی، لوگ دور دراز کے شہروں سے یہاں آکر سڑک پر تصاویر بنواتے ہیں، یہ یادگار عوام کیلئے ہے جو آرکیٹیکٹ میرا مکان بنا رہا ہے اس نے رضاکارانہ طور پر اس کام کے لیے رضامندی ظاہر کی۔سپریم کورٹ کے نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی نے کہا چیف جسٹس قاضی فائزعیسیٰ سے ہمیں بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔اُ ن کی کمی محسوس کریں گے ۔

قانون کی حکمرانی کویقینی بنائیں گے ۔انصاف کی فراہمی کیلئے باراور بینچ کے درمیان تعاون ناگزیرہے ۔خواتین ،بچوں اورخصوصی افراد کے کیسزکوترجیح دینی چاہیے ۔الوداعی ریفرنس سے اپنے خطاب میں انہوں نے کہا اس وقت میرے اندر ملے جلے رجحانات ہیں، ایک طرف چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کی ریٹائرمنٹ پر دل اداس ہے کہ ہمیں آپ کی زبردست مزاح کی کمی شدت سے محسوس ہو گی ،تو دوسری طرف خوشی بھی ہے کہ قاضی فائز عیسیٰ اچھی صحت کے ساتھ ریٹائرڈ ہو رہے ہیں۔چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ کو بہت اچھا انسان پایا، گر آپ ان سے خوشدلی کے ساتھ پیش آئیں گے تو جسٹس قاضی فائز عیسیٰ ایسی نرم دلی اور خوش اسلوبی کے ساتھ پیش آئیں گے جو آپ کو حیران کردے گی لیکن اگر آپ نے کسی بھی طرح انہیں اشتعال دلانے کی کوشش کی تو پھر ان کا سامنا کرنا آسان نہیں ہوتا، جسٹس یحیی نے قاضی فائز عیسیٰ کو ریچھ سے تشبیہ دیتے ہوئے کہا اگر آپ نے کسی بھی طریقے سے انھیں اشتعال دلانے کی کوشش کی یا ریچھ کو چھیڑنے کی کوشش کی تو آپ کو جہنم میں بھی جگہ نہیں ملے گی اور صرف اللہ ہی آپ کو بچا سکے گا۔انہوں نے جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے مزاج اور شخصیت میں موجود سختی کے پہلو کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ میں آپ کو بتادوں کہ میں نے اس bear(ریچھ) کے شدید غصے اور اشتعال انگیزی کا کئی بار سامنا کیا ہے اور یہ تجربہ خوشگوار نہیں تھا، اس موقع پر کمرہ عدالت میں قہقہے لگ گئے جبکہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی کے خطاب پر مسکراتے رہے ۔

جسٹس یحیی نے کہا بطور جج ان سے بہت کچھ سیکھا جہاں مجھ جیسے کئی لوگ خاموشی میں ہی عافیت سمجھتے اور یہ تسلیم کرنے میں شرم محسوس کرتے تھے کہ ہم قانون امور کے بارے میں زیادہ معلومات نہیں رکھتے ۔نامزد چیف جسٹس یحیی آفریدی نے فل کورٹ سے خطاب کرتے ہوئے مزید کہا کہ چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز عیسیٰ نے خواتین کے وراثتی جائیداد میں حق سے متعلق بہترین فیصلے کیے ، ججز میں اختلاف رائے کو چیف جسٹس پاکستان قاضی فائز نے تحمل کیساتھ سنا۔ چیف جسٹس پاکستان نے حکومتی خرچ پر ظہرانہ لینے سے انکار کیا، ظہرانے کے خرچ کا سارا بوجھ مجھ پر پڑا، میں نے اپنے کچھ ساتھی ججز سے کہا آپ بھی شیئر کریں، ایسے دور دراز کے اضلاع بھی ہیں جو توجہ کے حقدار ہیں، اختیارات کی تقسیم کے اصولوں پر عمل ہو گا۔الوداعی ریفرنس کا آغاز قرآن پاک کی تلاوت سے کیا گیا جس کے بعد فل کورٹ ریفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اٹارنی جنرل منصور اعوان نے کہا چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے خود کو بطور قابل وکیل منوایا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بلوچستان بار ایسوسی ایشن کی بھی نمائندگی کی۔

چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بلوچستان میں تعلیمی نظام کی روانی یقینی بنائی، انہوں نے بلوچستان میں جنگلی حیات کو بچانے کے لیے اہم کردار ادا کیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے بطور چیف جسٹس بلوچستان 5 سال خدمات انجام دیں، انہوں نے خواتین کے حقوق کے لیے کردار ادا کیا۔ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے یقینی بنایا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں اپنی حدود میں کام کریں ،انہوں نے یقینی بنایا کہ انٹیلی جنس ایجنسیاں سیاسی معاملات میں مداخلت نہ کریں ۔چیف جسٹس ہمیشہ بنیادی حقوق، آزادی اظہار اور خواتین کے حقوق کے علمبردار رہے ، انہوں نے متعدد تاریخی فیصلے دیئے ، فیض آباد دھرنا کیس میں قانون کے مطابق اور پرامن احتجاج کا تاریخی فیصلہ دیا، چیف جسٹس نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کے کردار کو بھی واضح کیا۔چیف جسٹس بنتے ہی فل کورٹ ریفرنس بلایا،جسٹس قاضی فائز نے مقدمات کو براہ راست نشر کرنے کا فیصلہ کیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے چیف جسٹس کے اختیارات کو کمیٹی کے سپرد کرنے جیسے اہم اقدامات اور فیصلے دیئے ، چیف جسٹس کا عام انتخابات کے انعقاد میں اہم کردار ہے ، تمام سٹیک ہولڈرز کو جمہوریت کی بقا کے لیے انتخابات پر راضی کیا، چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والد پاکستان کے بانیان میں سے تھے ۔

اسلام آباد(کورٹ رپورٹر)سپریم کورٹ کے سینئر جج جسٹس منصور علی شاہ نے کہا چیف جسٹس فائز عیسیٰ نے عدلیہ میں بیرونی مداخلت کے دروازے کھولے ،جسٹس منصور علی شاہ نے رجسٹرار کو اپنے مراسلے میں کہا دنیا بھر میں ریٹائرڈ ہونے والے چیف جسٹس کو ان کی خدمات پر ان کے اعزاز میں ریفرنس دیا جاتا ہے ، ماضی میں جب سابق چیف جسٹس ثاقب نثار نے اختیارات کا غلط استعمال کیا تو ان کے ریفرنس میں بھی شرکت سے انکار کیا، آج بھی میں نے انہی وجوہات کی بنا پر ریفرنس میں شرکت سے انکار کردیا ہے بلکہ آج وجوہات زیادہ پریشان کن ہیں، چیف جسٹس کا بنیادی فرض شہریوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے اور سب کو انصاف فراہم کرنا ہے جبکہ چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ شتر مرغ کی طرح ریت میں سر رکھے عدلیہ پر بیرونی اثرات اور دباؤ سے لاتعلق رہے ، عدلیہ میں بیرونی مداخلت روکنے کی بجائے اس کے دروازے کھولے ،عدلیہ کا چیک اینڈ بیلنس نہیں رکھا ۔

جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے مداخلت روکنے کے لیے جذبہ دکھایا نہ ہی اخلاقی جرات کا مظاہرہ کیا، جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے عدلیہ کو کمزور کرنے اور اپنے قوانین بنانے کو مناسب بنیاد دی ۔ چیف جسٹس کی نظر میں عدلیہ کے فیصلوں کی کوئی قدر اور عزت نہیں، انہوں نے شرمناک انداز میں کہا فیصلوں پر عمل درآمد نہ کیا جائے ۔جسٹس قاضی فائز عیسیٰ نے اپنے ساتھی ججز میں تفریق پیدا کی، ججز میں اس تفریق کے اثرات تا دیر عدلیہ پر رہیں گے ۔فل کورٹ ریفرنس میں شرکت اور ایسے دور کا جشن منانا پیغام دے گا کہ چیف جسٹس اپنے ادارے کو نیچا کر سکتا ہے ، ادارے کو نیچا کرنے کے باوجود سمجھا جائے گا کہ ایسا چیف جسٹس عدلیہ کے لیے معزز خدمت گاررہاہے ، میں ایسے چیف جسٹس کے ریفرنس میں شرکت نہیں کرسکتا۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں